اخبار کی نئی زندگی

عبدالقادر حسن  اتوار 11 ستمبر 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قارئین کے حضور میری غیر حاضری ہوتی رہتی ہے اور مجھے اپنی یہ کوتاہی بڑی شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے۔ یہ سب کیوں ہوا، عمر بھر لکھتے لکھتے کوئی ایسا مرحلہ درپیش نہیں آیا کہ قلم نے چلنے سے معذرت کر دی ہو یا میری انگلیاں جواب دینے لگ گئی ہوں البتہ اس طویل ترین مشق میں دماغی تھکان ضرور پیدا ہوئی جو ایک بالکل قدرتی معاملہ ہے۔

میں اپنی تحریر کے تسلسل کی عمر بیان کر کے قارئین کو پریشان نہیں کرنا چاہتا کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ میں نے ان کے ساتھ اتنا عرصہ بغیر اطلاع کے گزار دیا اور اب جب حساب کرنے کی کوشش کی تو خود حیران رہ گیا اور پریشان بھی ہو گیا کہ اس قدر طویل عرصے تک میں نے قارئین کو مسلسل مصروف رکھا۔ قارئین کرام کی فراخدلی ہے کہ صبر کے ساتھ ایک زمانے تک ہر روز اور بعد میں کچھ ناغوں کے ساتھ وہ اس قلمی افتاد کو سہتے رہے۔

سوائے شکریے کے میں اور کیا عرض کر سکتا ہوں لیکن یہ شکریہ وغیرہ کب تک، اب تو قومی مسائل یا روزمرہ کے واقعات کو تختہ مشق بنانا پڑے گا۔ قارئین اپنی جیب سے اچھی بھلی قیمت ادا کر کے اخبار کے چند ورقے گھر لے جاتے ہیں یا گھر میں منگوا لیتے ہیں۔ ان کی اس کرم فرمائی کا شکریہ یہ ہے کہ انھیں ان کے پسند اور ضرورت کا مواد فراہم کیا جائے اور انھیں ہر روز کچھ نہ کچھ اپنی طرف سے بھی دیا جائے جس سے وہ اطمینان محسوس کریں اور ایک اخبار سے وہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ انھیں کسی نہ کسی حد تک ملتا رہے اور وہ اخبار کی قیمت کا بدلہ پا کر قدرے مطمئن ہو جائیں۔

قارئین کا اطمینان حاصل کرنا ایک مشکل بلکہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ قارئین کو کیا کچھ پسند ہے اور کیا کچھ وہ پڑھنے کی بجائے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ ردی کی ٹوکری سے ایک واقع یاد آیا کہ لندن میں ایک اخبار کے دفتر میں دیکھا کہ ایک صاحب ردی کی ٹوکری پر مسلط ہیں اور اس میں پڑا ہوا ایک ورق دیکھ رہے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد ان کی جگہ ایک اور تازہ دم صاحب لے لیتے ہیں اور اس طرح اخبار کے سب ایڈیٹروں کی ردی کی ٹوکریوں کی عزت افزائی جاری رہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ خبروں کے رش کے دوران سب ایڈیٹر بعض خبریں بے دھیانی سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں جو ردی کی ٹوکری کی نہیں اخبار کی تیاری میں کام آنے والی ہوتی ہیں۔ چنانچہ سب ایڈیٹروں کی اس جلدی کا ایک ازالہ یہ ہے کہ ان کی مسترد خبریں ردی کی ٹوکری سے نکال کر دوبارہ دیکھ لی جائیں کہ کوئی ضروری خبر ضایع نہ ہو جائے۔

خبر کا ’مس‘ ہونا بری بات ہوتی ہے اور میسر خبر اگر سب ایڈیٹر کی غلطی سے چھپنے سے رہ جائے تو یہ ناقابل معافی ہے۔ وہ کوئی ایسی ضروری خبر بھی ہو سکتی ہے جس سے محرومی اخبار کو بہت مہنگی پڑ جائے چنانچہ ایسی کسی انسانی غلطی کے ازالے کے لیے کچھ لوگ اس کام پر لگے رہتے ہیں کہ ردی کی ٹوکری سے کام کی کوئی خبر تلاش کر لیں۔

سخت مقابلے کی فضا میں ایک اخبار قارئین کے سامنے پیش ہوتا ہے اسے ہر ممکن طریقے سے مکمل ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی کوتاہی قبول نہیں کی جا سکتی۔ اب اگر کبھی کسی اخبار کے دفتر میں جائیں تو وہاں ایک ہنگامہ برپا ہے، خبریں بھیجنے والی مشین ٹھک ٹھک کرتی ہیں اور ان سے لی گئی خبریں سب ایڈیٹروں کی زبان اور ہاتھوں کو امن نہیں لینے دیتیں پھر بھی جب اخبار تیار ہوتا ہے تو اس میں کام کرنے والے کوئی بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوتا۔

اللہ جانے کوئی خبر چھپنے سے رہ گئی ہو یا خبروں کی ترتیب میں کوئی غلطی رہ گئی ہو۔ یہاں ایک واقع یاد آ رہا ہے سن لیجیے۔ اس زمانے میں ہمارا اخبار ایک دوسرے پریس میں چھپتا تھا جو ذرا فاصلے پر تھا۔ جو چپڑاسی خبروں کی کاپی لے کر پریس جاتا تھا ایک دفعہ کیا ہوا کہ اخبار کی یہ تیار شدہ کاپی اس سے کہیں گر گئی۔ اس چپڑاسی نے ہمت کی اور فوراً ہی دفتر پہنچ گیا اور اس حادثے سے مطلع کر دیا۔

ایسے عظیم حادثے سے پہلی بار سابقہ پڑا تھا لیکن بے حد تجربہ کار نیوز ایڈیٹر مرحوم ظہور عالم شہید نے اس دن کے اخبار میں درج شدہ خبروں کے ٹوٹے نیوز روم میں چننے شروع کر دیئے۔ پورا سٹاف ان کے ساتھ تھا بہرحال کئی خبروں کی ردی کے ٹکڑے مل گئے۔ ردی کی ٹوکریاں الٹ پلٹ کی گئیں۔ کئی خبروں کے ٹکڑے مل گئے، کچھ سب ایڈیٹروں کے حافظوں میں محفوظ تھیں۔ بہرحال اس طرح اخبار کا ایک نیا ایڈیشن تیار ہو گیا اور کچھ تاخیر سے پریس پہنچ گیا۔ دوسرے دن مکمل اخبار حسب معمول چھپ کر آ گیا۔ اخبار کا دفتر حیرت زدہ تھا لیکن نیوز ایڈیٹر کا کمال تھا کہ وہ اخبار بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔