وہ ایک کتاب کونسی ہونی چاہیے؟

ابن اظہر  اتوار 8 جنوری 2017
مگر سوال اب یہ ہے کہ اگر ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں لکھی گئی صرف ایک کتاب کو پاکستان کے نمائندہ کے طور پر پیش کرنا پڑے تو وہ کون سی کتاب ہوگی یا ہونی چاہیے؟ فوٹو: فائل

مگر سوال اب یہ ہے کہ اگر ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں لکھی گئی صرف ایک کتاب کو پاکستان کے نمائندہ کے طور پر پیش کرنا پڑے تو وہ کون سی کتاب ہوگی یا ہونی چاہیے؟ فوٹو: فائل

ایک خوبصورت خیال تھا اوراسکی خوبصورت تعبیر۔

این مورگن کا تعلق برطانیہ سے ہے جو لندن میں رہتی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے مصنف اور ایڈیٹر ہیں۔ بہت سے لوگوں کی طرح این کو بھی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ بس اِسی شوق کی تکمیل کے لئے وہ حسبِ توفیق پڑھنے کا وقت نکالتی اور اپنے ذوق کی تسکین کرتی.

لیکن اچانک ایک دن اُس کے ذہن میں ایک عجیب خیال کوندا جس کے بعد اُس نے غور شروع کیا کہ اُس کے زیرِ مطالعہ رہنے والی تقریباً تمام تر کتابیں یا تو انگریز مصنفین کی تھیں، یا پھر اُن کے لکھاری امریکی تھے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مطالعہ کے لیے ایک انگریز خاتون اپنی مادری زبان کو ہی ترجیح دے گی لیکن اِس خیال نے این مورگن کو الجھن میں  ڈال دیا کیونکہ اُس کے خیال میں صرف انگلستان یا امریکا میں لکھی گئی کتابوں تک اپنی کتب بینی کو محدود کرنے کا مطلب اپنے مطالعے اور اپنی سوچ  کو صرف دو ممالک کی تاریخ، ادب اور ثقافت تک محدود رکھنا ہے، جو شاید ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔

چنانچہ 2012ء کے آغاز میں این مورگن نے اِس بات کا تہیہ کرلیا کہ ایک سال کے اندر اندر وہ دنیا کے ہر ملک سے کم از کم کسی ایک کتاب کا انتخاب کرے گی اور پھر اُس کا مطالعہ کرے گی اور اپنے مشاہدات کو بلاگ کی صورت دنیا کے ساتھ شئیر بھی کرے گی۔ یوں این مورگن نے دنیا کے ایک سو چھیانوے ممالک میں لکھی گئی کتابوں کے مطالعے کے انوکھے اور خوبصورت سفر کا آغاز کیا۔

شروع میں موگن کا خیال تھا کہ یہ اُس کی ذاتی کاوش ہے جسے کوئی بھی زیادہ اہمیت نہیں دے گا، لیکن جوں جوں اُس نے اپنے اِس تجربے کو لوگوں کے ساتھ شیئر کیا تو این مورگن کے انوکھے مشن کے حوالے سے لوگوں کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ لوگوں نے اُس کی ویب سائٹ پر اپنے ملک سے تعلق رکھنے والی نمائندہ کتابوں کے متعلق بتایا اور یوں این ہر ملک کی ایک کتاب پڑھتی چلی گئی۔ اپنے اِس سفر میں اُس نے سوازی لینڈ سے ایک کہانی بھی پڑھی اور نکرہ گوا کی ایک کتاب بھی۔ ملایشیا سے ایک خاتون نے این کو اپنے ملک اور سنگاپور کی ایک ایک نمائندہ کتاب بھی ارسال کی اور یہ تجربہ مزید خوشگوار ہوتا چلا گیا۔

این نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سال کے دوران پڑھی جانے والی کتابوں کے متعلق بھی لکھا اور لوگوں کو اِس حوالے سے بھی آگاہ کیا کہ کس طریقے سے وہ اپنی کل وقتی نوکری کو جاری رکھتے ہوئے کتابوں کے لئے وقت نکال پاتی ہیں۔ یقیناً ہفتے میں تقریباً چار کتابیں پڑھنا ایک مشکل کام ہے لیکن اُس کی لگن نے اُسے یہ کام جاری رکھنے پر بضد رکھا۔

اِس دلچسپ تجربے کے دوران این کو کچھ مشکلات بھی پیش آئیں۔ جیسے کچھ ممالک میں انگریزی میں لکھی گئی کتابیں تقریباً مفقود تھی اور کچھ ممالک کی کتابوں کے انگریزی تراجم کی عدم دستابی ایک مسئلہ بن گئی۔ تاہم یہ پُرعزم خاتون تمام تر مشکلات کو عبور کرتے ہوئے اپنے ارادے میں کامیاب ہوئی اور دنیا بھر میں اپنے اس تجربے کے بعد خاصی شہرت پائی۔

انہوں نے اپنے اِس تجربے کی صورت میں کونسی کتابیں پڑھیں، اِس کی ایک مختصر سی فہرست مندرجہ ذیل موجود ہے۔

مورگن کی زیرِ مطالعہ کتابوں میں افغانستان سے – The Stone Patience

الجیریا سے – The Sexual Life of an Islamist in Paris

بنگلہ دیش سے – The Good Muslim

بوسنیا سے – How the Soldier Repairs the Gramophone

جبوتی سے – In the United States of Africa

اسرائیل سے – To the End of the Land

شمالی کوریا سے – My Life and Faith

سعودیہ سے – Girls of Riyadh

اور

امریکا سے – American Gods  شامل ہیں۔

جب کہ پاکستان سے جمیل احمد کی کتاب The Wandering Falcon بھی اِس فہرست میں شامل ہے۔

جب این مورگن سے کتابوں کی طویل فہرست میں سے دس پسندیدہ ترین کتابوں کا پوچھا تو اُس میں پاکستان سے جمیل احمد صاحب کی کتاب بھی شامل تھی جو یقیناً قابل فخر بات ہے۔ این مورگن نے اپنے اِس تمام تجربے کو ایک کتاب کی صورت میں قلم بند کیا جو گزشتہ برس شائع ہوئی تھی۔

اب آتے ہیں بلاگ کے اہم حصے کی طرف۔ جو کتابیں پاکستان کی نمائندہ کتابوں کے طور پر این مورگن کو بتائی گئیں اُن میں ظاہر ہے دورِ جدید کے اُن پاکستانی مصنفین کی کتب شامل تھی جو  انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی لہذا یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ اِن تجویز کردہ کتابوں میں محسن حامد، عظمیٰ اسلم خان، محمّد حنیف یا کاملہ شمسی کے انگریزی زبان میں لکھے  گئے ناول وغیرہ شامل تھے.

مگر سوال اب یہ ہے کہ اگر ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں لکھی گئی صرف ایک کتاب کو پاکستان کے نمائندہ کے طور پر پیش کرنا پڑے تو وہ کون سی کتاب ہوگی یا ہونی چاہیے؟

میرے خیال میں تو قدرت اللہ شہاب کی لکھی ہوئی ’’شہاب نامہ‘‘ یہ کتاب ہوسکتی ہے۔ آپ کے خیال میں وہ کتاب کون سی ہونی چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔