رومی کہتے تھے

جاوید قاضی  ہفتہ 29 اکتوبر 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

رومی کہتے تھے ’’جو رونا دل کی چوٹ کی وجہ سے نہ ہو وہ تو نوحہ گروں کی طرح ہے، جو اجرت پر روتے ہیں‘‘ اس بارکوئٹہ میں کیڈٹس کی خانقاہوں کو جو نشانہ بنایا گیا تو عجیب تھے بارکہسارغم، کہ جیسے مجھے ایک ایسا ذہنی مرض ہوگیا کہ میرا حافظہ کہیں کھوگیا ہے۔

نصرت بھٹوکی طرح، شوہر مرا، بیٹے مرگئے اور جب بیٹی مری تو ذہن نے ساتھ چھوڑ دیا۔ مجھے یوں لگا کیڈٹس نہیں وکیل مرے ہیں اورمیں خود وکیل ہوں، پھر خیال آیا نہیں نہیں کیڈٹس مرے ہیں کہ میں خود کیڈٹ تھا۔ وکیل ہوں،کیڈٹس ہوں،اساتذہ ہوں،ہزارہ کی مائیں بہنیں، بچے بوڑھے ہوں۔

وہ ماں تھی، کیا کرتی۔ کیڈٹ کی ماں نے اپنے بیٹے کے لانگ بوٹ کو ہونٹوں پہ رکھ دیا اور بوسہ دینے لگی، بین کرنے لگی۔ ہم میں سے کوئی کیڈٹ کی ماں جو نہ تھی، نہ کوئی بھائی تھا، نہ باپ تھا۔ ہم ’’کُل‘‘ بھی تو نہ تھے،کونجوں کی طرح، ہم صرف غرض کے نہیں خود تھے، اپنی ذات میں غلطاں۔ ہم، جنھیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

فیس بک پہ ڈلی ’’سیلفی‘‘ کی طرح۔  برگرکھاتے یہ لو ’’سیلفی‘‘، یہ لو پیزاہٹ کی سیلفی۔ یہ ہیں جناب این جی او کے پیسوں پہ بنے دانشور، جن کا کام ہے کارروائی کرنا اور واؤچر ڈالنا، لیکچر جھاڑنا۔ صنعت نہ قانون پر ہے، نہ معیشت پر، نہ عمرانیات پر اور اس حکیم کے نسخے ہیں اور فیس بک ہے، جو سیلفیاں ہیں، یہ ہیں نوحہ گر، جو اجرت پر روتے ہیں۔

تصویروں کا کوئٹہ میں پھر سلسلہ چلا، یہ صاحب آئے، وہ صاحب آئے اور پھر سب نے یہ کہا وہ کہا اور چل دیے۔ انھیں مگر اس پولیس اکیڈمی کی خستہ چار دیواری نظر نہ آئی۔ ہاں سرحدکے پار سے جو ان دہشت گردوں کی ہدایات کی تمثیل تھی، وہ مل گئی۔ انھیں کچھ بھی نظر نہ آیا کہ یہ سرنگیں تو جنرل ضیا کی دین ہے، جس نے سرحد کے اس پار جنگ کو مضبوط کرنے کے لیے گھر گھر میں جہاد کے درس جو دیے اور جہاد کو ریاست کی ہدایات سے آزادکردیا۔ جیسے چاہے جوچاہے اپنی ایک فوج بنادے اورجو چاہے جب چاہے فتویٰ صادرکردے۔ ہم خودکش اس وقت جانتے ہیں جب وہ حد سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ہم اس باغ پر لب سلے رکھتے ہیں جہاں سے پروان چڑھتا ہے۔

یہ تو ہے یا میں ہوں، یا یہ کہ جو تو ہے سو میں ہوں، یہ جو میں ہوں سو تو ہے۔ رومی کہتے ہیں جب تو، تو رہے گا اور میں، میں، تب تک سب یہی رہے گا۔ اپنی ذات سے جب نکل کر حقیقت کو دیکھیں گے تب ہی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ ہم نے ہر حادثے پر حساب چکتا کیا۔ ڈس انفارمیشن کے انبار لگا دیے۔ جس کے پاس غلط خبر پھیلانے کی مشین پڑی اور وہی غلط خبر سچی خبر نظر آئی اور ہم خود فیس بک پہ پڑی سیلفی بن گئے۔ خیالوں میں رہتی قوم، ڈس انفارمیشن کے نرغے میں پھنسی قوم۔ جو میں، جو تو ہے۔

رومی کہتے تھے ’’انھوں نے ’’اگر‘‘، ’’مگر‘‘ کی شادی کردی اور اس میں سے ’’کاش‘‘ نامی بچہ پیدا ہوا‘‘۔کوئٹہ اس حقیقت کا ثمر ہے اور ابھی بہت کچھ ہے جوکوئٹہ میں ہونا ہے اور ہمیں ہر بار وہاں جانا ہے، اجلاس بلانے ہیں، تصویریں کھنچوانی ہیں۔ افغانستان سے ان کو ہدایات آتی ہیں، مگر ضیا الحق کے پیدا کیے بگاڑ پرکسی کی بھی نظر نہ پڑی اور وہ تو وہیں پڑی ہے ابھی بھی۔

وکیلوں کو مارو، اس لیے کہ ضیا الحق کے مرید عدالتوں کو نہیں مانتے۔کیڈٹس کو مارو، اس لیے کہ یہ ریاست امریکا کی پٹھو ریاست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اینٹ سے اینٹ بجا دو اس ریاست کی اور ریاست ہے کہ جسے پتا نہیں اسے کیا کرنا ہے۔

ریاست کہتی ہے ’’اسے جڑ سے نہ کاٹو، درخت سے کاٹو،کیونکہ اس درخت سے کچھ میرے ہم نشیں بھی وابستہ ہیں۔‘‘

رومی کہتے تھے ’’اے عزیز، پہلے چوہے کی شرارت رفع کر پھر گیہوں جمع کر‘‘ مگر ہمارے ہاں ماجرا کچھ اور ہے، ہم گیہوں بھی جمع کرتے ہیں اورچوہے کو شرارت بھی کرنے دیتے ہیں۔

سوال یہ نہیں کہ شراب اچھی ہے یا بری ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیصلہ صادر ہوا ہے کہ شراب کا بیوپار حدود آرڈیننس کے ٹکراؤ میں ہے۔ سو فیصد درست مگر  یہ فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا کہ کون سے حدود آرڈیننس کی شقیں آئین سے ٹکراؤ میں ہیں، آئین میں پڑے بنیادی حقوق سے ٹکراؤ میں ہیں۔

اور آج شراب پر شوروغوغا ہے اور ضیا الحق کے پاسدار ہیں، ان کے جلسے ان کی حمایت میں ہیں اور پھر جیسے جو چاہے تشریح کرلے۔ ایک صاحب نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے فاٹا کے قوانین نافذ کرنے کو عین آئینی سمجھا اور اپنے پارٹی کے پیڈ پر وزیر تعلیم کو لکھ دیا کہ بچوں کو کلاسوں میں رقص کی تربیت دینے پر پابندی عائد کی جائے، کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔

بھلا ہو ہمارے مراد علی شاہ کا جس نے بالآخر واضح موقف اختیارکردیا کہ رقص سندھیوں کے وجود کا حصہ ہے، ان کا لاشعور بھی ہے اور یہ کہ وہ لبرل سماج کے وزیراعلیٰ ہیں۔

محمد علی جناح کون تھے، لبرل تھے۔ لیاقت علی خان، شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، یہ کون تھے، یہ سب لبرل تھے اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہاں لبرل تشریح بھی غلط کی گئی ہے، جس طرح یہاں سیکولر کے معنی لادینیت ہے، لبرل کے معنی ہیں کہ فرد کی آزادی پہ یقین رکھنا، وہ جو چاہے وہ کرے، تب تک کہ وہ کسی اور کی آزادی کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ لبرل کے معنی انسانی حقوق پر یقین رکھنا اور اس کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنا۔ لبرل کے معنی ہیں فرد کی انفرادی عزت پہ یقین رکھنا۔

جتنا لبرل آئین کے عین مطابق ہے، اتنا تو کوئی بھی نہیں۔ اگر اس ترتیب سے چیزوں کو دیکھا جائے۔

یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔ وہ جو لبرل ہیں ان کا بھی اور وہ جو لبرل نہیں ہیں، ان کا بھی۔ اور یہ یہاں کے لوگوں پر چھوڑ دو کہ وہ کسے حکومت بنانے دیتے ہیں اور پھر لوگوں کے دیے مینڈیٹ کا احترام کرو۔ نہ یہ کہ کیڈٹس مار کر، وکیل مارکر،کلاشنکوف سے ریاست کو یرغمال کرو، فتویٰ دے کر قبضہ کرو۔

رومی کہتے تھے ’’جس نے اپنا نقص دیکھ لیا، وہ اپنی ذات کی تکمیل کی طرف دوڑا‘‘ ہمیں ابھی تک یہ پتا نہیں کہ ہمارے اندر نقص کیا ہے۔ ہمارے اندر نقص یہ ہے کہ ریاست کے خدوخال کو نہیں سمجھ سکے، ہم وفاق کی تاریخی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے، ہم وادی مہران کی تاریخ سے انحراف کرتے ہیں۔ وہ وادی جس کا حال پاکستان ہے۔ جس طرح رومی کہتے تھے

عشق صورت سے نہ کر، صورت گر سے کر
کیوں کہ صورت فانی، صورت گر باقی ہے

پاکستان کچھ بھی نہیں، وادی مہران کی تاریخ کا تسلسل ہے اور اس میں اس کی جلا ہے، بنیادی حقوق پہ یقین رکھتا ہو۔ ضیا الحق کی آئین میں کی گئی ملاوٹ سے پاک پاکستان۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔