فیڈل کاسترو، ایک سورج جوڈوب گیا

ایم اسلم کھوکھر  بدھ 30 نومبر 2016

میرے ضمیر سے غداری کے مترادف ہوگا کہ میں جس قدرکام کرسکتا ہوں، اس سے زیادہ ذمے داری قبول کروں۔ چنانچہ میری بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ میں عہدوں سے چمٹا نہ رہوں، بلکہ ہمیں نوجوانوں کے راستے میں زیادہ دیر کھڑے نہیں رہنا چاہیے راستہ ہمیشہ مشکل رہے گا اور وہ ہر ایک سے زیادہ سے زیادہ ہوش مند رہنے کا تقاضا کرے گا۔

دانش مند وعقل مند ہونے کا اصول صرف اسی صورت کارآمد ہوسکتا ہے جب مصیبت و ابتلا کو فراموش نہ کیا جائے یہ میرا آپ سے الوداع ہے میری خواہش ہے کہ میں نظریات کی جنگ میں ایک سپاہی کی طرح لڑوں۔ میں کامریڈ فیڈل کا اظہاریہ کے عنوان سے لکھنے کا عمل جاری رکھوں گا جسے میری طرف سے آپ شمار کرسکتے ہیں شاید میری آواز سنی جائے گی میں محتاط رہوں گا۔ یہ اور اسی قسم کے دیگر الفاظ تھے فیڈل کاسترو کے جو انھوں نے 18 فروری 2008ء کو کیوبا کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے ادا کیے تھے۔

صد افسوس کہ آج فیڈل کاسترو ہم میں نہ رہا اور 26 نومبرکو دنیا سے کوچ کرگیا، البتہ کاستروکی موت سے پوری دنیا کے ترقی پسند حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی،کامریڈ کاسترو کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ وہ کیوبا میں انقلاب لائے مگر ہمارے خیال میں کامریڈ فیڈل کاسترو کا یہ کارنامہ عظیم تر ہے کہ 1959ء سے آج تک انھوں نے گزشتہ 57 برسوں سے انقلاب کے دفاع کے لیے عظیم جدوجہد کی کیونکہ انقلاب برپا کرنا بلاشبہ ایک مشکل عمل ہے مگر مشکل ترین عمل ہے انقلاب کا دفاع کرنا۔کیوبا سے امریکا کا فضائی سفر اگرکیا جائے تو چند منٹ کی مسافت پر ہے فیڈل کاسترو نے کیوبا کے انقلاب کا دفاع کیا۔

13 اگست 1926ء میں کیوبا کے مشرقی صوبے میں جنم لینے والے فیڈل کاسترو نے اگرچہ 90 برس 3 ماہ 13 یوم عمر پائی مگر اس قدر طویل عمر پانے والے کامریڈ کاسترو نے 71 برس جدوجہد کرنے میں گزار دیے۔ انھوں نے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز اپنے گھر سے اس وقت کیا جب ان کی عمر فقط 19 برس تھی اور یہ زمانہ تھا 1945ء کا۔ کاسترو نے اپنے ہی والد کے گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ایک ہڑتال منظم کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کے والد اپنے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو پوری اجرت نہیں دیتا تھے۔

جب کہ 1946ء تک فیڈل کاسترو فقط 20 برس کی عمر میں ایک شعلہ بیاں مقرر اور ایک عملی انقلابی کے روپ میں سامنے آچکے تھے۔ چنانچہ انھوں نے کیوبا میں پھیلی کرپشن کے خلاف ایک معرکۃ الآرا تقریر کی ان کی یہ تقریر اخبارات میں صفحہ اول پر شایع ہوئی۔ 1947ء میں 21 سالہ فیڈل کاسترو نے نیو سوشلسٹ گروپ میں شمولیت اختیار کی اور اسی برس وہ پاپولر سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ 1948ء میں 22 سالہ فیڈل کاسترو نے لاطینی امریکا کے ممالک وینزویلا، پانامہ اورکولمبیا کے دورے کیے اور ان ممالک کے انقلابیوں، طالب علموں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے روابط قائم کیے جب کہ اسی برس انھوں نے بسوں کے کرایوں میں کیے گئے اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی قیادت کی یہ احتجاج بعدازاں تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔ البتہ اس وقت تک فیڈل کاسترو مارکسی نظریات کا ادراک کر کے مارکسی نظریات اپنا بھی چکے تھے۔

1952ء میں ایک صدی قبل کیوبا انقلابی عمل شروع کرنے والے جوزے مارٹی کے جانشین ہونے کے دعویدار فیڈل کاسترو نے فوجی بیرکوں پر حملے کر کے کیوبا میں انقلاب برپا کرنے کی منصوبہ بندی کی، اس وقت کامریڈ کاسترو نے اس امر کا پورا خیال رکھا کہ ان کے 165 ساتھیوں میں کوئی شادی شدہ نہ ہو۔ اگرچہ وہ خود اس وقت نہ صرف شادی شدہ تھے بلکہ کئی بچوں کے باپ بھی تھے۔ چنانچہ کامریڈ کاسترو و ان کے ساتھیوں نے 26 جولائی 1952ء کو مون کاڈا بیرکوں پر حملہ کر دیا مگر ان کا یہ انقلابی عمل ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ اس حملے میں فیڈل کاستروکی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور وہ گرفتار بھی ہوگئے اور ایک برس سنتیاگو میں اسیری بسر کی۔ اس موقعے پر عدالت میں دیا گیا ان کا بیان گویا ایک تاریخی دستاویز ہے ان کے بیان کا عنوان تھا تاریخ مجھے بے گناہ ثابت کرے گی۔

1955ء میں کیوبا کے اخبارات کو ارسال کردہ ایک مراسلے میں لکھا کہ ملک میں پرامن جدوجہد کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں چنانچہ اسی سبب میں کیوبا چھوڑ کرجلاوطنی اختیارکر رہا ہوں چنانچہ وہ میکسیکو چلے گئے جہاں فیڈل کاسترو کی ملاقات نامور انقلابی چی گویرا سے ہوئی۔ اسی اولین ملاقات میں چی گویرا، فیڈل کاسترو کے گرویدہ ہو گئے، یوں بھی اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ فیڈل کاسترو کا ذکر اس وقت تک نامکمل ہے جب تک ان کے ساتھ چی گویرا کا ذکر نہ ہو۔ چنانچہ چی گویرا کی ہمراہی و دیگر 80 ساتھیوں کے ساتھ فیڈل کاسترو کا جاری کردہ 25 نومبر 1959ء کو شروع ہونے والا انقلابی عمل یکم جنوری 1959ء کی صبح تک مکمل ہوا اور یہ انقلاب 25 ماہ 5 یوم کی مشکل ترین جدوجہد کے باعث کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ چنانچہ فیڈل کاستروکیوبا کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے اور 17 برس تک کیوبا کے وزیر اعظم رہنے کے بعد 1976ء کو انھیں صدرکا عہدہ بھی سونپ دیا گیا البتہ 2008ء میں وہ اقتدار سے الگ ہوگئے، انھوں نے 49 برس تک کیوبا کے ساتھ ساتھ کیوبن عوام کے دلوں پر بھی حکومت کی۔ البتہ فیڈل کاسترو کی وفات کے بعد کیوبن عوام کی ان سے محبت دائمی شکل اختیار کر چکی ہے۔ 2011ء میں کامریڈ کاسترو نے پارٹی عہدہ بھی چھوڑ دیا۔

کاسترو نے کیوبا سے جاگیرداری نظام کا مکمل خاتمہ کردیا اور ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا گویا جال بچھا دیا ان تعلیمی اداروں میں کسی بھی ملک کے طالب علم تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں ۔ ان طلبا و طالبات میں پاکستانی، انڈین و بنگلہ دیشی بھی شامل ہیں بہرکیف 634 قاتلانہ حملوں میں بچ نکلنے وسامراجی سازشوں کا 57 برس مقابلہ کرنے والے فیڈل کاسترو نے دنیا فانی کو خیرباد کہہ دیا۔ ان کی وفات کی خبر سن کر دنیا بھر سے تعزیت کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

کامریڈ کاسترو کے چھوٹے بھائی و کیوبا کے موجودہ صدر روھل کاسترو کے بیان کے مطابق فیڈل کاسترو کی آخری رسومات 4 دسمبر کو ادا کی جائیں گی۔ گویا فیڈل کاسترو کی وفات سے ایک سورج ڈوب گیا البتہ یہ کاسترو کی موت ہے ان کے ترقی پسندانہ نظریات کی نہیں۔ کیونکہ ان کے نظریات دائمی ہیں دکھ کی اس گھڑی میں ہم کیوبن عوام سے اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی ہم کامریڈ فیڈل کاسترو کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اس عزم کے ساتھ کہ جدوجہد جاری رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔