ہم آپس میں لڑتے کیوں ہیں

عبدالقادر حسن  ہفتہ 15 اکتوبر 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میری کوشش اور احتیاط کے باوجود اگر کوئی بات کسی قاری کو ناگوار گزرے تو اس کی پیشگی معذرت کیونکہ جہانتک میرا تعلق ہے کسی بھی قاری کو یہ غلط فہمی نہیں ہو گی کہ کوئی غلطی میری دانستہ ہو گی۔ میں مذہبی جذبات کو بھی کسی حد تک سمجھتا ہوں اور ان کے احترام کا دل کی گہرائیوں سے قائل ہوں۔

میری تعلیمی پرورش مختلف مکتب فکر کے علماء کے درمیان ہوئی ہے اور میں ان کے جذبات کو بھی بڑی حد تک سمجھتا ہوں اور ان کے احترام میں کسی بھی حد سے گزر سکتا ہوں لیکن اس وقت میری پریشانی بلکہ شرمندگی کی کوئی حد تک نہیں رہتی جب کسی فرقہ وارانہ مسئلہ پر دو مسلمان گروہ برسر پیکار ہو جائیں اور آپس کی لڑائی میں وہ ایک دوسرے کے احترام سے بھی غافل ہو جائیں۔

اول تو یہی کچھ کم افسوسناک نہیں کہ مسلمان کسی مذہبی مسلک پر اختلاف کی صورت میں اس حد تک چلے جائیں کہ دست و گریبان ہو جائیں اور ان کے درمیان کسی لڑائی کا خطرہ اس قدر بڑھ جائے کہ انتظامی مشینری اپنی تمامتر قوت کسی متوقع فساد کو فرو کرنے میں صرف کر دے۔

ہم مسلمان تو دنیا میں اتفاق دلیل اور امن کے قیام کے لیے آئے ہیں نہ کہ خود ہی کسی بدامنی کا سبب بن جانے کے لیے اور ہماری انتظامیہ جس کا کام بدامنی پیدا کرنے والے غیر مسلم عناصر کو قابو کرنا ہے کجا کہ وہ ہمارے اپنے اندر بدامنی پیدا کرنے والوں کو قابو کرنے میں لگ جائے لیکن عملاً ہوتا یہی ہے کہ مسلمانوں کے آپس کے فکری اختلاف اور جھگڑوں کو قابو کرنے کے لیے مسلمانوں کی طاقت صرف ہو جاتی ہے اور اگر ہم کامیاب بھی ہو جائیں اور بدامنی سے بچ بھی جائیں تو پھر بھی یہ سب ہمارے لیے شرمندگی کا ایک سبب ہے۔

اگر ماضی کے کسی مسلمانوں کو کبھی یہ خدشہ ہو کہ ان کے پس ماندگان دنیا میں قیام امن کی جگہ خود بدامنی کا سبب بن جائیں گے تو وہ اپنے نظریات پر نظرثانی کرنے کی کوشش کریں گے اور توبہ تائب ہو جائیں گے کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب کسی بین المذہبی تقریب میں مسلمان دست و گریبان نہ  ہوں اور یہ تقریب بخیر و عافیت گزر ہو جائے تو مسلمان ایک دوسرے کو اس کے پرامن رہنے کی مبارک باد دیں اور اخبارات میں اس پر خوشی کی خبریں شایع ہوں۔ جو قوم دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے لائی گئی ہے وہ اگر خود پرامن نہ رہے تو اس پر شرم سے سر جھکا کر اپنے آپ کو مبارک دینی چاہیے۔

بدقسمتی سے ہمارے اندر ایسے عناصر دخیل ہو گئے ہیں جو امن کے دشمن ہیں اور شاید سب سے آسان کام امن خراب کرنا ہے اور وہ بھی نظریاتی مسلمان طبقات میں جن کے نظریات کو بڑی آسانی کے ساتھ دست و گریبان کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کے فقہی طبقوں میں اختلافات محض علمی نہیں رہے بلکہ ان میں کسی حد تک سیاست بھی آ گئی ہے اور جب نظریاتی طبقوں میں سیاست آتی  ہے تو ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کیا رنگ لاتی ہے اور اس کی آویزش کے کیا برے نتائج نکلتے ہیں۔

ہم اگر اپنی فقہی اختلاف کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں ایسے علماء کا بار بار تذکرہ ملے گا جنہوں نے دونوں کام سرانجام دیے ایک تو اپنے اختلافات کو ذاتی رنگ دے کر ان سے سیاسی فائدہ اٹھایا دوسرے ان اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کر کے قوم میں اتحاد اور فکری اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی ہمیں اپنی تاریخ میں دونوں طرز کے پہلو ملتے ہیں اور ان کے پیچھے صلح اور فساد دونوں کے پہلو بھی صاف دکھائی دیتے ہیں۔

سیاست دانوں خصوصاً حکمرانوں نے ہمیشہ علماء کے اختلافات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں یہ اختلاف ہماری اسلامی تاریخ کا ایک تنازع اور اختلاف بن کر ظاہر ہوا۔ ہمارے جتنے بھی مذہبی فرقے ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر سیاسی رنگ لیے ہوئے ہیں اور اپنے وقت کے سیاست دانوں کے اختلافات کے اثرات ان کی تعلیمات میں واضح دکھائی دیتے ہیں۔

مذہب ہمارے ہاں ہمیشہ ہی برتر رہا ہے اور مذہبی رہنما خصوصی عزت کے مستحق بھی ٹھہرے ہیں چنانچہ انھوں نے اپنی نظریاتی پسند یا پھر سیاسی پسند کی وجہ سے جس گروہ کی بھی حمایت کی اس کو بہت فائدہ تو ہوا لیکن اس سے مذہبی نظریاتی اختلافات کی صورت میں جو اختلاف پیدا ہوا وہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑا۔

ہمارے جتنے بھی فرقے ہیں یا اختلافی گروہ ہیں وہ سب کے سب اپنے وقت کی سیاست سے متاثر رہے ہیں بلکہ بعض ایسے علماء بھی گزرے ہیں جن کا احترام تو بہت فائق تھا مگر وہ خود غیر جانبدار نہیں تھے اس کا نتیجہ  بعض صورتوں میں سخت خطرناک نکلا اور بعض نئے فرقے اور جماعتیں بن گئیں۔

اگرچہ اس وقت بھی دانشمند علماء اور مسلمانوں نے اس انتشار اور اختلاف کو پسند نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی یہ صورت حال اپنا رنگ دکھانے میں کامیاب رہی بلکہ اس کی وجہ سے بعض نئے مکاتب فکر وجود میں آ گئے جو آگے چل کر فرقہ واریت میں ڈھل گئے۔ فرقہ واریت کی ان بعض صورتوں کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا اور آنا بھی نہیں چاہیے کہ حضور پاک ﷺ کی اولاد سے زیادہ محترم انسان ہمارے لیے کون ہو سکتا ہے۔ وہ بچے جن کو حضور نے پیار کیا اور گود میں پالا لیکن ہم نے ان کے نام پر بھی اختلاف پیدا کر لیے اور سال بہ سال خطرات سے گزرنے لگے۔ رسول پاکؐ  ہمیں ہدایت عطا فرمائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔