عصر حاضر اور علماء کی ذمہ داریاں

’’اے لوگوں ، میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ( بن کر آیا ) ہوں ۔ ’’( الاعراف، ۸:۸۵۱)

آپ ﷺ کی تعلیمات میں ہر خطے اور ہر زمانے کے لیے روشنی ہے۔ فوٹو: رائٹرز

مسند امام احمد بن حنبل میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : '' (ایک زمانہ آئے گا کہ) سطح زمین پر کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا مگر اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا''۔

مخبر صادق ﷺ کی اس پیش گوئی کے پورا ہونے میں اب کیسے شک ہو سکتا ہے؟ موجودہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اسلام کا نام شہروں ، دیہاتوں اور صحرائی خیموں میں بسنے والوں تک پہنچ چکا ہے ۔ تہذیبوں کی موجودہ کش مکش نے بھی اس عمل کو تیز تر کر دیا ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے کان میں اسلام کی آواز پہنچانے کا سامان کر دیا ہے اور جو حقیقت پسند صدق دل سے اس آواز پر کان دھر رہے ہیں اور انہیں کوئی رہبر فرزانہ بھی میسر ا ٓجاتا ہے جو اُنہیں حکمت و دانش کے ساتھ حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس کرا دیتا ہے تو اسلام کا نور دلوں میں اترنے میں دیر نہیں لگتی ۔

مختلف عالمی جائزوں کے مطابق اسلام اس وقت دیگر مذاہب کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہر سال ہزاروں لوگ اسلام کے دامن سے وابستہ ہو رہے ہیں ۔ اس صورت حال میں سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری اس طبقہ پر عائد ہو تی ہے جنہیں رسول اکرمﷺ نے ' ورثۃ الابنیاء' یعنی انبیا ء کا وارث قرار دیاہے ۔ یہ علماء ربانیین ہی ہیں جو پیغمبروں کے دعوت حق کے مشن کے وارث ہیں ۔

اللہ رب العزت نے عصر حاضر میں ان کے سامنے دعوت اور اشاعت دین کے وسیع امکانا ت کھول دیئے ہیں ، جنہیں نظر انداز کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز سے اس عظیم مقصد کے لیے صرف نہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے اس عطا کر دہ موقع کی ناشکری اور اس کے عتاب کا موجب ہے ۔ اللہ رب العزت نے انہیں موقع بخشا ہے کہ حقیقت کی متلاشی دنیا کو اسلام کے حقیقی چہرے اور پیغمبر اسلام ﷺ کے حسن سیرت اور آپ ﷺ کی اصل تعلیمات سے متعارف کرائیں اور قصر اسلام کو، اس کے اردگرد اُگائی گئی الزامات اور بہتانوں کی خاردار مکروہ جھاڑیوں سے صاف کر دیں۔

ایک اور بڑی اہم چیز جسے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ تمام بنی نوح انسان اخوت کے رشتے میں منسلک ہیں ۔ مسلمان کو باہم دو اخوتیں حاصل ہیں : وہ آپس میں انسانی بھائی بھی ہیں اور اسلامی بھائی بھی ۔ جب کہ غیر مسلم ان کے اسلامی بھائی تو نہیں لیکن آدم ؑ کی اولاد ہونے کے ناطے انسانی بھائی یقیناً ہیں ۔ اس لیے ان کے ایمان کی فکر کرنا اور انہیں دوزخ کا ایندھن بننے سے بچانے کے جتن کرنا رسول اکرم رحمت دو عالم ﷺ کی سنت ہے ۔ لہٰذا رسول اکرم ﷺ کی مسند کے وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عصری ضروریات کے تناظر میں حکمت و دانش کے ساتھ دنیا کو دین کی دعوت دیں ۔




ہمیں یہاں اس چیز کو ضرور بہ ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ کیا یہ کام غیر مسلم دنیا کے خلاف فتوی بازی، دشنام طرازی ، نفرت انگیزی ، عدم رواداری ، شدت و انتہا پسندی اور اسلحہ برداری سے کیا جاسکتا ہے؟۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ طرز عمل اختیار کرنے والوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہی پہنچایا ہے، جب کہ علماء ربانین ا و ر صوفیا ء کرام نے محبت و رواداری ، حسنِ اخلاق اور بلندی کردار کے ذریعے اسلام کی اشاعت و فروغ میں ناقابل فراموش خدمات سر انجام دیں اور دلیل و برہان کے ہتھیاروں سے دل و دماغ فتح کر لیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ علم کی زبان اور دلیل کی کاٹ اسلحہ کی زبان اور کاٹ سے تیز تر ہو تی ہے ۔ 'تفسیر نسفی میں ہے ''دلائل کے ذریعے جہاد کی تاثیر ہتھیاروں کے ذریعے جہاد کے اثرات سے بہت زیادہ تیز ہے۔''

سو دین کا درد اور دعوت اسلام کا جذبہ رکھنے والوں کو رسوخِ علمی ، حکیمانہ اُسلوب ، حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار سے آراستہ ہو کر پوری دنیا کی نجات کی فکر اور تدبیرکرنا ہوگی ، کیونکہ قرآن مجید کے مخاطبین صرف مسلمان ہی نہیں پوری دنیا ہے۔ چناں چہ حضور رحمۃ اللعالمین ﷺ کی زبان اقدس سے اعلان کرایا گیا کہ :

ترجمہ : ''اے لوگوں ، میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ( بن کر آیا ) ہوں ۔ ''( الاعراف، ۸:۸۵۱)

قرآن اور صاحب قرآن کے یہ مخاطبین 'الناس' کون لوگ ہیں ؟ مسلمانوں کے علاوہ دعوت قرآن کے مخاطبین میں کون کون سے گروہ شامل ہیں ؟ اسلام نے ان کی کیا حیثیتیں متیعن کی ہیں ؟ ان کے درمیان کیا فرق روا رکھا گیا ہے اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے کیا احکام دیے گئے ہیں ؟ دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے ان تمام امور سے آگہی ضروری ہے۔

آپ ﷺ کی تعلیمات میں ہر خطے اور ہر زمانے کے لیے روشنی ہے۔ اسی لیے انبیا ء کرام کی مسند کے وارث علماء ربانین وقت کے تقاضوں کا ادراک کر تے ہوئے دعوت دین اور اشاعتِ اسلام کی جدوجہد کے لیے موثر حکمت عملی وضح کر تے ہیں اور اپنے طرز عمل ، حسن کردار اور حکمت و دانش کے ذریعے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی طرف راغب کر تے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم ﷺ کی پاک سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Load Next Story