ریلوکٹا اور پھٹیچر

عبدالقادر حسن  منگل 14 مارچ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے سیاستدانوں کی اکثر یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ اپنے کسی سیاسی حریف پر چوٹ کرنے کے لیے کوئی نیا لفظ تلاش کریں اس ضمن میں ان کے ساتھی چھوٹے لیکن ان سے زیادہ ذہین سیاستدان ان کی مدد کرتے ہیں مثلاً ان دنوں سیاسی مخالفوں کے لیے دو نئے طنزیہ لفظ تلاش کیے گئے ہیں ان میں ایک ’ریلو کٹا‘ ہے دوسرا ’پھٹیچر‘۔ یہ دونوں حسب ضرورت مخالف سیاستدانوں پر خوب بیٹھتے ہیں۔ یہ دونوں دیہاتی پنجابی کی سوغات ہیں۔ یہ دونوں لفظ ہم بچپن سے سنتے اور بولتے چلے آ رہے ہیں۔ ’ریلوکٹا‘ بھینس کا وہ بچھڑا ہوتا ہے جو عمر میں اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے ذبح نہیں کیا جا سکتا چونکہ اس کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی اس لیے وہ اپنی کسمپرسی کی اس حالت میں آوارہ ہو جاتا  ہے۔

مالک اس انتظار میں رہتا ہے کہ وہ اتنا بڑا ہو جائے کہ کسی کام آ سکے اس لیے اس کی بہن کٹی کے مقابلے میں اسے کوئی نہیں پوچھتا اور کھانے کے لیے بچا کچا ہی ملتا ہے جب کہ بھینس بن جانے والی کٹی کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور وہ نخروں میں پلتی ہے۔ کٹے کو چونکہ بس زندہ ہی رکھا جاتا ہے اس لیے وہ کچھ کھانے کے لیے ہروقت ریں ریں کرتا رہتا ہے۔ یہ ایک فالتو جانور سمجھا جاتا ہے اس لیے وہ بس زندہ ہی رکھا جاتا ہے کہ ذرا بڑا ہو کر کسی کام آ سکے۔ اس کی ریں ریں کی وجہ سے اسے ’ریلوکٹا‘ کہا جاتا ہے  جسے ہر طرف سے دھتکار پڑتی رہتی ہے۔ اس لیے کسی غیر مقبول اور فالتو قسم کے سیاستدان کو بھی ریلوکٹا کہا گیا ہے، جس سیاستدان کی سیاست کے بازار میں کوئی وقعت اور اہمیت نہ ہو اسے ریلوکٹا بجا طور پر کہہ دیا گیا ہے۔

کسی دیہاتی پس منظر والے سیاستدان نے اگر کسی بے کار ساتھی کو ریلو کٹا کہہ دیا ہے تو اس نے اپنے دیہی ماضی کو یاد کیا ہے جس میں ریلو قسم کا کٹا ہو یا سیاستدان وہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔ وقت آنے پر حلال کیا جا سکتا ہے۔اگر کسی سیاستدان نے اپنے حریف کو ریلو کٹا کہہ دیا ہے تو اس نے یہی مناسب سمجھا ہے۔ اس طنز کی سزا اور جزا بھی اسی کو ملے گی سننے والے خوش ہو سکتے ہیں یا ناراض۔ سیاست میں یہ سب چلتا ہے ایسی شریفانہ چوٹیں ہی اچھی لگتی ہیں ورنہ ان دنوں تو نوبت گالی گلوچ تک ہی پہنچ گئی ہے۔ سیاست میں یہ لہجہ اور ایسی چوٹیں پہلی بار متعارف ہوئی ہیں اور گالی گلوچ سے بہر حال بہتر ہیں ورنہ ہماری سیاسی دنیا میں ان دنوں کچھ ایسے لوگ بھی آ گئے ہیں جو بازار اور کسی فٹ پاتھ سے اٹھ کر اپنی چرب زبانی کی وجہ سے سیاست دان بن گئے ہیں اور لیڈروں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔

سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کامیابی سے آپ کسی بھی حکومتی منصب تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کے لیے کسی ڈگری اور تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ سرمائے کی ضرورت ہے اور چرب زبانی اور سیاستدانوں کے ساتھ پرانے تعلقات کی جن کی وجہ سے وہ سیاست میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب وہ خود سیاستدان ہیں۔ خلا باقی نہیں رہتا سیاسی خلا بھی ان لوگوں نے پر کر دیا ہے اور اسے پر کرتے رہتے ہیں اب وہ خود سیاستدان ہے خواہ وہ پرانے سیاستدانوں کی زبان میں ریلوکٹے ہوں یا کوئی پھٹیچر قسم کی چیز۔

ریلوکٹے کی طرح پھٹیچر بھی ایک دیہاتی اصطلاح ہے جو جوتی پھٹ جائے اور اس کے ساتھ چلنا پھرنا بھی مشکل ہو جائے تو اس جوتی کو پھٹیچر کہا جاتا ہے یعنی پھٹی ٹوٹی۔ اسے عموماً پرے پھینک دیا جاتا ہے جو سیاستدان بھی کسی کام کا نہ رہے وہ پرانی جوتی کی طرح پھٹیچر ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے کسی سیاستدان نے اگر کسی مخالف کو ریلوکٹے یا پھٹیچر جوتی کی طرح کہا ہے تو یہ لفظ مستند اور دیہی زندگی کا ایک مستعمل لفظ ہے چنانچہ دیہات کا جم پل کوئی سیاستدان اگر اپنے حریف پر یہ طنز کرتا ہے تو وہ ایک مستند لفظ استعمال کر رہا ہے جسے دیہات کے شرفاء استعمال کیا کرتے ہیں۔ اسے ایک طنز تو کہا جا سکتا ہے لیکن کوئی گالی وغیرہ نہیں، اس لیے اگر کوئی سیاستدان سیاسی دنیا میں پھٹیچر ہو اور اسے کوئی دیہاتی اگر پھٹیچر کہہ دے تو یہ غلط نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی بدتمیزی۔ چنانچہ ’ریلوکٹا یا پھٹیچر‘ دونوں ہمارے دیہات کے عام مستعمل لفظ ہیں جو مخالفت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن گالی گلوچ میں شامل نہیں ہیں۔

ہماری سیاست عموماً اونچے طبقے کی میراث سمجھی جاتی ہے جب کہ اس کا خام مال عوام سے آتا ہے لیکن چالاک کاروباری لوگوں کی طرح چند لیڈروں نے اسے بھی کاروبار ہی سمجھ لیا ہے اور وہ اسے کاروبار سمجھ کر ہی چلا رہے ہیں۔ نام تو خدمت خلق کا ہے لیکن عمل ایسا نہیں ہے، اور وہ کیا ہے ہمارا ہر پاکستانی اپنے لیڈر کو سمجھتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے اس میں خدمت خلق کتنی ہے اور ذاتی خدمت کتنی بلکہ ذاتی ہی ہے اور مدتوں سے ہی چلا آ رہا ہے اور لگتا ہے کہ چلتا رہے گا۔ جب سے سیاست وجود میں آئی ہے اور سیاستدان پیدا ہوئے ہیں تب سے ہی یہ سلسلہ چل رہا ہے۔

انھی سیاستدانوں میں ان کے ساتھیوں کے بقول کچھ ریلو کٹے ہیں اور کچھ پھٹیچر۔ ہمارا ملک اور قوم انھی ریلوکٹوں کے ذریعے چل رہی ہے اور لگتا ہے کہ ایسی ہی چلتی رہے گی۔ کئی کٹے اور پھٹیچر آئیں گے اور قوم کی رہنمائی شروع کر دیں گے قوم اس طرح اور انھی کی قیادت میں چلتی رہے گی اور اپنا نہ ختم ہونے والا سفر طے کرتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔