اگست کے مہینے میں ’ستمبر کا چاند‘

زاہدہ حنا  اتوار 28 اگست 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

21 اگست 2007ء گزر گئی… انھوں نے لنگر اٹھایا اور وقت کے سمندر میں اُس سمت نکل گئیں جہاں دبیز کُہرا چھایا ہوا رہتا ہے اور جس سے پرے ہم اس وقت تک جھانک کر نہیں دیکھ سکتے جب تک خود لنگر نہ اٹھا لیں اور ہونے سے نہ ہونے کا ہمارا سفر شروع نہ ہو جائے۔ ایک ایسا سفر جس کا انت نہیں یا شاید ہو جاتا ہو، ہم جو ابھی ساحل پر کھڑے ہیں کس طرح اس بارے میں کوئی حکم لگا سکتے ہیں۔

اگست کے شب و روز سجاد حیدر یلدرم اور بنت الباقر کی بیٹی قرۃالعین کی یادگیری کے خاص دن ہیں۔ اگست کی ان تاریخوں میں مجھے ان کا رپورتاژ ’ستمبر کا چاند‘ یاد آتا ہے۔ اب سے 60 برس پہلے جاپان کے شہر ٹوکیو میں ادیبوں اور دانشوروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 28 ملکوں کے 200 سے زیادہ ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی تھی اور جسے قرۃالعین حیدر نے ادیبوں کا ایک زبردست اجتماع قرار دیا تھا۔ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ ان دنوں وہ پاکستان کی شہری تھیں اور صرف 4 برس بعد ان کی شہریت بدلنے والی تھی۔ انھوں نے اس کانفرنس میں بہ طور ایک ’پاکستانی مندوب‘ شرکت کی اور اس کا ’رپور تاژ‘ لکھا کرشن چندر کے ’’پودے‘‘ کے بعد اردو کا شاید سب سے قابل ذکر رپورتاژ۔

یہ پین انٹرنیشنل کی وہ بین الاقوامی کانفرنس تھی جو سرد جنگ کے عہد عروج میں منعقد ہوئی۔ یہ بائیں بازو کے ادیبوں اور دانشوروں کی روکلا امن کانفرنس، نیویارک اور پیرس امن کانگریس کا جواب تھی۔ سوویت ٹینک بوڈاپسٹ کی سڑکوں کو روند چکے تھے، اس فتح کے خلاف آواز بلند کرنے والے نوجوانوں کے خون کا چھڑکاؤ ہو چکا تھا۔ ایسے میں آزاد دنیا کی طرف سے یہ کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی۔ قرۃالعین نے لکھا ہے کہ اس میں دنیا کے بعض اہم ترین ادیب اور دانشور شریک ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن اس میں اپنی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے نہ آ سکے تھے۔

اسی کانفرنس میں قرۃالعین حیدر سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پچھلے دنوں دلی میں پین انٹرنیشنل کی جو کانفرنس ہوئی تھی وہ اس میں کیوں شریک نہیں ہوئیں؟ وہ کہتی ہیں ’’مجھے بلایا تو گیا تھا مگر میں اپنے آپ کو ایماندار سمجھتی ہوں اور ایمانداری کا تقاضہ یہ تھا کہ میں پاکستان کی نمایندگی دلی میں نہیں کر سکتی تھی۔ جاپان ایک تیسرا ملک ہے۔ غیر جانبدار زمین‘‘۔

60 برس پہلے لکھا جانے والا ان کا یہ جملہ پڑھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ یہی وہ دن تھے جب وہ ’آگ کا دریا‘ لکھ رہی تھیں تو کیا پاکستان کے سیاسی حالات دیکھ کر شہریت ترک کرنے کی کشمکش ان کے اندر شروع ہو چکی تھی؟ ہم اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں!

200 سے زیادہ ادیب اور دانشور جس محفل میں موجود ہوں وہاں کچھ دنوں پہلے کے دوست اور ساتھی جس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ان کی جھلک وہ ہمیں یوں دکھاتی ہیں:

ایک امریکن ادیب نے قریب آ کر کھانے پر اظہار خیال شروع کیا ’’میں آپ لوگوں کی باتوں میں مخل تو نہیں ہوا؟‘‘ اس نے کہا۔

’’نہیں تو۔‘‘ مسٹر رائے نے جواب دیا۔ ’’ہم لوگ اپنے خاندانی جھگڑے کی باتیں کر رہے تھے۔ جب ایک خاندان میں پھوٹ پڑ جائے اور دو سگے بھائی اپنے آبائی مکان کا بٹوارا کر کے علیحدہ ہو جائیں تو ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ان میں دوبارہ اتفاق پیدا ہو سکے۔‘‘

’’صدیوں تک یہ دشمنی چلتی رہتی ہے۔ نفرت اور تلخی بڑھتی جاتی ہے، گھٹتی کبھی نہیں۔‘‘ قرۃالعین حیدر کہتی ہیں اور اس مچھلی کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں، جس میں بہت سے کانٹے ہیں اور جنھیں وہ نگل لیتی ہیں۔

ہنگری کو سوویت فوجوں نے کچھ ہی عرصے پہلے فتح کیا تھا۔ اس حوالے سے وہاں موجود ہنگری کے کئی ادیب اپنے اپنے خیالات کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے ’’میرے وطن (ہنگری) کے بہت سے ادیب پاگل ہو گئے ہیں۔ جیلوں میں بند ہیں۔ ان کو تھرڈ ڈگری کیا گیا۔‘‘ دوسرا ادیب کہتا ہے ’’ادیبوں کو جیل بھیجنا غلط ہے‘‘ تیسرا یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ ’’ادیبوں کو برین واش کرنا بھی غلط ہے‘‘۔ یہ چھوٹے چھوٹے جملے ہمیں اس وقت کی سیاست کے بارے میں کتنی بڑی باتیں سمجھا رہے ہیں۔

ٹوکیو کے انڈسٹریل کلب لنچ کے دوران ایک جاپانی ادیب پاکستانی مہمان خصوصی سے کہتا ہے:

وہ لکھتی ہیں: ’’لنچ کے دوران میری میز پر ایک صاحب آن بیٹھے۔ ایک جاپانی نے جو برابر کی کرسی پر بیٹھا تھا، ان سے کہا ’’میں اس قدر خوش قسمت ہوں کہ ٹیگور سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکا ہوں، عرصہ ہوا جب وہ جاپان آئے تھے۔‘‘

پاکستانی مہمان نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ جاپانی نے گھبرا کر ان کو دیکھا اور پھر خود بھی چپکا ہو رہا۔ شاید اسے احساس ہوا کہ اس نے غلط بات کہہ دی ہے۔ اس کے برابر میں دوسری طرف مشرقی پاکستان کے ایک ادیب بیٹھے تھے اور شاید اب تک وہ دونوں ٹیگور ہی کی باتیں کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کے ادیب بھی ہر بنگالی کی مانند خواہ وہ پاکستانی ہو یا ہندوستانی، ٹیگور کے پرستار تھے، مغربی پاکستان کے مہمان کی معنی خیز خاموشی پر وہ بھی چپ ہو گئے۔ چند لمحوں بعد مقابل میں بیٹھے ہوئے ایک یورپین نے دوسرا موضوع چھیڑ کر موقع کو سنبھالا۔

میں نے مغربی پاکستان کے ان مہمان سے آہستہ سے کہا ’’ٹیگور کے مسئلے پر آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

’’جی…‘‘

’’میرا مطلب یہ ہے کہ ٹیگور بنگلہ کا عظیم ترین شاعر ہے اور بنگلہ پاکستان کی ایک سرکاری زبان ہے تو اس حساب سے ٹیگور بھی پاکستانی شاعر ہوا۔‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آیا آپ کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘

’’دیکھئے میں عرض کروں‘‘ میں نے گلا صاف کیا۔ ’’آپ نذرالاسلام کو بڑا زبردست پاکستانی شاعر مانتے ہیں، جس غریب کو پاکستان کے وجود کی بھی خبر نہیں۔ ٹیگور کو آپ نہیں مانتے جب کہ آپ کو مشرقی پاکستان کے ہر گھر میں قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور کی تصویر بھی دیواروں پر آویزاں نظر آتی ہے۔ مطلب یہ کہ اس بے چارے جاپانی نے مارے اخلاق کے ٹیگور کے متعلق آپ سے بات کی تو آپ خاموش ہو گئے اور وہ بے حد کھسیانا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کلچر کی تقسیم کے بعد ٹیگور اور اقبال جیسی عظیم بین الاقوامی ہستیوں کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔‘‘ ان کی لکھی ہوئی یہ سطریں جون 1958ء کے ’نقوش‘ میں شایع ہوئیں اور مشرقی پاکستان کی ہم سے علیحدگی سر پُر تلی کھڑی تھی۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے میں ابھی لگ بھگ 15 برس باقی تھے لیکن پاکستانی افسران زبان کی باریکیوں کو سمجھنے پر تیار نہیں تھے۔

وقار ناصری نے لکھا ہے کہ: ’’قرۃالعین حیدر کا وہ منفرد اسلوب جو تاریخ، فلسفے، ادب اور عمرانیات وغیرہ کے حوالوں سے اپنی پرچھائیوں پر قدم رکھتا ہوا وقت کے دریا میں آگے بڑھتا ہے وہ اس رپورتاژ میں بھی نمایاں ہے۔ یہ محض دھند میں ڈوبے ہوئے قریوں، شکستہ ساحلوں اور گمشدہ زمانوں کی تلاش و جستجو کا سفر نہیں بلکہ لمحۂ موجود میں اپنے وجود کی تلاش کا وہ سفر نامہ ہے جس میں جاپان، فلپائن اور تھائی لینڈ جیسے ملک ایک پڑاؤ ہیں۔

ان کی یہ تحریر پڑھئے اور ان کے سیاسی اور سماجی شعور کی داد دیجیے جس کا دامن تھام کر وہ مشرقی ایشیا کے ملکوں اور ان پر مغربی تہذیب و تمدن کی یلغار کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ تاریخ اور سیاست کی اس سفاکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ ’’اس اجتماع میں انگریز بھی ہیں جنہوں نے میرے برصغیر کی اقوام کو دو سو سال تک غلام رکھا۔ اس محفل میں ان کے شکار بھی موجود ہیں جن کو آج کی بین الاقوامی اصطلاح میں انڈین اور پاکستانی کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ یہاں ڈچ بھی ہیں اور انڈونیزین بھی اور مشرق میں ڈچ کولونیلزم کا ریکارڈ تاریک ترین ہے۔ انھوں نے انڈونیزیا کو صدیوں تعلیم کی روشنی سے جبراً محروم رکھا۔‘‘

پھر وہ کسی ادیب سے ایک نفرت انگیز جملہ سن کر کہتی ہیں ’’آپ ایک انٹکچوئیل ہیں، آپ کو نفرت کے مسئلے پر زیادہ سائنٹفک طریقے سے سوچنا چاہیے۔‘‘ اس جملے پر 60 برس گزر گئے۔ اسے لکھنے والی فنا کے گھاٹ اتری۔ سوچنے کی بات ہے کہ اپنی نفرتوں کے بارے میں کیا ہم آج سائنٹفک طور سے سوچ رہے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔