ایلس فیض : دلدار داستان گو (پہلا حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 21 ستمبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پہلی جنگ عظیم کا زمانہ، لندن پر اسی جنگ کے سائے گہرے اور مہیب تھے۔ اسی شہر کے ایک کتاب فروش کے یہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔ شاید ’ایلس ان ونڈر لینڈ‘ کی ہیروئن کے نام پر اسے بھی ’ایلس‘ کہا گیا اور سچ تو یہ ہے کہ وہ نوجوانی میں ہی ’ونڈر لینڈ‘ کی سیر کو نکل گئی اور پھر وہاں سے پلٹ کر واپس اپنی جنم بھومی نہ آئی۔ یہ ’ونڈر لینڈ‘ ہندوستان جنت نشان تھا اور جب لہولہان ہوا تو ایلس پاکستان میں رہی۔

کم عمری میں ہی اس نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت اختیار کی۔ پارٹی کے دوستوں کی کرم فرمائی تھی کہ اس کی ملاقات چند پُرجوش اور سیاسی طور پر سرگرم ہندوستانیوں سے ہوئی جو برطانوی استعمار کے خلاف تھے اور ان ہی کی پیروی میں وہ ’فری انڈیا لیگ‘ کی رکن بنی۔ یہی دن تھے جب اس کی بہن کرسٹابیل ایک ہندوستانی ماہر تعلیم اور دانشور محمد دین تاثیر سے بیاہ کر ہندوستان سدھاری۔ دونوں کہنے کو بہنیں تھیں لیکن اس سے بڑھ کر ایک دوسرے کی سنگی سہیلی تھیں۔ خون کے رشتے سے کہیں توانا دل کے دھڑکنے کی صدا ہوتی ہے۔

ایلس دل کی اسی تال پر رقصاں ہندوستان آئی۔ تحریکِ آزادی عروج پر تھی، ہندوستانی نوجوانوں کا سیاسی جوش و خروش آسمان کو چھو رہا تھا۔ ایم ڈی تاثیر اور کرسٹابیل کے حلقے میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں اور صحافیوں کا ایک بڑا حلقہ تھا اور اسی میں ایک ابھرتا ہوا نوجوان شاعر تھا جسے پھر دنیا نے فیض احمد فیض کے نام سے پہچانا۔ فیض اور ایلس کی اسی حلقے میں ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات دائمی رفاقت میں تبدیل ہوگئی۔

اس وقت ان ہی ایلس فیض کی انگریزی تحریروں کا مجموعہ Over My Shoulder میرے ہاتھوں میں ہے۔ یہ مجموعہ سنگ میل، لاہور نے شایع کیا اور منیزہ ہاشمی نے محبت سے مجھے بھجوایا ہے۔ ایلس عمومی طور سے لوگ جنھیں فیض کی ’بیگم‘ کے طور پر جانتے ہیں، اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ انھوں نے فیض صاحب کی زندگی کے مشکل ترین دنوں میں ان کا ساتھ نہایت وقار اور متانت سے دیا۔ اپنی بیٹیوں سلیمیٰ اور منیزہ کی تعلیم و تربیت اس طرح کی کہ کیا کوئی مشرقی ماں کرے گی۔ ان باتوں کے باوجود بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایلس کا قلم انگریزی میں فراٹے بھرتا تھا اور ایک زمانہ وہ بھی گزرا جب ان کے لکھے ہوئے لفظ ان کے ڈائننگ ٹیبل پر رکھے ہوئے ٹوسٹر کو زندہ رکھتے تھے اور گرم سنہرا آملیٹ ایلس کی آنکھوں کے تیل سے تلا جاتا تھا۔ چھیمی اور مینرو کی اسکول فیس اور گھر کی سفید پوشی کا بھرم ایلس کی یہی تحریریں رکھتی تھیں۔

ایلس کی تحریروں کا انتخاب 1938ء سے شروع ہوتا ہے جب وہ اور ان کی دو سہیلیاں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ایک اطالوی بحری جہاز میں سوار ہوتی ہیں۔ ان کی دونوں انگریز سہیلیاں ایک ہندو اور ایک سکھ کے عشق میں گرفتار ہیں اور ان سے شادی کرنے کے لیے یہ سفر کررہی ہیں جب کہ ایلس کا صفحۂ دل کورا کاغذ ہے۔ ان کی دونوں سہیلیاں نہیں جانتیں کہ کوئی دن جاتا ہے جب ان کی تیسری سہیلی سیلیبریٹی بن جائے گی اور ایک ایسے شخص کی شریک حیات ہوگی جس پر سیکڑوں حسینائیں مر مٹیں گی، ان میں سے کچھ ایلس سے دوستی کرلیں گی اور بہت سی ان سے حسد کرتی رہیں گی۔ تاثیر نے کتابوں کی فرمائش کی تھی، انگریزی ادب کے پشتاروں سے بھرا ہوا جہازی سائز صندوق لے کر ایلس وینس سے بمبئی کے لیے روانہ ہوئیں۔

ایک جادوئی دیس کا انجانا سفر۔ راستے بھر وہ ان ہندوستانی دوستوں کو یاد کرتی آئیں جن سے لندن میں ملاقاتیں رہی تھیں۔ وہ اسپینش جنگ میں سرگرم رہنے والوں، سجاد ظہیر، ڈاکٹر نذیر احمد، ملک راج آنند، اقبال سنگھ، وکٹر کیرنن اور دوسرے بہت سے دوستوں کو یاد کرتی ہیں اور سمندر کی لہروں پر تھرکتے ہوئے جہاز ’وکٹوریہ‘ کے عرشے سے غروب آفتاب اور طلوع ماہتاب کا منظر دیکھتی ہیں۔ ایک نئی دنیا ان کی منتظر ہے۔ کرسٹابیل اور تاثیر کی دیدوشنید کا اشتیاق دل میں بھنور ڈالنے والی بے یقینی پر غالب آجاتا ہے۔ وہ اس کا بھی ذکر کرتی ہیں کہ کئی لوگوں نے ان کی خواستگاری کی، لیکن کوئی ان کے دل کو نہ بھایا۔ شاید لاشعور میں یہ رہا ہو کہ انھیں ہندوستان کا پھیرا لگانے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔

انھوں نے بہت حلاوت سے اس سفر کے بارے میں لکھا ہے جو انھوں نے بمبئی سے امرتسر کے لیے کیا۔ جہاں تاثیر صاحب ایم اے او کالج کے پرنسپل تھے، ایلس کی بہن کرسٹابیل اور ان کی ننھی منی بیٹی سلمیٰ تھی۔ تاثیر صاحب کا گھر ادیبوں، شاعروں اور سیاسی لوگوں کا ٹھکانہ تھا۔ لوگ آتے، بحثیں ہوتیں، رات زیادہ گزر جاتی تو ڈرائنگ روم میں توشکیں بچھ جاتیں اور سب وہیں پڑ کر سوجاتے۔

اسی دوران ایلس ترقی پسند تحریک کو نمو پاتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ ان کی نگاہوں کے سامنے انجمن ترقی پسند مصنفین وجود میں آتی ہے۔ وہ جوش اور ولولہ، وہ خلوص اور اپنے بڑے ادیبوں کی خدمت گزاریاں۔ بھولی بسری کہانیاں ایلس دہراتی ہیں اور اداس کردیتی ہیں۔

وہ فیض سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتی ہیں، جو آہستہ آہستہ دوستی اور پھر دلداری میں بدل جاتی ہے لیکن فیض کے گھر والے قدامت پرست ہیں، وہ ایک غیر مسلم بہو کو کیوں برداشت کریں گے؟ ان ہی اندیشوں اور الجھنوں کے تانے بانے سے کنارہ کرکے دونوں امرتسر کی پُرسکون سڑکوں پر ٹہلتے ہیں، تاثیر اور کرسٹابیل کی بگھی میں سیر چمن کو نکلتے ہیں۔ ایلس کٹرا مان سنگھ کے ایک اسکول میں پڑھانے لگتی ہیں جہاں ہندو، سکھ اور مسلمان لڑکیاں ہیں جن سے ملنا، جنھیں پڑھانا ایلس کو بہت بھلا لگتا ہے۔ وہ اس تانگے کا ذکر کرتی ہیں جس پر ایلس اور ان کی کئی طالبات لد کر اسکول جاتی ہیں اور جس تانگے پر تین طرف سے چادریں لگتی ہیں۔ لندن کی سڑکوں پر پھرنے والی اور برطانیہ کے فاشسٹ غنڈوں کا مقابلہ کرنے والی ایلس کے لیے یہ انوکھا اور دلچسپ تجربہ ہے۔

اسی دوران فیض کے گھر والوں کے دل میں بیٹے کی محبوبہ کے لیے نرم گوشہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ تاثیر اور کرسٹابیل شملہ کا رخ کرتے ہیں اور ایلس بھی وہاں کے ایک بڑے اسکول میں پڑھانے لگتی ہیں۔ ایلس ان ہی دنوں میں دو افراد کا بطور خاص تذکرہ کرتی ہیں۔ یہ بیگم آمنہ مجید اور کرنل مجید ملک ہیں جن کا ان کی زندگی پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ یہ دونوں عمر بھر ایلس اور ان کے خاندان کی ہر خوشی اور غمی میں دامے، درمے، قدمے اور سخنے شریک رہتے ہیں۔

کچھ ہی دنوں بعد تاثیر سری نگر کے ایس پی کالج میں پرنسپل ہوکر چلے جاتے ہیں اور وہیں 28 اکتوبر 1941 کو فیض اور ایلس شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ شادی سے پہلے ایلس اپنی ماں کو اطلاع دیتی ہیں جو انھیں کچھ رقم بھجواتی ہیں، فیض ان ہی روپوں سے ایلس کے لیے ایک زرق برق بنارسی ساڑھی خرید لیتے ہیں۔ شادی کا جوڑا۔ آمنہ مجید ملک فیض کے اور ایلس کے ساتھ مل کر بہ مشکل یہ مرحلہ سر کرتی ہیں کہ 150 روپے میں فیض کے بھرے پُرے گھر کا ماہانہ خرچ کیسے چلایا جائے گا۔ طے یہ ہوتا ہے کہ فیض چونکہ ہیلی کالج میں پڑھا رہے ہیں، اسی لیے وہ اور ایلس لاہور کے آبائی گھر میں رہیں گے۔ نکاح شیخ عبداﷲ پڑھاتے ہیں اور فیض طلاق کا حق ایلس کو دے دیتے ہیں۔

شادی کے بعد نوبیاہتا جوڑا پہلے رانی آف کشمیر کے محل میں کچھ وقت گزارتا ہے اور پھر وہاں سے ایلس کا وہ سفر شروع ہوتا ہے جسے اگر فیض صاحب بیان کرتے تو اپنے مخصوص انداز میں کہتے کہ ’جی پھر ہم اپنی اوقات میں آگئے‘۔ بسوں میں سفر کرتے، ریز گاری اور نوٹ گنتے ہوئے، جوش اور مجاز بھی دلہا دلہن کے ساتھ۔ سری نگر سے راولپنڈی اور پھر وہاں سے لاہور، فیض کا گھر، باغ منشی لدھا رام۔ دلہن ایک پیڑھی پر بیٹھائی جاتی ہے۔ شہانہ ساڑھی کا گھونگھٹ کاڑھے، سر جھکائے۔ دل میں کیسی کھُد بُد ہے۔

وہ کبھی ڈوبتا ہے اور کبھی سنبھل جاتا ہے۔ ہاتھوں میں لگی ہوئی مہندی، پھولوں کے گہنوں اور عطر میں بسی ہوئی دلہن۔ دل میں اداسی تیر جاتی ہے۔ فیض کی بوڑھی والدہ بہو کا چہرہ دیکھتی ہیں، اور ہاتھ میں قرآن رکھ دیتی ہیں۔ ایلس کا نام ’کلثوم‘ ہوجاتا ہے۔ کلدار روپے ان کی گود میں رکھے جاتے ہیں، زیور، لشکارے مارتی ساڑیاں۔ بقول ایلس، ریشمی پنجابی لباس (اس سے ان کی مراد شلوار قمیص ہے) سونے کے زیور کنگن اور آویزے۔ ایلس لکھتی ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ لوگ ایک اجنبی کے لیے اتنی دادو دہش کیوں کررہے ہیں۔ اس وقت تک تو میں ان کے لیے انجان ہی تھی۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔