جنید جمشید اور ہم

سعید پرویز  اتوار 11 دسمبر 2016

وہ دیکھنے میں بھی پیاراتھا، سننے میں بھی پیارا تھا، عمل میں بھی پیارا تھا اور اب سنا ہے وہ اﷲ کا بھی پیارا ہے اور رسولؐ کا بھی پیارا ہے، دنیا میں بھی اعلیٰ و ارفع رہا اور وہاں بھی اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہے۔ یہ ذکر ہے جنید جمشید کا۔ جس کو دنیا چھوڑے آج پانچ دن ہوچکے، مگر اس کا ذکر دنیا نہیں چھوڑ رہی اور چھوڑے گی بھی نہیں۔ جنید جمشید کی باتیں ہوتی رہیںگی۔

وہ دنیا میں تھا، چل پھر رہا تھا، اس کا سفر جاری تھا تو ہم بھی اسے چلتے پھرتے دیکھ رہے تھے، اب جب کہ وہ عارضی ٹھکانہ چھوڑ کر ابدی ٹھکانے پر پہنچ چکاتو کہانیاں شروع ہوگئی ہیں۔ اب تو جنید جمشید طلوع ہوا ہے، اب تو اس کے سادہ سے کردار کی روشنی پھیلے گی اور پھیلتی رہے گی۔ اس کا سادہ سا کردار بہت سوں کو بہت کچھ دے گا۔ بہت سے لوگ زندگی میں ہی اس کے سادہ کردار کے قیدی بنے اور یہ سلسلہ اور پھیلے گا۔ جنید جمشید رسول اﷲؐ کے فرمان کی منہ بولتی تصویر تھا، حضورؐ نے فرمایا ’’جو توڑے، تم جوڑو، جو زیادتی کرے تم معاف کرو‘‘ جنید جمشید بھی ایسا ہی تھا۔

جب وہ گانے گاتا تھا، ابتدا وطن کی محبت سے ہوئی۔ ’’ایسی زمیں اور آسماں، اس کے سوا جانا کہاں، بڑھتی رہے یہ روشنی، چلتا رہے یہ کارواں، دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘‘۔ وطن کی محبت کے بعد اس نے عشق مجازی کے گیت گائے ’’تمہارا اور میرا نام جنگلوں میں درختوں پر، یونہی لکھا ہوا ہے تم، اسے جاکر مٹادو، سانولی سلونی سی محبوبہ، تیری چوڑیاں چھنک کرکے، گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا، گوری تجھے ڈرکس کا ہے، تیرا تو رنگ گورا ہے‘‘

ایک خوبرو لڑکا یہ گیت گاتا رہا مگر کہیں کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ وہ سنجیدہ مزاج خاموش طبع لڑکا تھا، اسی وجہ سے وہ بچا رہا اور پھر قدرت نے اس سے بہت بڑا کام بھی لینا تھا۔ اس کے سنجیدہ مزاج اور خاموش طبع میں کوئی چھپا بیٹھا تھا۔ بڑے کام کا وقت بھی آن پہنچا تھا، سو اندر کا چھپا آدمی باہر نکل آیا، اس نے گلیمر کی دنیا کو چھوڑ دیا، رنگین روشنیاں، مہکتے دہکتے نظاروں سے منہ موڑ لیا اور حقیقی اجالوں کی طرف آنکلا۔ واقعہ یہ ہے کہ کراچی ایئرپورٹ سے شارع فیصل پر آتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے جنید جمشید کے پینافلکس ہورڈنگز دیکھے تو اپنے ساتھیوں سے کہا ’’اس نوجوان کو کسی طرح میرے پاس لاؤ، یہ نوجوان تبلیغ دین کے لیے کارآمد ہوگا‘‘ اور پھر یہ ملاقات ہوگئی۔ تبلیغی اجتماع کراچی میں ہورہا تھا۔ جنید جمشید اور مولانا طارق جمیل آمنے سامنے بیٹھے تھے، کامل نگاہیں نوجوان کی نگاہوں سے ملیں اور اترتی چلی گئیں۔

نوجوان کی کایا کو پلٹ کر رکھ دیا۔ اب وہ نوجوان اﷲ کے حضور فریادی بن کر عرض کررہا تھا ’’میرا دل بدل دے میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل‘‘۔ ’’الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں، سراپا درد ہوں، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں‘‘ ۔ بارگاہ الٰہی میں دعائیں قبول ہوگئیں اور پھر نوجوان محبوب خدا کے حضور حاضری کے لیے چل رہا ہے۔ ’’محمد کا روضہ قریب آرہا ہے، بلندی پہ اپنا نصیب آرہا ہے‘‘۔ رحمت العالمین کے دربار میں حاضری کے بعد نوجوان کا نصیب واقعی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگا، گانے گاتے ہوئے جو آواز میں تھوڑا بہت کچا پن تھا وہ بھی جاتا رہا۔ اﷲ اور رسولؐ کی حمد و نعت پڑھتے ہوئے آواز میں کہیں زیادہ پختہ پن آگیا۔ سوز و گداز میں انتہا درجہ اضافہ ہوگیا، شخصی اعتبار سے بھی جنید جمشید عجز و انکساری کا پیکر بن گیا۔ خلق خدا کے ساتھ میٹھا میٹھا بولنا محبت بھری نظروں سے ہر ایک کا سواگت کرنا۔

جانا تو سبھی کو ہے، جنید جمشید بھی چلاگیا، ایک خوبصورت نوجوان دولت مند، کاروباری دنیا کے پانچ سو مسلم اسکالر میں شامل، انتہائی ہر دلعزیز شخصیت کا مالک، کروڑوں پرستار، مگر وہ سب کچھ چھوڑ کر چلاگیا۔

تھوڑے ہی عرصے میں آگے پیچھے خلق خدا کے پیارے، اﷲ کے بندوں سے پیار کرنے والے دنیا چھوڑ گئے، ہمارے ایدھی صاحب، امجد صابری اور اب جنید جمشید ان سے پہلے معین اختر بھی جاچکے، وہ بھی کمال آدمی تھا، ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کرتا تھا، جنید جمشید کی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں، وہ خاموشی سے فلاحی کام کرتا رہتا تھا، اس نے سڑکوں پر جھاڑو لگائی، بیلچے سے کچرا اٹھاکر ٹرالیوں میں ڈالا، وہ پیار کے بہانے ڈھونڈتا تھا، سحری کے پروگرام میں اپنے نوجوان ساتھی کی پلیٹ میں کھانا کھاتے ہوئے یہ کہتا ’’آپ کی پلیٹ میں کھانا کھانے کا اور ہی مزا ہے‘‘ امجد صابری نے بھی لالوکھیت میں دہی بڑے کی ربڑی لگائی، اس لیے کہ اس آمدن سے اس نے ایک غریب کا علاج کروانا تھا، دہی بڑے بیچ کر کیا آمدن ہونا تھی، یقیناً امجد صابری نے پہلے سے بہت بڑی رقم بھی دی ہوگی، مگر یہ سارا عمل دنیا والوں کو دکھانے کے لیے تھا کہ حاجت مندوں کی مدد کرو۔

اب مجھے وہ بات بھی کرنی ہے جس کا میں سوچے بیٹھا ہوں۔ دیکھو! جنید جمشید لمحوں میں سب کچھ چھوڑ گیا۔ تو اے دنیا سمیٹ کر اپنے گھر بھرنے والو، مقام عبرت ہے، حضرت عمرؓ نے تو کتے کا کہا تھا، آج تو انسان بھوکے مررہے ہیں، ہم اﷲ کے سامنے کیا جواب دیںگے۔ بھائی آصف زرداری، بھائی شریف برادران، بھائی عمران خان، اپنے بلاول ہاؤس، جاتی امراء، بنی گالا سمیت اور پانامہ لیکس والے فلیٹ سب بیچ کر بے گھروں کو گھر بنادو، بھوکوں کو روٹی دی دو، پانی دے دو، اسکول دے دو، اپنے دولت مند ساتھیوں سے بھی سب مال متاع لے کر غریبوں کو دے دو۔ جنید جمشید نے 12 ربیع الاول کا پروگرام کرنا تھا، اب وہ حضورؐ کے ساتھ جشن ولادت رسولؐ منائے گا۔ حبیب جالب کی نعت بارگاہ رسالت میں یہ نعت 1991 میں رحمت اللعالمین کانفرنس میں پڑھی گئی، صدارت حبیب جالب کررہے تھے اور مہمان خصوصی عبدالستار ایدھی تھے۔

نظر نظر تھی محبت، ادا ادا تھی شفیق

کہاں تھی تیرے یہاں اونچ نیچ کی تفریق

چراغِ جادۂ ہستی ترا پیام بنا

ترے درود سے نوعِ بشر کا کام بنا

ہوا نہ ہوگا کوئی تجھ سا خلق بار خلیق

تری نظر میں ہے، جو ہورہاہے آج یہاں

بنام نور ہے، ظلمت کے سر پہ تاج یہاں

ستم گروں سے بچا ہم کو بے کسوں کے رفیق

شہہ و شیوخ میں صیہونیت کے دست نگر

مفادِ ذات ہے ان بے حسوں کے پیش نظر

انھیں عزیز نہ نشاء ترا نہ تیرا طریق

اٹھائیں فیض سدا، تیری رہنمائی سے

ملے نجات ہمیں کاسۂ گدائی سے

کریں بلند ترا نام ہم کو دے تو فیق

کہاں تھی تیرے یہاں اونچ نیچ کی تفریق

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔