خطاط، نقش نگار، مصور… صادقین

قمر عباس نقوی  جمعرات 9 فروری 2017

ہندوستان کے بڑے بڑے شہر جن میں علی گڑھ، لکھنو،کان پور، دہلی،کلکتہ علم و ادب کے حوالے سے عالمگیر شہرت کے حامل تھے۔ ان ہی میں گھمبیر آبادی پر مشتمل صوبہ اتر پردیش (یوپی) بھی تھا جن میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادیاں تھیں۔اسی اتر پردیش میں ایک چھوٹا سا قصبہ امروہہ بھی تھا، جو امن ومحبت، بھائی چارگی کے ساتھ علم و ہنر وادب کا بھی گہوارہ تھا۔

صوفی بزرگ حضرت شرف الدین شاہ ولایت قدس سرہ کو یہ سرزمین اتنی پسند آئی کہ انھوں نے یہاں مستقل سکونت اختیارکرلی اور یہیں ان کا وصال ہوا۔ مزارشریف بچھوکرامات کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔

سرزمین امروہہ کے لوگوں کو پاک ذات نے بہت تخلیقی ذہن سے نوازا ہے، بڑے بڑے دانشور، شعرا، مفکر، تخلیق کار جن میں راقم السطورکے ان دیکھے دادا سید محمد عسکری نقوی، شفیق ایلیا، رئیس امروہوی، سید محمد تقی، جون ایلیا، کمال امروہوی (فلمساز)، اقبال مہدی (مصور)، جنرل تنویر نقوی، ایڈمرل توقیر نقوی، اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب بریگیڈیئر زوار نقوی، سفیر پاکستان سید سبط یحیی نقوی، معروف بیوروکریٹ و دانشورورائٹرسید محمد سبطین، دانشور، مصنف، سید قمررضی نقوی اور دیگرمتعدد احباب کرام قابل ذکر ہیں ۔

میرا یہ کالم نامکمل ہے اگر میں امروہہ کی مٹی سے جنم لینے والے بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے درخشاں شاہکار، عالمی شہرت یافتہ خطاط، مصور اور نقش نگار (Legend of Art of Calligraphy, Painting, Murals) کی دنیا کے بے تاج بادشاہ صادقین کا ذکر نہ کروں جن کی تیسویں برسی حسب روایت 10 فروری کو منائی جارہی ہے۔

گوئٹے نے فن کی بڑے خوبصورت انداز میںتعریف کی ہے، کہتا ہے ’’فن کی انتہا حیرت ہے۔ سائنس اور فن تمام دنیا کی میراث ہیں اوران کے سامنے قومیت کی حدیں حائل نہیں ہوسکیں۔‘‘ فن کے عشق میں علامہ اقبال بھی اس حقیقت کو آشکارکرگئے خون جگرکے بغیر فن کی نمود نہیں ہوتی۔ گو کہ ایسے وقت میں جب وہ لاہورکے عجائب گھرکی نمائشی گیلری میں رباعیوں کی نقش نگاری میں مصروف تھے، راقم کو ذاتی طور پرملنے کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ یاد رہے یہ وہی دور تھا جب کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے دستی کام کو اپنی آغوش میں نہیں لیا تھا وہاںیہ مرد مومن اپنی تکنیکی مہارت دنیا کو دکھا کر 1987ء کو اس دار فانی سے خاموشی سے رخصت ہو گیا۔

آپ 1930ء میں امروہہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندانی نام سید صادقین احمد نقوی تھا۔ نوجوانی کی عمرمیں داخل ہوتے ہی 1947ء میں اپنے آبا واجداد کو خیر باد کہہ کر نومولود اسلا می ریاست پاکستان کی طرف اپنے خاندان کے ہمراہ ہجر ت کی۔ آپ کی معلومات کے لیے یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ان کی اس چھپے ہوئے فن کو برصغیرکے معروف سیاستدان بنگال کے وزیراعظم، پاکستان کی تشکیل شدہ کابینہ میں شامل وزیر دفاع اوراسی مملکت کے پانچویں منتخب وزیر اعظم حسین شھید سہروردی نے دریافت کیا اور ان کی مکمل معاونت اورحوصلہ افزائی کی۔ اسی دوران ان کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے دیواروں پر دلکش رنگین خطاطی کے فن (Murals)کو ایک نئی جہت دی۔

1955ء میںکراچی کے جناح اسپتال میں دیواری خطاطی، فریئر ہال(ارض وسماوت کے حوالے سے نمایاں) اورسہروردی کی رہائش گاہ پر نمائش کا انعقاد کیا۔ 1960ء میں ہونے والی قومی نمائش کے مقابلے میں پہلا انعام کے ساتھ حکومت پاکستان نے سول قومی ایوارڈ ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1961ء میں Laureate de Paris ا یوارڈ کا اعزاز بھی ان ہی کے حصے میں آیا۔اسی سال یعنی 1961ء میں ا نہوں نے مرکزی بینک بینک دولت پاکستان کے صدر دفتر کے لیے بہت بڑا مورل پینٹ کیا، جس کا ٹائٹل تھا ’’وقت کا خزانہ‘‘جس میں انھوں نے انسان کی بڑھتی ہوئی ذہانت کو سقراط، اقبال اورآئن سٹائن سے مفروض کیا۔ دیکھنے والوں سے کچھ لمحہ کے لیے محوگفتگو، جاذب نظر اور ہمیشہ کے لیے ذھنوں میں نقش ہونے والے ان فن پاروں کی نمائش کی رونمائی کے لیے متعدد بار امریکا اور دیگر ممالک کے کامیاب دورے بھی کرچکے ہیں۔

منگلا ڈیم کے پاورہاؤس میں Saga of Labor) ( کے ٹائٹل سے مزین فن پارہ جو وطن عزیرکے محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کررہا ہے اور اس سچ کی گواہی دے رہا ہے کہ محنت کش طبقہ ہمارے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ (مگر افسوس یہاں سب سے زیادہ اسی طبقے کی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے ریڑھ کی ہڈی کے علاوہ دوسرے اعضا بھی توڑے جارہے ہیں۔) 1968ء میں پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی لا ئبریری کے لیے سورہ رحمن کا خوبصورت تغرہ تیارکیا جو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ لاہورکے قدیم تاریخی عجائب گھر میں بے شمارفن پارے وہاں کی نمائشی گیلریوں کو رونق بخشے ہوئے ہے۔

انھوں نے اپنے فن کو وسعت اور شناخت دینے کے لیے ابوظہبی، بھارت کے شہر علی گڑھ، بنارس، حیدرآباد دکن، دہلی اور ممبئی تک اپنے فن پاروں کی آسان رسائی کو ممکن بنایا۔ 1970ء میں ایسا وقت بھی آیا جب انھوں نے ون میں شو کو اجاگرکرتے ہوئے رباعیات کا منفرد مجموعہ بنام رباعیات صادقین نقاش شایع کیا۔ جس سے متاثر ہو کر لٹریری سوسائٹی آف پاکستان نے انھیں پہلے انعام سے نوازا۔ وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ انھیں امیر، اشرافیہ طبقہ کے ڈرائنگ رومزکی سجاوٹ سے قطعاکوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے فن کو مخصوص لوگوں تک محدودکرنے کی بجائے عوام الناس کا حصہ بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود اس سرزمین پاک کی اہم سرکاری اورتاریخی عمارات کے اندرونی مرکزی حصوں میں ان کے شہ پارے سحرکن ماحول پیدا کررہے ہوتے ہیں۔کراچی میںواقع صادقین آرٹ گیلری اورصادقین انسٹیٹوٹ آف آرٹس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی (SIMSIT) فن کے فروغ کی زندہ مثال ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 600 صفحات پر ڈھائی ہزاررباعیات پر مشتمل مجموعہ ’’رباعیات صادقین کلیات‘‘جو ان کے بھتیجے سیدسلطان احمد نقوی نے بڑی محنت اور جستجو سے تر تیب دی ہے۔ رباعیات کے ذخیرہ کے اعتبار سے دنیا کی یہ واحد مخصوص کتاب ہے جس میں ضخیم مصوری کے صفحات کی تعداد 200  ہے۔

ان کی فنی خدمات اور قومی وعالمی اعزازات کی فہرست بلاشبہ بہت طویل ہے جس کو یہاں اختصاری کالم میں تحریرکرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ بنیادی طور پر وہ اپنے مخصوس فن اور رباعی کی شاعری میں ایک الگ منفرد شناخت رکھتے تھے اور بذات خود علمی ذات میں اسلامی مصوری کے آرٹ کی ایک رجسٹرڈ یونیورسٹی تھے۔

ان کی فنی زندگی کا سفر بہت کٹھن اورطویل عرصے پر محیط ہے۔ نہایت ایمانداری اور انصاف کے ساتھ شب وروز اپنی زندگی کا مجموعی حصہ اپنے فن کے دائمی عروج اور اس کے فروغ کے لیے وقف کردیا۔ان کی فنی اور علمی خدمات کا نمایاں پہلو جو ان کو دوسری شخصیات سے ممتازکرتی ہے وہ ہے مستند اردو ادب کے طاقتورستون مرزا غالب، علامہ اقبال اورفیض احمد فیض کی شاعری کی کینوس پر نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں تشریح و توضیح فرمانا ہے۔ پاکستان یونیکارن گیلری میں نصب علامہ اقبال کی نظم ’’آفتاب تازہ‘‘کی خوبصورت پینٹنگ کے ذریعے دلکشی پیدا کی ہے۔ انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں فن پارے اوراسی تعداد میں رباعیاں لکھیں اور انھیں چھپوایا۔ اسلامی طرز میں رباعی کی شاعری میں ان کا کوئی ہم عصر نہ تھا۔اپنے مسلسل کام سے عشق کا یہ عالم تھا کہ بھوک اورپیاس تک کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ 30 سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی ان کے شہ پاروں کا ذخیر اثاثہ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک کی ممتاز عجائب گھروں کی زینت ہے۔

کمیونیکیشن کے سب سے بڑے ذرایع ٹیلی ویژن، ریڈیو، فلم،دستاویزی فلمز، ڈرامے، اسٹیج ڈرامے، سوشل میڈیا، اشتہارات، شاعری ،نظم، غزل، مضمون نویسی،کالم نگاری، سرکاری گزٹ کا اجراؑ، نوٹیفکیشن، سر کلرز، اخبارات، رسائل، جرائد،کارٹون،افسانہ، ناول، تقاریر کا سلسلہ، یہ سب اپنے احساسات وجذبا ت کے اظہار کے موثرطریقے ہیں۔ ہم ایک ایسے مادیت زدہ ماحول میں بے تر تیب زندگی گزاررہے ہیں کہ اپنے اسلاف، محسنوں، قومی ہیروزکو بھولتے جا رہے ہیں، آیندہ آنے والی نسلیں ان قابل قدر قومی سپوتوں کے بارے میں ناواقف ہوں تو کسی کو تکلیف پہنچے نہ پہنچے یقینا کم از کم میرے لیے تو بڑے دکھ کا مقام ہے۔ یاد رکھیں! تاریخ گواہ ہے، دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے اسلاف، قومی اثاثوں کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔اللہ آپ کو دائمی امن و سکون بخشے۔(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔