نفرتوں کی نئی فصل

مقتدا منصور  جمعرات 29 ستمبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اڑی کے فوجی اڈے پر حملے میں 18بھارتی فوجیوں کی ہلاکت۔ پھر پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران جب کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کا کھل کر تذکرہ کیا گیا، تو بھارت تلملا اٹھا اور اس نے تناؤکو عروج پر پہنچا دیا۔ گزشتہ70برس سے سیاست اور سفارت کے میدان میں تناؤ معمول کی بات ہے۔

دونوں ملکوں نے جنگیں بھی لڑیں اور مختلف ادوار میں سرحدوں پر فوجیں بھی لگائیں، عام شہریوں کیے راستے بھی بند ہوئے، مگر ادب اور فنونِ لطیفہ اس تقسیم اور تناؤ سے آزاد رہے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ نفرتوں کی یہ آگ جوکبھی سیاست اور سفارت تک محدود تھی، صحافت سے ہوتی ہوئی ادب اور فنون لطیفہ تک جا پہنچی ہے۔

گزشتہ دنوں بھارت کی ایک انتہاپسند تنظیم نے ان فنکاروں کو بھارت چھوڑ دینے کی وارننگ دیدی جو بھارتی فلموں میں پرفارم کررہے ہیں یا گیت گا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی پروڈیوسر اور ڈائریکٹر اتنا بے وقوف نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے ملک کے غیرمقبول فنکاروں کو اپنی فلم میں کاسٹ کرے یا ان سے گیت گوائے، جو فنکار عوام میں مقبول ہوتا ہے، اسی کو فلموں میں کاسٹ کیا جاتاہے اور مقبول گلوکار سے گیت گوائے جاتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ان فنکاروں کی فلمیں کامیاب ہوکر فلمسازوں کی تجوریاں بھر رہی ہیں، جب کہ بھارتی حکومت کو بھی ٹیکس کی مد میں اربوں روپے مل رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کسی طور درست نہیں کہ صرف پاکستانی فنکار ہی بھارت سے دولت کما رہے ہیں۔ چند برس قبل بھی جب حالات کشیدہ ہوئے تھے، تو ایک انتہا پسند تنظیم نے پاکستان سے آئے مزاحیہ فنکاروں کو ملک چھوڑنے کی وارننگ دی تھی۔ یہ فنکار مختلف چینلز پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے اور پورے بھارت میں بے انتہا مقبول تھے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جیسے ہی یہ فنکار وطن واپس آئے، پروگرام یا تو بند ہوگئے یا ان کی مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے آگیا۔

میں گزشتہ 20برسوں سے مختلف سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے لیے بھارت جاتا رہا ہوں۔ وہاں عابدہ پروین، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، غلام علی ، راحت فتح علی خان ، اور صابری برادران کو اپنے یہاں سے زیادہ مقبول پایا۔ کناٹ پیلس دہلی کے ایک میوزک سینٹر میں پورا ایک سیکشن پاکستانی نغموں، غزلوں اور قوالیوں کے علاوہ ڈراموں کی سی ڈیز سے بھرا ہوا دیکھا۔ دکان کے مالک کا کہنا تھا کہ پاکستانی فنکاروں اور ڈراموں کی سی ڈیز کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔

اسی طرح مشاعرے جو برصغیر کی ادبی روایات کا حصہ ہیں، سرحد پار سے شعرا کی شرکت کے باعث انھیں چار چاند لگے۔ مسلمان شعرا کے علاوہ گلزاردہلوی اورکنور مہندر سنگھ بیدی سحر سمیت کئی ہندو اور سکھ شعرا پاکستان کے مشاعروں میں شریک ہوکر ان کی رونقیں بڑھاتے رہے ہیں۔ پاکستان کے شعرا بالخصوص فیض اور فراز کے علاوہ قتیل شفائی بھارت میں انتہائی مقبول رہے ہیں ۔ افسانہ نگاروں میں منشی پریم چند،کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، رام لعل پاکستان میں اتنے ہی مقبول ہیں ،جتنی مقبولیت سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی ، شوکت صدیقی اور احمد ندیم قاسمی کو حاصل ہے۔

اگر فلمی اداکاروں کو دیکھا جائے تو پاکستان میں ماضی کے ہیروز یوسف خان (دلیپ کمار) کے ساتھ راج کمار، دیو آنند، راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کی مقبولیت کسی سے کم نہیں۔ آج کا نوجوان شاہ رخ خان اور سلمان خان کے ساتھ ریتھک روشن اور اکشے کمار کو بھی پسند کرتا ہے۔ ہیروئینوں میں مدھوبالا ، مینا کماری اور نرگس کے ساتھ وجنتی مالا، آشا پاریکھ، ریکھا، مادھوری ڈکشٹ ، کترینہ کیف اور کرشمہ کپور پاکستانی شائقین فلم کے دلوں میں بستی ہیں۔ یہی کچھ معاملہ گلوکاروں اور گلوکاراؤں کا ہے۔ محمد رفیع اور لتا جی کے ساتھ مکیش، کشور ،آشا بھونسلے، ہیمنت کمار، شمشاد بیگم اور مناڈے بھی پاکستان میں بے انتہا مقبول ہیں۔

ادب اور فنون لطیفہ ریاستی سرحدوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان کا پیغام آفاقی ہوتا ہے۔ اس لیے سیاسی اور سفارتی تنازعات میں ان کا لپیٹا و گھسیٹا جانا انتہائی افسوسناک ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ سیاسی و سفارتی تنازعات کی شدت کو کم کرنے میں ثقافتی سرگرمیاں اورادیب و فنکار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

صحافت کا بھی علاقائی تنازعات کے حل میں ایک اہم اور نمایاں کردار ہوتا ہے کیونکہ ذرایع ابلاغ کی بنیادی ذمے داری عوام تک صحیح اور درست خبر اور معلومات پہنچانا ہے۔ مگر ان دونوں ممالک میں صحافت بھی اپنے اصل کردار سے روگردانی کرتے ہوئے ریاستی پروپیگنڈے کو فروغ دے کر تنازعات کو ختم یا کم کرنے میں اپنا کردار ادا  کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دینے کا باعث بن رہی ہے۔

تقسیم ہند کو 70برس ہوگئے، مگر پہلے روز جو تنازعات پیدا ہوئے، وہ نہ صرف آج تک زندہ ہیں، بلکہ ہر آنے والے دن ان کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا اس پون صدی میں کہاں پہنچ گئی ہے مگر ان دونوں ممالک نے تنازعات کو حل کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی  بلکہ نامساعد معاشی و سماجی حالات کے باوجود دو رسمی اور دو غیر رسمی جنگیں لڑیں۔ ہر جنگ کے بعد معاہدے بھی کیے، مگر ان پر بھی کبھی سنجیدگی سے عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ٹریک ٹو اور ٹریک تھری ڈپلومیسی بھی ہوتی رہتی ہے۔

سول سوسائٹی بھی مختلف فورمز کے ذریعے معاملات و مسائل کے حل کی کوشش کرتی ہے، مگر سب کچھ بے نتیجہ اور بے سود ۔ چنانچہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق یہ دونوں ممالک 1947سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ ذمے دار کون ہے؟ یہ تعین کرنا ممکن نہیں۔ ہر دو طرف غیر سنجیدگی ہے  جس کی وجہ سے غلطیوں پہ غلطیاں ہورہی ہیں۔

مگر اب جو کچھ کشمیر میں ہورہا ہے، اس کی تمام تر ذمے داری بھارت پر ہے۔آج کشمیر میں جو تحریک ہے ، خالصتاً مقامی نوعیت کی ہے۔ 80دن سے زاید ہونے کو آئے ہیں، پوری وادی اس تحریک کی لپیٹ میں ہے۔ اس لیے پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام سراسر غلط ہے۔ بھارتی افواج حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ استصواب رائے سے کیوں روگردانی کی جا رہی ہے۔ الیکشن کسی علاقے کے کسی ملک کے ساتھ رہنے کی دلیل نہیں ہوتے۔ برطانیہ وہ واحد ملک ہے، جہاں انتخابات کی تاریخ سب سے پرانی ہے، مگر اس نے چند برسوں کے دوران دو مرتبہ ریفرنڈم کرایا۔ پہلے اسکاٹ لینڈ میں یہ جاننے کے لیے کہ لوگ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

دوسری بار یورپی یونین سے باہر نکلنے کے لیے۔ لوگوں کوجبراً  اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے ان پر تشدد کرنے سے بہتر ہے کہ ان کی رائے معلوم کرلی جائے کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں، وہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں یا  پھر اپنی آزاد مملکت کے قیام کے متمنی ہیں۔ وہ جو فیصلہ کریں اس کا تمام فریقوں کو احترام کرنا چاہیے۔

یہ طے ہے کہ جب تک خطے میں پائیدار اور دیرپا امن قائم نہیں ہوتا عام آدمی خاص طور پر غریبوں اور محنت کش طبقات کے حالات زندگی بہتر ہونے کے امکانات پیدا نہیں ہوسکتے۔ آج جنوبی ایشیا کی ایک تہائی آبادی خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وسائل کا مناسب استعمال، اس کی زندگیوں میں بہتری لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ خطے کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ شرح خواندگی کو بڑھایا جائے اور تعلیم کا معیار بلند کیا جائے۔

صحت اور سماجی ترقی بھی وقت کی ضرورت ہے جب کہ روزگار کے نئے ذرایع پیدا کرنے کے لیے باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ ضروری ہے مگر یہاں تو خطے کے عوام کی خون پسینہ کی کمائی اور قومی وسائل کا خطیر حصہ آج دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔ اگر یہ معاملہ طے ہوجائے تو دونوں طرف دفاعی اخراجات میں بھی بے حد کمی کی توقع کی جاسکتی ہے جس کے نتیجے میں بچنے والی رقم عوامی فلاح پر خرچ ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

مگر دونوں جانب ایسے شدت پسند اور جنونی عناصر کی کمی نہیں، جو دانش مندانہ اقدامات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں سبین محمود سمیت ہر وہ شخص جو دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی بات کرتا ہے اس لیے مار دیا جاتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں جمہوریت کی جڑیں کمزور ہیں، لیکن آپ کے یہاں تو جمہوریت کے تسلسل کو70برس ہونے کو آئے ہیں، آپ کے یہاں بڑھتی ہوئی تنگ نظری کس بات کی غماز ہے؟

ہمارے مذہبی شدت پسند قابل مذمت  کہ وہ بزور طاقت مخالفین کی زباں بندی کرتے ہیں۔ مگر حضور آپ کے یہاں بھی تو جذبات سے بے قابو مشتعل ہجوم محض گائے کا گوشت کھائے جانے کے شک میں لوگوں کو قتل کردیتا ہے۔  یہ شدت پسندی نہیں تو اورکیا ہے؟ہم نے پڑھا تھا کہ جمہوریت میں حکومت اکثریت کے ووٹ سے قائم ہوتی ہے، مگر اقلیت کے حقوق کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ، لیکن یہ اندازہ ہورہا ہے کہ معاشرے کو جمہوریائے بغیر حکومتوں کو جمہوری بنانے سے جمہوری کلچر فروغ نہیں پاتا۔ ان دو ممالک کے تجربات سے یہی بات سامنے آئی ہے کیونکہ یہاں ہر آنے والے دن نفرتوں کی ایک نئی فصل بوئی جارہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔