قائداعظم اور تین شاعر

سعید پرویز  پير 24 اکتوبر 2016

بظاہر بڑا شور ہے، لیڈران کرام ایک دوسرے پر برس رہے ہیں۔ دراصل یہ سب ایک دوسرے کے ساجھے دار ہیں، مل کر وارداتیں کرتے رہے ہیں اور علیحدہ علیحدہ بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ کبھی اس شاخ پر جا بیٹھتے ہیں، کبھی اس شاخ پر۔ یہی ان کا وتیرہ رہا ہے۔ ان کا کوئی نظریہ وغیرہ نہیں ہے۔ یہ سیاست کو کاروبار سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ جدی پشتی مال دار تھے، مگر ہوس نے ان کے پیٹ جھیل بنا دیے اور جھیل کبھی نہیں بھرتی۔ نتیجہ یہ کہ یہ لوگ اب صرف مال دار نہیں رہے بلکہ اب یہ کھربوں پتی ہیں۔ ان کی دولت کا شمار ہی نہیں ہے۔

جب ہندوستان میں مسلم لیگ بن رہی تھی، علامہ اقبال، قائداعظم ودیگر زندہ تھے، اس وقت پاکستان کے ممکنہ علاقوں کے زمینداروں نے اپنا علیحدہ بندوبست بھی شروع کردیا تھا۔ برطانوی سامراج کے کاسہ لیس یہ زمیندار پاکستان بننے سے خوفزدہ بھی تھے۔ تحریک پاکستان کا ’’انقلابی ریلا‘‘ مکمل آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا، جس میں انسان کی توقیر ہوگی، خوشحالی سب کا مقدر ہوگی، کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوگا۔ یہ خیالات، یہ خواب انگریزوں کے غلاموں کی نیندیں اڑائے دے رہے تھے۔ تاریخ میں لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں۔ 1937 میں علامہ اقبال نے قائداعظم کو خط لکھا، یہ خط نومبر 1937 میں لکھا گیا، علامہ لکھتے ہیں ’’جب سے سر سکندر حیات مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کرکے لکھنو سے واپس آئے ہیں تب سے وہ پنجاب میں مسلم لیگ کے نام پر اپنے ایک الگ ’’زمیندارہ لیگ‘‘ بنانے میں مصروف ہیں۔‘‘ اور آگے بھی سنیے! ان ’’زمیندارہ لیگ‘‘ والوں نے کسی بھی سیاسی جلسے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 1946 کا منشور پڑھنا بند کر رکھا تھا۔

اقبال بھی آزادی انسان کے پرچارک تھے، وہ بھی تقسیم ہند میں ایک بہت بڑی اور تاریخی عظمت و اہمیت کی اقلیت یعنی مسلمان کے لیے علیحدہ ملک کے حق میں تھے۔ علامہ کی نظریں مستقبل میں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں، وہ پوری انسانیت کے بھلے کی سوچ رکھتے تھے۔ ان کا یہ شعر بہت کچھ بتاتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا چاہتے تھے۔

تہراں ہو اگر مشرق وسطیٰ کا جنیوا

ممکن ہے کہ انسان کے حالات بدل جائیں

ایک طاقتور مشرق وسطیٰ کا بلاک دنیا میں توازن کا وسیلہ بن سکتا تھا، مگر نہ بن سکا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ دنیا پر امریکا قابض ہے اور جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ ہیروشیما ، ناگاساکی، ویتنام، فلسطین، انگولا، کانگو اور اب عرب ممالک، سب جگہ انسان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، تباہیوں کے ہولناک مناظر ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں تحریک آزادی کے ہم نوا لوگوں نے اقبال کے پاکستان کے قیام کے لیے قدم بڑھانا شروع کیے تو ’’زمیندارہ لیگ‘‘ والوں نے بھی اپنا اکٹھ کھلم کھلا ظاہر کردیا، ممدوٹ، دولتانے، گورمانی، ٹوانے، کھوسے، لغارے، مزارے، بُچے، فتیانے، مانیکا، راولپنڈی اور اردگرد کے راجے، نکئی، ڈاہے، ملتان کی درگاہوں کے مجاور، سید، سندھ اور خیبرپختونخوا کے بڑے بڑے خاندان اور بلوچستان کے سردار، ان سب کے ساتھ پیر فقیر بھی شامل ہوگئے۔ واقعہ یہ بھی ہے کہ جب وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان اس ’’زمیندارہ لیگ‘‘ سے بات چیت کے لیے پنجاب آئے اور انھوں نے اپریل 1949 میں حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کردہ ’’زرعی اصلاحات کمیٹی‘‘ کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے بات کرتے ہوئے جاگیردار سیاستدانوں سے کہا ’’اگر آج وہ رضاکارانہ طور پر زرعی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد نہ کریں گے تو کل عوام ان سے ان کی زمینیں چھین لیں گے۔‘‘

جاگیرداروں سے خطاب کے چھ ماہ بعد لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا۔ اس قتل میں جنوبی پنجاب کے ایک منے ونے زمیندار کا نام بھی تاریخ کے صفحات میں درج ہے۔ پاکستان میں ’’عوامی راج‘‘ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو کمیونسٹ اور سوشلسٹ کہہ کر پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی۔ روس کی طرف جانے کے بجائے ’’سازشی ٹولے‘‘ نے حکومت کا رخ امریکا کی طرف موڑ دیا۔ اقبال کی سوچ کو لے کر چلنے والے شاعر بے مثل فیض احمد فیض کو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ راولپنڈی سازش کیس میں کچھ بھی نہیں تھا، لیکن اگر تھا، جو میں اکثر سوچتا ہوں کاش وہ سازش کامیاب ہوجاتی۔ فیض صاحب نے قیام پاکستان کے فوراً بعد دیکھ لیا تھا کہ ہم ایک قید سے نکل کر دوسری قید میں آگئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

ہمیں تلاش تھی جس کی، یہ وہ سحر تو نہیں

پنڈی سازش کیس پر ان کا تبصرہ تھا:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ’’ان کو‘‘ بہت ناگوار گزری ہے

یہاں میں قائداعظم کے خطاب کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ 1943 میں کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں کہا تھا ’’یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک ایسے ظالمانہ اور شرپسند نظام کی پیداوار ہیں، جس کی بنیادیں ہمارے خون سے سینچی گئی ہیں۔ عوام کا استحصال ان کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے، اس لیے ان کے سامنے عقل و انصاف کی کوئی دلیل کام نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنھیں انتہائی مشقت کے باوجود صرف ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔ کیا یہ ہے ہماری شاندار تہذیب؟ کیا پاکستان کا مطلب یہ ہے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں مسلمان معاشی ظلم کا شکار ہوکر ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہیں؟ اگر پاکستان کا مطلب یہ ہے تو میں ایسے پاکستان سے باز آیا۔‘‘

اقبال کے بعد فیض نے ’’عوامی راج‘‘ کے لیے جدوجہد کی اور بعد کو انھی دونوں کی جدوجہد کو جالب نے بام عروج پر پہنچادیا۔ جالب نے صعوبتیں برداشت کیں، حکمرانوں کی طرف سے (جنرل ایوب سے ضیا الحق اور بعد کو بھی) لاکھوں کروڑوں روپوں کی پیشکشیں ہوئیں، اسمبلی کی نشستیں بھی پیش کی گئیں مگر جالب نے پایہ استحقاق سے تمام پیشکشوں کو ٹھکرادیا اور زندگی کی صعوبتوں کو گلے لگا کر کلمہ حق بلند کرتے رہے۔

آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ تو ہونا ہی تھا۔ اس کے ہونے کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بڑے بڑے لٹیروں کی آپس کی جنگ ہے۔ آمنے سامنے عوام کی دولت لوٹنے والے ہیں۔ قائداعظم، اقبال، فیض اور جالب کی جدوجہد کا ’’رن‘‘ تو ابھی پڑے گا۔ جالب ہمیشہ کہتا رہا:

کوئی دم کی رات ہے یہ، کوئی پل کی بات ہے یہ

نہ رہے گا کوئی قاتل، نہ رہیں گی قتل گاہیں

اب وہ ’’دم‘‘ اور ’’پل‘‘ آن پہنچے ہیں کہ جب ’’قاتل اور قتل گاہیں‘‘ نہیں رہیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔