اداکاری کے بعدبھیروی رائے چورا بطورپروڈیوسر پہلے پروجیکٹ کی ناکامی پردل برداشتہ

مہر النساء  پير 3 دسمبر 2012
مجھے مزید ڈراموں کے لیے آفرز کا انتظار کبھی نہیں رہا۔ بھیروی رائے چھورا۔ فوٹو : فائل

مجھے مزید ڈراموں کے لیے آفرز کا انتظار کبھی نہیں رہا۔ بھیروی رائے چھورا۔ فوٹو : فائل

 بھیروی رائے چورا کا ٹیلی ورلڈ سے دس سال پرانا تعلق ہے اور بحیثیت اداکارہ اس نے شہرت بھی سمیٹی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُسے انڈسٹری سے کسی جان دار کردار کی آفر نہیں ہوئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے مایوس ہو کر ٹیلی ویژن کی دنیا ہی میں ایک نئے شعبے میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

جی ہاں، اب چھوٹی اسکرین کے ناظرین اُسے اسکرین پر نہیں دیکھیں گے!

دراصل بھیروی بہ طور پروڈیوسر ان کی تفریح طبع کا سامان کرنے میں جٹ گئی ہے اور اس سلسلے میں اس نے پہلا قدم کلرز ٹی وی چینل پر’’چال، شہہ اور مات‘‘ کے نام سے اٹھایا ہے، جو مہم جوئی اور سسپنس پر مبنی ڈراما ہے، لیکن افسوس کہ یہ شو ناظرین کی توجہ حاصل نہیں کر سکا اور چند ماہ بعد اسے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ کہانی میں بار بار تبدیلی اور کرداروں کا الٹ پلٹ کیا جانا ہے۔ بھیروی کا پروڈیوسر کے طور پر ناکام ہونے بعد کیا گیا ایک انٹرویو آپ کے لیے پیش ہے۔

٭ ٹیلی ویژن پر اپنے سفر کی بابت بتائیے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ میں کبھی اداکارہ ہی نہیں بننا چاہتی تھی۔ اسکول کے زمانے میں چند ڈراموں میں کام کیا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ مجھے پُراعتماد بنانا چاہتی تھیں۔ دراصل میں بچپن میں بہت شرمیلی تھی اور وہ میری جھجک ختم کرنے کے لیے مجھے آگے لائی تھیں۔ پھر ایکتا کے ایک ڈرامے میں بھی کام کرنے کا موقع ملا اور پہلا کردار ’’ ہم پانچ‘‘ میں ادا کیا۔ اس طرح میں اداکاری کی طرف آئی، لیکن مجھے مزید ڈراموں کے لیے آفرز کا انتظار کبھی نہیں رہا، کیوں کہ میں یہ کام کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اس دوران نہ چاہتے ہوئے بھی دو ایک ڈراموں میں کام کیا۔ اب میں پروڈیوسر کے طور پر خود کو آزما رہی ہوں، سچ پوچھیے تو اس میں مجھے اپنے لیے کشش محسوس ہوتی ہے۔

٭ اداکارہ نہیں بنناچاہتی تھیں، لیکن مستقبل کے لیے کچھ تو سوچا ہو گا؟
جس وقت مجھے ’’ہم پانچ‘‘ کا کردار ملا، میں دسویں جماعت کی طالبہ تھی۔ اس عمر میں مستقبل کی کوئی فکر نہیں تھی۔ کوئی تصور ذہن میں نہیں تھا کہ آگے چل کر کچھ کرنا ہے۔ بس یہ تھا کہ بچپن میں ایئر ہوسٹس پسند تھیں اور میں خود کو اس روپ میں دیکھا کرتی تھی۔ تاہم میرا وہ خواب بھی پورا نہیں ہو سکا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے خوابوں کی جو دنیا سجائی، اس میں تعبیر کا کوئی امکان داخل نہیں ہو سکا، لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ میں زندگی میں ناکام ہو گئی ہوں۔ ابھی میرے سامنے کئی محاذ ہیں، جن پر لڑنے کے لیے خود کو تیار کر رہی ہوں۔ اس میں کہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا اور کہیں کام یابی میرا مقدر بنے گی۔ مجھے خود پر بھروسا ہے اور میں اس کے سہارے آگے بڑھ رہی ہوں۔

٭ ’’ہم پانچ‘‘ آپ کے نزدیک ایک بڑی کام یابی ہے۔ اس کے بعد مزید آفرز ہوئی تھیں؟
جی ہاں، اسی سیریل کی بدولت مجھے ’’حسرتیں‘‘ اور ’’گدگدی‘‘ جیسے کام یاب پروگرام ملے۔ جب کہ چند ڈراموں میں مختصر رول بھی آفر ہوئے۔ میں نے وہ کیریکٹرز ضرور نبھائے، لیکن سچ پوچھیے تو نہایت بے دلی سے کام کیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے کوئی بڑا اور جان دار کیریکٹر کبھی نہیں آفر ہوا۔ ایکٹنگ میں میری عدم دل چسپی سب پر ظاہر ہو چکی تھی اور کوئی بھی پروڈیوسر اپنے دیے ہوئے کیریکٹر پر فن کار سے توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ میرے خیالات جاننے کے بعد کوئی احمق ہی مجھے مرکزی کردار آفر کر سکتا تھا۔ یہ بات نہایت عجیب ہے کہ میں ایکٹنگ کی طرف آنا نہیں چاہتی تھی، لیکن اس شعبے میں کام کیا اور ایسے ڈراموں میں کردار نبھائے، جنھیں ناظرین میں بے حد پسند کیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی کو میری اداکاری کا شوق نہ رکھنے والی بات ہضم نہیں ہوتی۔

٭ پروڈیوسر بننے کا خیال کب آیا؟
ڈراما سیریل ’’اک پریم کہانی‘‘ کے سیٹ پر میری ملاقات نندیتا سے ہوئی۔ ایک موقع پر ہم دونوں نے کچھ منفرد کرنے کی ٹھانی۔ ہمارے ذہن میں اپنا پروڈکشن ہاؤس بنانے کا خیال آیا اور اس کی تیاری مکمل کرنے کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ ہمیں اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کا آغاز کرنے میں کافی وقت لگا۔ میری چھوٹی بہن بھی اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹا رہی ہے۔

٭ اس بارے میں تفصیل سے بتائیے؟
میں پروڈکشن سے متعلق تمام معاملات دیکھتی ہوں۔ میری بہن نے فنانس اور مارکیٹنگ کا شعبہ سنبھالا ہوا ہے، جب کہ نندیتا تخلیقی کاموں کی ذمے دار ہے۔ ہم تینوں کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کا کام بٹائیں، لیکن دخل اندازی سے گریز کرتے ہیں۔ اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ تھوڑے عرصے بعد میٹنگ کرکے ایک دوسرے کو اپنے کام کی دشواریوں اور کام یابیوں سے آگاہ کرتے ہیں اور مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ یہ ایک مضبوط ورکنگ ریلیشن شپ ہے اور ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

٭ آپ نے ’’چال، شہہ اور مات‘‘ سے آغاز کیا، لیکن بری طرح ناکام ہوئیں۔ اس پر کچھ کہیے۔
ہاں، یہ ایک مہم جوئی اور پُراسراریت پر مبنی کہانی تھی، میں نے بہت محنت کی تھی، لیکن مجھے دکھ ہے کہ یہ ناکام ثابت ہوئی۔ اس قسم کے موضوعات پر کام کرنے کے لیے سب تیار نہیں ہوتے۔ ہماری کلرز ٹی وی چینل سے بات ہوئی، تو انھوں نے خوش آمدید کہا، لیکن سب کے اندازے غلط نکلے اور بدقسمتی سے یہ شو ناکام ہو گیا۔ ابتدا میں ہم نے سوچا تھا کہ اس میں عام ڈراموں کی طرح تفریح کا کوئی عنصر شامل کیا جائے، مگر پھر یہ سوچ ترک کر دی۔ میرے اس شو کی کہانی میں بار بار ردوبدل کیا گیا اور کئی تجربات کیے گئے۔ اس وجہ یہ تھی کہ ہم مکمل طور پر کچھ منفرد کرنا چاہتے تھے۔ ابتدا میں ہمیں محسوس ہوا کہ ہم کام یابی کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں تھا۔

٭ اداکاری کے مقابلے میں بہ طور پروڈیوسر کیا مختلف پایا؟
سب سے پہلا فرق تو یہ ہے کہ اداکارہ کی حیثیت سے مجھے اپنا کام ختم کرکے گھر جانا ہوتا تھا، لیکن ہدایت کاری کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر کئی گھنٹے اپنے پروجیکٹ کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی اداکار اپنے سین عکس بند کروانے کے بعد اس کے نتائج سے بے فکر ہوسکتا ہے، لیکن پروڈیوسر کی حیثیت سے میں آخری لمحے تک اپنے پروجیکٹ سے متعلق فکر مند رہتی ہوں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے اچھے یا برے رسپانس کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر بھی ہوتی ہوں۔

٭ ایک ذاتی سوال ہے۔ آپ نے اب تک شادی کیوں نہیں کی جب کہ آپ سے چھوٹی بہن شادی شدہ ہیں؟
اس کا سیدھا جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے اپنا ہم خیال مل گیا ہے۔ مجھے ابھی تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو میری توجہ حاصل کر سکا ہو۔ جیسے ہی کوئی ہم خیال اور چاہنے والا ملے گا، میں شادی کر لوں گی(مسکراتے ہوئے)۔

٭ والدین کی طرف سے شادی کے لیے دباؤ تو ہوگا؟
تھوڑا عرصہ پہلے تک کافی دباؤ تھا، مگر میں نے انھیں اپنے آئیڈیل کی بابت بتا دیا ہے۔ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر وہ میرے لیے کوئی ایسا شخص ڈھونڈ لیں، جو میرا ہم خیال ہو اور میری قدر کرسکے تو مجھے بتادیں، میں فوری ہاں کر دوں گی۔

٭ ٹیلی ویژن انڈسٹری میں میل پروڈیوسرز زیادہ ہیں۔ آپ خود کو کیسے منوائیں گی؟
یہ کوئی کلیہ نہیں کہ میل پروڈیوسر ہی کام یاب پروگرام پیش کر سکتا ہے۔ جو بھی محنت کرے گا اور نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا، اسے کام یابی ملے گی۔ وہ اپنا نام بنائے گا اور انڈسٹری میں مقام حاصل کرے گا۔ یہ خلائی فتوحات کا دور ہے، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ذہن بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ مرد اور عورت کی تخصیص بے معنی ہے۔ اس لیے یہ سوال بھی اہمیت نہیں رکھتا کہ میں کیسے خود کو منواؤں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔