اسلامی معاشرے کا حسن و جمال

اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف اور مساوات کی بڑی اہمیت ہے،معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کی جان و مال قابل احترام ہے۔


Dr Salees Sultana Chughtai December 27, 2012
اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف اور مساوات کی بڑی اہمیت ہے،معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کی جان و مال قابل احترام ہے۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر یہ فضیلت بھی عطا فرمائی کہ زمین و آسمان کی ہر شے کو اس کے لیے مسخر کردیا۔

اسی لیے خالق کائنات کے اس احسان کا تقاضا ہے کہ اس کو اپنا رب اورآقا تسلیم کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نفع و نقصان کا مالک قرار دینا شرک اور وحدانیت کے خلاف ہے۔ اسلامی معاشرے کی بنیادی خوبی شرک سے پاک معاشرہ ہوتا ہے۔ قرآن پاک ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جہاں رہنے والے ایک دوسرے کے غمگسار اور ہمدرد ہوں، جو ایک دوسرے کے جان و مال کا احترام کریں۔

اس لیے ''ناحق قتل'' کو قرآن پاک میں ظلم سے تعبیر کیاگیا ہے۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں انسان صرف پانچ صورتوں میں قتل کا سزا وار ہوتا۔ جب اس نے ناحق قتل کیا ہو، دین حق کا دشمن ہو، دین کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہو اور دشمنی سے باز نہ آتا ہو، اسلامی سلطنت میں فساد اور بدامنی کا مرتکب ہو، شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو، مرتد ہو۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں قتل ناحق کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قتل کے بعد مقتول کے ورثاء جوش انتقام میں بہت بڑھ جاتے ہیں اور ایک قتل کے بدلے کئی جانیں لے لیتے ہیں۔ حکومت وقت کو مقتول کے ورثاء کی مدد کرنا چاہیے۔

قرآن مجید میں ہر قسم کی بدی اور زیادتی کی سزا کا بنیادی اصول بیان کردیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ زیادتی کرے تو وہ شخص اپنا بدلہ لے سکتا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے ایذا رسانی کا خاتمہ ہوسکے اور کسی کو کسی پر زیادتی کرنے کی جرات نہ ہو۔ کیوں کہ اگر ظالموں کو چھوٹ دے دی جائے تو ان کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور قتل و غارت گری، لوٹ کھسوٹ، بدامنی اور فساد کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔

اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات کی بڑی اہمیت ہے۔ معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کی جان و مال قابل احترام ہے۔ قرآن اور احادیث کے مطابق رنگ، نسل، خاندان، مذہب کے لحاظ سے کوئی کسی سے کم تر نہیں۔ بحیثیت انسان سب کے حقوق برابر ہیں۔ آزاد، غلام، مرد وعورت، امیرو غریب، چھوٹا بڑا سب برابر ہیں۔ مجرم کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو اس کو سزا ملنی چاہئے، سوائے اس کے کہ مظلوم خود اپنی مرضی سے ظالم کو معاف کردے۔ زیادتی کا بدلہ لینا مظلوم کا حق ہے مگر معاف کردینا مستحسن اور اس کا اجر اﷲ کے پاس ہے۔

اسلامی معاشرے میں بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانا ، چغل خوری کرنا، غیبت کرنا، بہتان لگانا معاشرتی برائیاں ہیں۔ سورہ قلم میں ارشاد ہوا ''اور تم کہا نہ مانو ہر اس شخص کا جو بہت قسمیں کھانے والا اور ذلیل ہو۔ لوگوں کے عیب بیان کرنے والا، چغل خور ی کرنے والا ، اچھے کاموں سے روکنے والا اور حد سے بڑا گناہ گار ہو۔'' سورہ حجرات میں غیبت سے کراہت دلائی گئی ہے۔

'' تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے، تم اس کو ناگوار سمجھتے ہو۔'' عیب جوئی کرنا، دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنا رذائل اخلاق میں سے ہیں، کیوں کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے اصلاح کے بجائے خرابی ہوگی اور ایسا شخص دنیا میں بھی رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔

اسلامی معاشرے میں بدگمانی کی بھی شدید مذمت کی گئی اور مختلف مقامات پر اس برائی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بدگمانی سے بچنے کا اصول یہ ہے کہ جب تک کسی بات یا کام کو نیکی پر محمول کیا جاسکتا ہو اس وقت تک اسے برا نہ سمجھا جائے۔'' حضرت عمرؓ نے فرمایا '' اگر تمہارے بھائی کے منہ سے کوئی بات نکلے تو جب تک اس سے اچھے معنی لے سکتے ہو لو۔ محض گمان کی بنا پر برے معنی نہ لو۔''

اسلامی معاشرے کو گھن کی طرح چاٹنے والی ایک بیماری حسد بھی ہے، جو انسان کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ کسی کے پاس اچھی چیز دیکھ کر جلنا یا اس کی ترقی پر ناخوش ہونا اور اس کے زوال کی خواہش کرنا یا اس کی چیز چھن جانے کی تمنا کرنا حسد ہے۔ سورہ فلق میں حاسدوں کے حسد سے پناہ مانگنے کا حکم ہے۔ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اس لیے حاسد شخص کتنی ہی نیکیاں کرے اس سے فائدہ نہیں ہوتا۔''

قرآن پاک میں تکبر اور غرور سے بھی منع کیاگیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ''تکبر سے اپنا منہ لوگوں سے نہ پھیر اور زمین میں اکڑتا ہوا نہ چل، بے شک اﷲ کسی اترانے والے اور شیخی خور کو پسند نہیں کرتا۔'' ارشاد باری تعالیٰ ہے ''زمین میں اکڑتا ہوا نہ چل بے شک تو ہرگز زمین کو نہ پھاڑ سکے گا اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکے گا۔''

اﷲ تعالی نے غرور اور تکبر کو ناپسند فرمایا اور ایسی چال کو بھی ناپسند کیا جس سے غرور و فخر کا اظہار ہو۔ انسان ایک بندۂ عاجز ہے، اﷲ کو اس کی انکساری اور عاجزی پسند ہے۔ بڑائی صرف اﷲ ہی کو زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک ہے اور تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد نبویﷺ ہے '' وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو کھینچتے ہوئے اور گھسیٹتے ہوئے چلے گا، اﷲ قیامت کے دن اسے نہیں دیکھے گا۔''

حقیقت یہ ہے کہ انسان علم و ہنر میں کتنا ہی بڑھ جائے اﷲ کا عاجز و ناتواں بندہ ہی رہے گا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ''میرے نزدیک سب سے زیادہ ناگوار اور مجھ سے بہت دور قیامت کے دن وہ لوگ ہوں گے جو بکواس کرنے والے، اپنی قومیت جتا نے والے اور تکبر کرنے والے ہوں گے۔ جہنمی لوگوں کے بارے میں نشان دہی فرماتے ہوئے آپﷺ نے سنگ دل، متکبر، ترش رو لوگوں کی طرف ارشاد فرمایا کہ ''ترش رو، سنگ دل اور متکبر لوگ جہنمی ہوں گے۔ ''حضرت علیؓ نے مغرور شخص کے بارے میں فرمایا ''آدمی کو تکبر کیوں کر زیب دے جب وہ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے مٹی تھا۔ دنیا میں آتا ہے تو عمر بھر اپنے پیٹ میں فضلہ اٹھائے پھرتا ہے اور جب مرجائے گا تو مٹی اور کیڑے کھا جائیں گے۔''

اسلامی معاشرے کا حسن سچائی کا فروغ اور دروغ گوئی سے اجتناب ہے۔ جھوٹے پر اﷲ کی طرف سے لعنت فرمائی گئی ہے، اس لیے مومن جھوٹ سے ہمیشہ بچتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں کفار مسلمانوں کی بات کو معتبر مانتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ مومن کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ تہمت و بہتان تراشی، بزدلی اور کم ظرفی کی علامت ہے۔ گناہ یا غلطی کرکے اعتراف کرلینا بہادری اور اعلیٰ ظرفی ہے۔ مومن غلطی کرکے اپنا گناہ دوسرے کے سر نہیں تھونپتا اور اخلاقی جرات سے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ بدگوئی اﷲ کو ناپسند ہے مگر مظلوم کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ظالم کے خلاف زبان کھول سکتا ہے۔

آپﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ جو شخص اپنی زبان کی حفاظت کرے گا اﷲ اس کے عیب چھپائے گا۔'' ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا۔ اس شخص پر جنت حرام ہے جو اپنی زبان سے گندی اور فحش باتیں نکالتا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ کسی کی سخت کلامی اور بد زبانی پر آپے سے باہر نہ ہوا جائے اور متانت سے برداشت کیا جائے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا ''اگر قیامت کے دن میری بداعمالیوں کا وزن نیکیوں کے مقابلے میں بھاری رہا تو میں اس سے بھی بدتر ہوں جو تم مجھے کہہ رہے ہو لیکن اگر برائیوں کا وزن ہلکا رہا تو مجھے تمہاری بات کی پرواہ نہیں۔''

اسلام ایک پاک صاف حسین معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے، جہاں صبر، شکر، قناعت، محبت ، رواداری ہو اور بد اخلاقی، عداوت،کینہ پروری ، عیب جوئی کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا ''جو شخص تعصب کی طرف بلاتا ہے یا عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

مقبول خبریں