آصف زرداری کی اے پی سی کتنی کامیاب کتنی ناکام؟

مزمل سہروردی  پير 6 مارچ 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آصف زرداری کے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ وہ کوئی ہاری ہوئی بازی نہیں کھیلتے ہیں۔ وہ جیتنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہار رہے ہوں تو مخالف کی جیت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آپ اس کو ان کی مفاہمت کی پالیسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ بے وجہ تناؤ اور ہٹ دھرمی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ ہارنے سے بچنے کے لیے جیتنے والے کے ساتھ ملنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی ان کی سیاست کی بنیاد ہے۔ جس سے انھوں نے بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اور مزید کامیابیاں سمیٹنے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے وہ ملک کے اگلے وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل ہیں۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ آصف زرداری ہارنے والی گیم نہیں کرتے تو پھر جب ساری جماعتیں فوجی عدالتوں پر متفق ہو چکی ہیں تو جناب آصف زرداری کیا گیم کھیل رہے ہیں۔ کیا وہ اکیلے فوجی عدالتوں کا راستہ روک سکتے ہیں۔ نہیں وہ اکیلے فوجی عدالتوں کا راستہ نہیں ر وک سکتے اس کے لیے انھیں سینیٹ میں اور جماعتوں کی مدد درکار ہے جو ابھی ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن پھر بھی انھوں نے ایک اے پی سی کی ہے۔ جو بے نتیجہ رہی ہے۔

اس اے پی سی میں یہی لگ رہا ہے کہ آصف زرداری پر تمام جماعتوں نے واضح کر دیا ہے کہ و ہ فوجی عدالتوں کا راستہ روکنے میں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس لیے اگر اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں کا راستہ روکنا تھا تو اس کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس ضمن میں اسپیکر کی میٹنگ میں پہلے ہی اعلان ہو چکا تھا۔ اور پارلیمانی جماعتیں فوجی عدالتوں کی حمائت کا اعلان کر چکی ہیں۔

میرے خیال میں آصف زرداری کی اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں کا راستہ روکنا نہیں تھا۔ فوجی عدالتوں کا نام دیکر انھوں نے اپنی صف بندی کا اعلان کیا ہے۔ جب انھوں نے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ وہ حکمران جماعت کو نہیں بلا رہے تو صاف تھا کہ فوجی عدالتوں پر کوئی بامعنی بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ بہر حال آصف زرداری کو یہ اندازہ تو پہلے ہی ہو گا کہ فوجی عدالتوں کی مخالفت میں عمران خان ان کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھیں گے۔

اسی طرح ایم کیو ایم پاکستان بھی وہ آخری جماعت ہو گی جوفوجی عدالتوں کا راستہ روکے گی۔ ایسے میں انھیں سمجھ ہونی چاہیے کہ گیم ختم ہو گئی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی کھیل رہے ہیں۔ دو سال پہلے جب فوجی عدالتیں قائم ہوئی تھیں تب ایم کیو ایم پاکستان نہیں تھی بلکہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم تھی اس لیے آصف زرداری کافی باتیں منوانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے اس لیے آصف زرداری کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس لیے آصف زرداری نے یہ اے پی سی کوئی فوجی عدالتوں کا راستہ روکنے کے لیے نہیں بلائی تھی۔ نام فوجی عدالتیں ہی تھا مقصد کچھ اور تھا۔

فریب ہی سیاست کا حسن ہے۔ جو نظر آتا ہے وہ نہیں ہو تا۔ جو نظر نہیں آتا وہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس اے پی سی میں جو نظر آ رہا ہے وہ نہیں ہے۔ اس اے پی سی کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے ہمیں پردہ کے پیچھے دیکھنے کی ضرورت ہے۔کیا اس اے پی سی کے ذریعہ آصف زرداری اپنے اتحادیوں کی تلاش میں تو نہیں تھے۔ کیا وہ یہ تو نہیں چیک کر رہے تھے کہ ن لیگ اور تحریک انصاف کی مخالفت کے سامنے ان کے ساتھ کون کون کھڑا ہو سکتا ہے۔

کون کون ان کے ساتھ ہاری ہوئی گیم بھی کھیلنے کے لیے تیار ہے۔ اگر اس مفروضہ کو درست مان لیا جائے توآصف زرداری کا یہ پہلا امتحان کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ چھوٹی جماعتوں کی ایک لمبی لائن ہے جن کو وہ اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اگلے انتخابات میں ایک تھرڈ فورس بنا سکتے ہیں۔ بس اس اے پی سی کا واحد مقصد یہی تھا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ شیخ رشید اگر تحریک انصاف کے ساتھ ہیں تو آصف زرداری کی اے پی سی میںکیا کر رہے تھے۔ لیکن پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ جب عمران خان پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے نہیں جا رہے تو شیخ رشید جا رہے ہیں۔ وہ ایک آزاد پنچھی ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ عمران خان کی منڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ لیکن وہ سیاسی طور پر ابھی تک آزاد ہیں۔ وہ اس اے پی سی میں عمران خان کی طرف سے ڈیوٹی پر بھی تھے۔ تا کہ یہ جانا جا سکے ک آصف زرداری کی کیا گیم ہے۔ اس لیے ان کے ہونے کے کافی مطلب ہیں۔ مگر یہ مطلب نہیں کہ وہ آصف زرداری کے ساتھ ہیں۔ شاید آصف زرداری ان کی آخری آپشن ہونگے۔

اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی میں موجودگی پر بھی کافی سوال ہیں۔ لیکن مولانا فضل الرحمن کی سیاست تو آصف زرداری کی سیاست سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ وہ سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے اتحادی ہیں۔ اور قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف کے اتحادی ہیں۔

فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے پر وہ ایک دن میاں نواز شریف کے خلاف پریس کانفرنس کر رہے تھے اور اگلے دن میاں نواز شریف کے ساتھ ڈیم کے افتتاح پر مسکرا رہے تھے۔ اور اس سے اگلے دن آصف زرداری کی اے پی سی میں موجود تھے۔ وہ جہاں ہوتے ہیں وہاں نہیں ہو تے اور جہاں نہیں ہو تے وہاں ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی موجودگی ان کی غیر موجودگی کا احساس بھی دے رہی تھی۔

چوہدری برادران کی موجودگی پر یہ کہا جا سکتا ہے گو کہ وہ فوجی عدالتوں کے معاملہ پر آصف زرداری کے ساتھ نہیںہیں لیکن وہ سیاسی طور پر اس وقت آصف زرداری کے ساتھ گیم بنانے کے موڈ میں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اس اے پی سی سے پہلے اپنے گھر پر ایک منی اے پی سی بھی کی تھی۔ اس منی اے پی سی کے انعقاد سے یہ واضح ہو گیا کہ چوہدری برادران پیپلزپارٹی کے ساتھ گیم بنانے کے موڈ میں ہیں۔

چوہدری برادران ایک تھرڈ فورس کے اتحاد کی تلاش میں ہیں۔ لیکن ابھی تک آصف زرداری نے انھیں گرین سگنل نہیں دیا۔ اسی لیے وہ مشکل میں بھی ہیں۔ تاہم چوہدری برادران اور آصف زرداری کے پاس اکٹھے چلنے کی آپشن موجود ہے۔ اس میں دیگر چھوٹی جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ اور چوہدری برادران انھیں چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ پیپلزپارٹی کو ایک مشترکہ گیم پر آمادہ کیا جا سکے۔ اس لیے چوہدری برادران دل وجان سے وہاں موجود تھے۔

جہاں تک فوجی عدالتوں کا تعلق ہے تو آصف زرداری کوحکومت کی مجبوریوں کا بخوبی علم ہے۔ آصف زرداری کی خواہش پر ہی توحکومت نے فوجی عدالتوں کی بر وقت توسیع نہیں کی اور ان کو اپنی موت مرنے دیا۔ اب بھی حکومت کی طرف سے آصف زرداری کو فری ہینڈ ہے کہ اگر وہ فوجی عدالتوں کو روکنے کی عددی اکثریت حاصل کر لیتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن آصف زرداری فی الحال فوجی عدالتوں میں کرپشن کیسز کو جانے سے روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دو سال قبل ایم کیو ایم ان کے ساتھ تھی اس لیے وہ کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اب ایم کیو ایم ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لیے وہ مشکل میں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔