کراچی کا بادشاہ :1

زاہدہ حنا  اتوار 4 ستمبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

روشن صبح ہے، فٹن میں بیٹھے ہوئے ایک خاندان کا رخ جمشید روڈ کی طرف ہے۔ عزیزوں سے ملنے کی خوشی سب ہی کے چہروں سے ہویدا ہے۔ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز اور کوچوان کی چابک کا لہرانا، کہانیوں کا ایک منظر۔ فٹن ’کراچی کھیر ہاؤس‘ کے برابر سے گزر رہی ہے اور اسی وقت گھوڑے کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے، کوچوان زور سے ہنستا ہے، لگامیں کھینچ کر فٹن روکتا ہے اور اپنی گدی پر سے کود کر اترتا ہے۔

چھ سات برس کی بچی حیرت سے اسے دیکھتی ہے۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ ’شہزادے کو پیاس لگی ہے، اسے معلوم ہے یہاں پانی ملے گا‘۔ وہ بچی سے کہتا ہے، پھر فٹن کو دھکیل کر چند قدم پیچھے لے جاتا ہے۔ گھوڑا خود ہی اپنی گردن گھماتا ہے اور سر جھکا کر پتھر کے ایک حوض سے پانی پینے لگتا ہے۔

بچی کے لیے یہ بھی ایک کہانی ہے۔ وہ ماں کی طرف دیکھتی ہے جس کا چہرہ سیاہ نقاب سے جھلک رہا ہے۔ ’اسے پیاؤ کہتے ہیں۔ یہاں سے جانور پانی پیتے ہیں‘۔ ماں نقاب الٹ کر گہری نظر سے گھوڑے کو دیکھتی ہے۔ گھر کے گھوڑے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

کوچوان یہ جملہ سن کر مسکراتا ہے ’کراچی کا بادشاہ جانوروں کو بھی پانی پلاتا تھا‘۔ اوپر گیا، جنت کے سب دروازے اس کے لیے کھل گئے تھے۔ گھوڑا سر اٹھاتا ہے، سرشاری کے عالم میں ہنہناتا ہے، اپنا سر جھٹکتا ہے، پانی کی بوندیں اڑتی ہیں، دھوپ ہر قطرے میں قوسِ قزح کا عالم کھینچ دیتی ہے۔ ایک بوند بچی کے ہاتھ کی پشت پر گرتی ہے، وہ اسے دیکھتی رہتی ہے۔ ذہن پر نقش ہو جانے والا منظر اور ایک نام۔ ’کراچی کا بادشاہ‘ وہ ہر رات کہانیاں سنتی ہے۔ ’بادشاہوں اور وزیروں کی‘ پریوں اور جنوں کی کہانیاں۔ کراچی کے بادشاہ کی کہانی بھی وہ سنے گی۔

باپ نے کراچی کے بادشاہ کی کہانی کچھ یوں بیان کی کہ ایک امیر زادہ تھا نام جس کا جمشید نسروان جی رستم جی تھا۔ ایک زرتشتی خاندان کا بیٹا، پوتڑوں کا رئیس۔ باپ کی آٹے، نمک اور برف کی فیکٹری، سیمنٹ اور ٹائلز کے کارخانے، امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کا پھیلا ہوا کاروبار۔ غلے اور شراب کا ایک بڑا اسٹور، الفنسٹن اسٹریٹ (آج کی مشرف بہ اسلام زیب النساء اسٹریٹ) پر جدید وضع کی ایک دکان جہاں سے شہر اور سندھ کی انگریز، ہندو، پارسی اور مسلمان اشرافیہ خریداری کرتی تھی۔

باپ نے خواہش کی کہ بیٹا خاندانی کاروبار سنبھالے اور حسب روایت بیٹے نے سب سے نچلی سیڑھی سے کام سیکھنا شروع کیا لیکن اس کا دل کسی اور راہ چلنے پر اکساتا تھا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شہزادہ گوتم کی طرح راج پاٹ تیاگ کر جنگل بیابان کو چل نکلا لیکن دنیا میں رہتے ہوئے اور دولت کے دریا میں ہاتھ ڈبوتے ہوئے اس نے انسانوں اور جانوروں کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔

13 برس کی عمر کھیلنے کودنے اور مزے اڑانے کی ہوتی ہے لیکن وہ جب 13 برس کا تھا تو اس نے ایک قصاب کو دیکھا جو ایک گائے کو گھسیٹتے ہوئے مذبح خانے کی طرف لے جا رہا تھا۔ گائے ڈکراتے ہوئے بے قراری سے رسی تڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جمشید کے سینے پر گھونسا لگا۔ اچھا تو ہماری میز پر گائے، بکری اور مرغی کے جو لذیذ کباب اور پلاؤ ہوتے ہیں وہ ایسے ہی مظلوموں کو ذبح کر کے تیار کیے جاتے ہیں۔

یہ وہ دن تھا جب اس نے گوشت خوری ترک کی اور پھر زندگی بھر دال اور سبزی پر گزارا کیا۔ اس نے ابتدائی تعلیم ایک پارسی اسکول میں لی جس کے بعد کراچی کے بہترین اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ آج بھی این جے وی اسکول کی راہداری میں اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ بعد میں اس نے ڈی جے سائنس کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔

کہا جاتا ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں، اسے انسانوں کی خدمت اور اسی حوالے سے سیاست کے خارزار میں قدم رکھنا تھا، تب ہی یہ ہوا کہ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد ساری دنیا میں مہلک انفلوینزا کی وبا پھیلی۔ لوگ اس کے مریض سے یوں ڈرتے تھے جیسے طاعون کے کسی مریض سے۔ کراچی بھی اس وبا کا شکار ہوا۔

ڈاکٹر کم تھے اور مریض زیادہ، گھر والے بھی تیمار داری سے خوف کھاتے تھے، ایسے میں جمشید نے آستین چڑھائی اور بیماروں کی دیکھ ریکھ میں جُٹ گئے یہاں تک کہ لوگ بہ طور خاص ہندو انھیں بھگوان کا روپ سمجھنے لگے جسے موت سے خوف نہیں محسوس ہوتا تھا۔

وہ ابتدائی عمر سے ہی ایک اداس اور انسانوں کے مسائل پر دُکھنے والے نوجوان تھے۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات تھیوسوفیکل سوسائٹی کی مسز اینی بیسنٹ سے ہوئی۔ مسز اینی بیسنٹ کے صوفیانہ خیالات نے ان کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور وہ انسانوں کے درد کے رنگ میں رنگے گئے۔ آج کے لوگوں کے لیے یہ بات ناقابل یقین ہو گی کہ درد کا یہ رشتہ انھیں سیاست کے کوچے میں لے گیا۔ آج سیاست تجارت بن چکی ہے اس وقت جمشید اور کئی دوسروں کے لیے سیاست محض عبادت تھی۔

کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ’’جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے اردگرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔

ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست برآمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بنا کر بھیجتے اور کراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی تو انھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کر دیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنا لیا۔

ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50 لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر رازداری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا‘‘۔

جمشید نے عمر بھر شادی نہیں کی، نہایت سادہ زندگی گزاری۔ ہمیشہ کینوس کے جوتے پہنے کیونکہ چمڑے کے جوتے پہننے کا مطلب کسی جانور کی توہین تھا۔ سندھ لیجیسلیٹو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ بمشکل اس شرط پر راضی ہوئے کہ کسی سے ووٹ نہیں مانگا جائے گا۔ انتخابی اخراجات مقررہ حد سے تجاوز نہیں کریں گے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا۔ وہ کامیاب ہوئے اور اتنی بھاری اکثریت سے کہ ان کے دوست بھی حیران رہ گئے۔

وہ 12 برس تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ حاتم علوی نے شہر کے لیے ان کی کارگزاری کو عمر خیام کے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس نے شہر کو یوں اپنے ہاتھ سے بنایا جیسے کوزہ گر مٹی کو برتتا ہے تا کہ تیار ہونے والا ظرف اس کی آرزو کے مطابق ڈھل سکے۔

میونسپلٹی کی صدارت کے ان 12 برسوں کے دوران انھوں نے کم آمدنی والوں کے لیے گھر بنوائے، نوجوانوں اور بچوں کی تفریح کے لیے باغ لگوائے، پینے کے صاف پانی کا انتظام کیا۔ سارے شہر میں اردو کی تعلیم کا اور خاص طور سے غریب اور ناخواندہ مسلمانوں کے بچوں کے لیے پرائمری تعلیم کا اہتمام کیا۔ اپنی ماں سے انھیں بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جہانگیر پارک میں ایک میٹرنٹی ہوم تعمیر کرایا اور اس کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں میٹرنٹی ہوم بنوائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماں جیسی عظیم ہستی کا دکھ درد بانٹنے کے لیے ہم جو کچھ بھی کریں وہ کم ہے۔ اس کے لیے وہ شہر کے مالدار لوگوں کو آمادہ کرتے کہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ حصہ اپنی ماؤں کے نام دان کریں۔ وہ صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں، جانوروں کے دکھ درد پر بھی تڑپ اٹھتے تھے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔