عورت اور غربت

مہ ناز رحمن  جمعـء 13 جنوری 2017

ڈاکٹر محبوب الحق نے 1968ء میں 22 خاندانوں کے پاکستان کے 66 فیصد صنعتی اثاثوں کو کنٹرول کرنے کی بات کی تھی۔ یو این ڈی پی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق عدم مساوات کی صورتحال آج بھی بدلی نہیں ہے۔  20 فیصد امیر ترین لوگ بیس فیصد غریب ترین لوگوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ اشیا استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عدم مساوات کی وجہ سے اقتصادی گروتھ متاثر ہوتی ہے، جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی صلاحیتیں ضایع ہوتی ہیں اور سماجی حرکیات میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی کا سب سے اہم چیلنج پائیدار ترقی کے مقاصد کا حصول ہے، جن میں غربت کی ہر شکل کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

پاکستان کی غربت کے کثیرالجہتی انڈیکس کے مطابق شہروں میں رہنے والی 9.3 فیصد غریب آبادی کے مقابلے میں دیہات کی 54.6 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔ پاکستان کے کچھ اضلاع ترقی یافتہ ممالک جیسے ہیں جب کہ کچھ کا حال افریقہ کے غریب ممالک جیسا ہے۔ پاکستانی عورتیں زیادہ تر بلامعاوضہ گھریلو کاموں میں مصروف رہتی ہیں اور ان کے اصل اقتصادی کنٹری بیوشن کو شمار نہیں کیا جاتا۔ عورتیں تین فیصد سے بھی کم زمین کی مالک ہیں اور اس کا اثر ان کی اقتصادی خودمختاری پر پڑتا ہے۔ پاکستان کی  لیبر فورس میں 83 فیصد مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد  25 فیصد ہے جو جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد سب سے کم ہے۔

بہرحال پاکستان کے شہروں میں گزشتہ تیس چالیس سال میں عورتوں کے رول میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ شہری عورت زیادہ تعلیم یافتہ، لبرل اور مختلف اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہی ہے۔ بڑے شہروں میں کم عمری کی شادی کا رحجان بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور سندھ میں تو کم عمری کی شادی پر پابندی کے قانون کے تحت کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کر دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ مین اسٹریم ڈیولپمنٹ میں عورتوں کی شراکت میں اضافے کا مطلب انھیں فیصلہ سازی کے زیادہ مواقع اور رسائی دینا ہے، وہ اپنے وسائل کو خود استعمال کرکے خود انحصاری سیکھ لیتی ہیں۔ ورک فورس میں عورتوں کی شمولیت اقتصادی گروتھ کا ایک اہم ڈرائیور ثابت ہوسکتی ہے۔ بامعاوضہ کام میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی شراکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ مواقع مل رہے ہیں اور حکومت صنفی تفاوت کو کم کرنے کی کوششوں میں سنجیدہ ہے۔

پاکستان چونکہ ایک زرعی معیشت ہے اس لیے زراعت کے شعبے میں مرد اور عورت دونوں زیادہ تعداد میں کام کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں زراعت کو خاندانی پیشہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے دیہی عورتیں شہری عورتوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی تعداد میں کام کرتی ہیں۔

عورتوں کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیںکہ حکومت پاکستان کو کچھ ٹاپ ڈاؤن پالیسی اقدامات کرنے ہوں گے، جیسے سول سروس میں عورتوں کے لیے ملازمتوں کا زیادہ کوٹہ اور تیز تر پروموشنز، پبلک سیکٹر کی ہائی پروفائل پوزیشنز کے لیے ان کی نامزدگی اور اس بات کو لازمی بنانا کہ نجی شعبے کی کمپنیوں کے بورڈز میں عورتوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اسی طرح بینکوں، چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور اسی طرح کے دیگر اداروں میں عورتوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

نجی شعبے پر زور دیا جائے کہ عورتوں کو  زیادہ تعداد میں ملازمتیں دی جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ اداروں کو عورتوں کی سیفٹی اور سیکیورٹی کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں۔ موثر چائلڈ کیئر پالیسیاں بنائی جائیں۔ اداروں میں ان کی شکایات اور تکالیف کے ازالے کا میکانزم بنایا جائے۔

ملازمت پیشہ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مرد گھریلو ذمے داریوں میں ان کا ہاتھ بالکل نہیں بٹاتے اور عورت کو دہرا تہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے غریب مرد اور عورت دونوں بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان کے حالات میں بہتری اسی وقت آسکتی ہے جب پورا معاشرہ ترقی کرے۔ اقتصادی میدان میں پیچھے رہ جانے اور سماجی رویوں کی وجہ سے عورتوں کو زیادہ مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔

جس ملک میں ایک عورت دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکی ہو، وہاں آج بھی گھریلو کام صرف عورتوں کی ذمے داری سمجھا جاتا ہے۔ لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں جب کہ لڑکی کی پیدائش پر منہ لٹک جاتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکی کی غذا اور تعلیم میں بھی امتیاز روا رکھا جاتا ہے۔ سماجی اور اقتصادی طور پر مردوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے عورت ہمیشہ مردوں کی محکوم رہتی ہے۔

تحریک نسواں کی سرگرم کارکن ہلڈا سعید کے بقول لاکھوں خواتین غربت کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اقتصادی طور پر عورت کا وجود عدم وجود کے برابر ہے۔ ویسے تو غربت دنیا بھر کا مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے صحیح تصویر پیش کرنا اور بھی مشکل ہے۔ پاکستان میں غربت میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست کرپشن، ملک سے سرمائے کا فرار، قرضوں کی شرائط، دفاعی اخراجات اور انتہاپسندی شامل ہے۔

ڈاکٹر محبوب الحق نے پاکستان کے اقتصادی، سماجی اور سیاسی اداروں میں اصلاحات لانے کی بات کی تھی، تاکہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے روکا جاسکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی تجاویز آج بھی اتنی ہی درست اور ضروری ہیں، جتنی برسوں پہلے تھیں، کیونکہ پاکستان کے ادارے آج بھی امیروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور سارا بوجھ غریبوں پر ڈال رہے ہیں۔

ہمارا انتخابی عمل اتنا مہنگا ہے کہ کسی غریب کے الیکشن میں حصہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق معاشرے میں پائے جانے والی عدم مساوات  کے بارے میں پاکستان کا ردعمل سطحی ہے اور اصل اسباب کے بجائے صرف علامتوں پر زور دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  عدم مساوات سے نمٹنے کے لیے کلیدی اداروں میں اصلاحات لانا  اور منصفانہ پالیسیاں بنانا ضروری ہے۔ علاقائی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے پیچھے رہ جانے والے علاقوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔