قانون تو بن گیا مگر…

نجمہ عالم  جمعـء 3 فروری 2017
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

سندھ اسمبلی نے گزشتہ ہفتے کم عمر بچوں سے کام کرانے پر پابندی کا بل منظورکیا ہے۔ اس بل کے تحت کمسن بچوں سے محنت مشقت لینے پر پابندی ہی عائد نہیں کی گئی ہے بلکہ بچوں سے کام لینے والوں کو تین سال قیدکی سزا بھی رکھی گئی ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔

بے شک یہ قانون وقت کی اہم ضرورت تھا۔ آج کے بچے ہمارا’’کل‘‘ یعنی مستقبل ہیں، اگر ان بچوں کو یوں ہی حالات کے حوالے کردیا جائے اور ان کے آیندہ کی فکر نہ کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے مستقبل،آنے والی نسل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے،مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون بنا لینا ہی مسئلے کا حل ہے؟ یہ بڑی امید افزا بات ہے کہ قانون ساز ادارے مثبت قانون سازی پر توجہ دے رہے ہیں۔

اس سے قبل پنجاب اسمبلی نے بھی تحفظ نسواں بل منظورکیا تھا، مگرکیا اس قانون نے واقعی عورتوں کو تحفظ فراہم کردیا۔ اول تو ہمارے پسماندہ ذہنیت کے افراد نے اس پر طرح طرح سے واویلا کیا، عورتوں کے تحفظ کا مطلب مردوں کو غیر محفوظ بنانا قراردیا گیا۔ بڑے بڑے نامی گرامی افراد نے اس کو مردوں کی غیرت کے خلاف قرار دے کر فرمایا کہ ’’کیا ہم چوڑیاں پہن لیں؟‘‘گویا صنف نازک کی دھنائی لگانا ہی ’’مردانگی‘‘ ہے۔ یہ بل پاس تو ہوگیا مگر اس پر عملدرآمد ہوتا دور دور نظر نہیں آیا۔ ہر روز خواتین کے قتل، زندہ جلا دینے، اغوا اور جنسی زیادتی وتشدد کے واقعات سے اخبارات پر ہوتے ہیں۔

سندھ اسمبلی نے اب بچوں سے مشقت نہ لینے کا بل منظورکیا ہے، تو کیا اس پر واقعی عملدرآمد ہوجائے گا؟ یہ بل گزشتہ ہفتے پاس ہوچکا ہے اور میں دو دن قبل اپنے علاقے کے ایک اسٹور پرگئی تو وہاں ایک بہت چھوٹا سا بچہ جس کی عمر بمشکل سات آٹھ برس ہوگی ہاتھ میں ایک چھڑی پر کپڑے کا جھاڑن لگائے چیزوں کی گرد جھاڑ رہا تھا۔

اس اسٹور پر میں اکثر جاتی رہتی ہوں۔ اس سے قبل بھی یہاں کچھ لڑکے کام کرتے رہے ہیں مگر ان کی عمریں15,14 سال کی تو ہوں گی۔ ان سے چیزیں لیتے ہوئے اکثر بات چیت بھی ہوجاتی کہ پڑھنے کے بجائے تم کام کیوں کر رہے ہو تو ان کے جواب یہی ہوتے کہ پانچ، چھ جماعت تک پڑھا مگر باپ کو کام نہیں ملتا ماں گھروں میں کام کرکے کچھ کما لاتی ہے۔ مگر اس سے گھر کے سات آٹھ افراد کو دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہے۔ پہلے دادا اور دادی بھی کام کرتے تھے مگر اب وہ بیمارہوگئے ہیں تو ان کا علاج بھی کرانا پڑتا ہے۔ اس لیے پڑھائی چھوڑکرکام کرنا شروع کردیا ہے۔

جب میں نے اس سے اوقات کار اور تنخواہ کے بارے میں پوچھا تو وہ ادھر ادھر دیکھ کرکسی اور کام میں مصروف ہوگیا، مگر اس سات، آٹھ سال کے بچے کو دیکھ کر تو میں حیران ہی رہ گئی اس سے جب پوچھا کہ کس وقت کام پر آتے ہو تو کہنے لگا صبح گیارہ بجے اسٹورکھلتا ہے تو ابا یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ پھر واپس کس وقت جاتے ہو؟ تو اس نے بتایا کہ رات دس بجے کے بعد۔ بچے سے میرا اگلا سوال اتنے عرصہ کام کا تمہیں معاوضہ کیا ملتا ہے؟تو اس نے بتایا ہزار روپے۔ وہ بچہ معصوم اور ناتجربہ کار تھا تو اس نے سب کچھ بتا دیا کہ اتنی دیر میں مالک دوسرے گاہکوں سے فارغ ہوکر ادھر متوجہ ہوگیا اور بچے سے ڈانٹنے والے انداز میں کہا کہ تم اتنی دیر سے یہیں پر کھڑے ہو اندر جاکر چیزوں کی صفائی کرو۔

اصل مسئلہ بل پاس ہونا نہیں بلکہ اس کی جڑ یعنی وجہ کو دورکرنا ہے۔ اگر ملک میں ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت دی جائے تو یہ نونہالان قوم تعلیم حاصل نہ کریں۔ جانے کتنے سائنسدان، موجد، دانشور، مصنف و ادیب ہم اپنی غفلت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ یہ کمسن بچے بھی اپنے دل میں کئی ارمان لیے ہوں گے، وہ اسکول جاتے بچوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں،ان کا بھی دل پڑھ لکھ کر کچھ کرنے اور بننے کو چاہتا ہوگا مگر ’’بھوک‘‘ انھیں کام کرنے پر مجبورکردیتی ہے۔ محنت کرنا تو پھر بھی کوئی عیب نہیں، اگر وہ یہ نہ کریں تو جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ کر مزید برباد ہوجائیں۔

پیٹ کی خاطر اورکئی قبیح فعل انجام دے سکتے ہیں۔ کام کرنے سے وہ کم ازکم ان جرائم سے تو دور رہتے ہیں۔ ورنہ نشہ، چوری، ڈاکا بلکہ دہشت گردوں کے آلہ کار بن کر خودکش حملہ آور تک بن جاتے ہیں۔ اس سنگین صورتحال پر آج تک کسی حکمراں، حکومت نے توجہ نہیں دی۔ بلکہ ہر روز مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ بچوں کو مشقت، عورتوں کو عصمت فروشی اور مردوں کو جرائم کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔

دوسری جانب حکمرانوں کا طرز زندگی مغل شہنشاہیت کو مات دیے ہوئے ہے۔ ہم گزشتہ کالم میں ایوان وزیر اعظم کی تزئین وآرائش پر اخراجات کا ذکرکرچکے ہیں تقریباً چالیس کروڑ محض آرائش پرخرچ ہو رہے ہیں، اگر یہ رقم عوامی فلاح کے منصوبوں پرخرچ کی جاتی توکتنے بچے تعلیم حاصل کرسکتے اورکتنے خاندان دو وقت کی روٹی کھاسکتے۔

کہا جاتا ہے کہ ہم غریب ملک کے باشندے ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ ملک کے ہر ادارے میں کروڑوں کی بدعنوانی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں بے حد وسائل سے نوازا ہے مگر ملک کی ساری دولت پر چندخاندانوں کا قبضہ ہے۔ اگر ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے تو ہم صد فی صد خواندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوسکتے ہیں۔

عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والوں پر لازم ہے کہ وہ عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کریں۔ انھیں ان کی صلاحیت کے مطابق روزگار مہیا کریں، مگر جس ملک میں بڑے سے لے کر چھوٹے کام تک پر صاحبان ثروت واقتدار قابض ہوں۔ بلا رشوت وسفارش کوئی خاکروب تک نہ لگ سکتا ہو تو وہاں بچوں سے مشقت کرنا تو الگ اچھے بھلے گھرانوں میں عزت وعصمت تک داؤ پر لگا دی جاتی ہے یا پھر ہر طرح کے اخلاقی جرائم معاشرے میں ناسور بن جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے اعلیٰ عہدوں پر فائزہرآسائش کے باوجود مزیدکی ہوس میں بدعنوانیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔

امیر مزید امیر اورغریب غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ معاشرتی تضاد ساری دنیا میں ہماری رسوائی کا سبب بن رہا ہے۔ اقوام پر برے دن آتے ہیں مگر ضمیر مردہ نہ ہو تو وہ جلدازجلد اس دور سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہیں، مگر جب ضمیر مرجائے تو پھر قوم ڈھٹائی، بے حیائی اورجرائم کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ قانون بن جانا بڑی بات نہیں۔اس کا احترام اصل بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔