باکمال نغمہ نگار کلیم عثمانی کی یادیں(حصہ دوم)

یونس ہمدم  ہفتہ 18 مارچ 2017
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

فلمساز و ہدایتکار ہمایوں مرزا ایک سیماب صفت انسان تھے، ان کی طبیعت میں قرار کم تھا اور وہ اکثر اپنے فیصلے بدلتے رہتے تھے اور پھر بیچینی کا شکار بھی رہتے تھے۔ چار سال تک فلمسازی سے دور رہنے کے بعد پھر اسی میدان میں خم ٹھونک کر آ گئے اور نئی فلم ’’دھوپ چھاؤں‘‘ کا آغاز کیا۔ اس بار پھر انھوں نے اپنے پچھلے موسیقار فیروزنظامی کی جگہ موسیقارغلام نبی عبداللطیف کو لے لیا۔ اس فلم میں کلیم عثمانی کی لکھی ہوئی ایک غزل جو سلیم رضا نے گائی تھی ان دنوں کافی مشہور ہوئی تھی جس کے بول تھے:

آج اس شوخ کی تصویر سجالی میں نے

ہمایوں مرزا کی فلم ’’دھوپ چھاؤں‘‘ چھاؤں سے زیادہ دھوپ سے دوچار ہو گئی تھی۔ موسیقار ناشاد کی فلم ’’ہم دونوں‘‘ کے بعد ایک اور فلم ’’جلوہ‘‘ میں بھی موسیقار ناشاد کے ساتھ شاعرکلیم عثمانی ہی تھے۔ ’’جلوہ‘‘ کی ایک غزل نے ان دنوں بڑی دھوم مچائی تھی۔ اسے گلوکار مجیب عالم نے گایا بھی بہت خوب تھا، غزل کا مطلع تھا:

وہ نقاب رخ الٹ کر ابھی سامنے نہ آئیں

کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں

اس غزل سے مجیب عالم کو بھی بے تحاشا شہرت نصیب ہوئی تھی۔ یہ غزل فلم میں شمیم آرا اور درپن پرفلمائی گئی تھی اور دونوں کی اداکاری نے بڑا جلوہ دکھایا تھا۔ اس فلم میں مہدی حسن نے بھی کلیم عثمانی کا لکھا ہوا ایک گیت نیم کلاسیکل انداز میں کمپوز کیا تھا۔ جس کے بول بھی نغمگی لیے ہوئے اور دل میں اتر جانے والے تھے۔

لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں

دیپ جلیں سُر کے ساگر میں

جب میں گیت سناؤں

اس گیت کو لیجنڈگلوکار مہدی حسن نے بھی اپنی سریلی آواز کے حسن سے سجایا تھا۔ 1968ء سے لے کر 1975ء تک کلیم عثمانی کی دل نشیں غزلوں اور دلفریب گیتوں کا دور تھا، ان کے گیتوں کی ایک طویل فہرست ہے جس کا تذکرہ اس کالم میں تو ممکن نہیں ہے کہ کالم کا دامن چھوٹا پڑ جائے گا پھر بھی چند ہٹ گیتوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے:

خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرا دو (فلم بندگی)

میرے دل کی محفل سجا دینے والے (فلم عندلیب)

پیار کر کے ہم بہت پچھتائے (فلم عندلیب)

شکستہ دل ہوں مجھے زندگی سے پیار نہیں (فلم عصمت)

چاند نکلا ہے ترے حسن کی تصویر لیے (فلم جوش انتقام)

تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں گے (فلم زندگی)

جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے (فلم زندگی)

مرا خیال ہو تم میری زندگی تم ہو (فلم نازنیں)

تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے (فلم شرافت)

تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا (فلم گھرانہ)

قصہ غم سنائے جا اے زندگی رلائے جا (فلم بڑا آدمی)

روٹھے سیاں کو خود ہی منانے چلی آئی (فلم دوستی)

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں (فلم داغ)

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں (فلم فرض اور مامتا)

کلیم عثمانی کو فلمی دنیا میں غزل کی آبرو بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے کبھی کسی موسیقارکے ساتھ کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ بہت کم دھنوں پرگیت لکھے اور جتنے گیت بھی دھنوں پر لکھے ان کی بھی ادبی حیثیت مسلم رہی ہے۔ میں دس سال لاہور میں رہا اور میری دس سال تک ان کے ساتھ رفاقت بھی رہی، میں جب کراچی میں تھا توکلیم عثمانی ہر سال نگار فلم ایوارڈز کی تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے بطور خاص لاہور سے آتے تھے اور پھر نگار ویکلی کے دفتر میں بھی اکثر ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ ان دنوں میں نگار ویکلی کے شعبہ ادارت میں شامل تھا اور فلموں کا مشہور مکالمہ نگار بشیر نیاز بھی نگار ویکلی کا معاون ایڈیٹر تھا۔ جب کہ نامور صحافی اور شاعر دکھی پریم نگری نگار کے سینئر ایڈیٹر تھے۔

انھی دنوں آج کے مشہور صحافی نادر شاہ عادل بھی، ہفت روزہ نور جہاں اور نگار کے لیے خوبصورت مضامین لکھا کرتے تھے جب بھی کلیم عثمانی کراچی آتے تھے تو کئی دن کراچی میں رہتے تھے اور نگار ویکلی کے دفتر میں اکثر دوپہر کے کھانے کے دوران ان سے ملاقات رہا کرتی تھی اور شعر و شاعری کی چھوٹی سی بیٹھک بھی رہا کرتی تھی۔ ایڈیٹر نگار ویکلی کے گھر سے روزانہ پابندی کے ساتھ دوپہر کا کھانا آیا کرتا تھا اور دفتر کے سب لوگ مل کر کھانا کھاتے تھے۔ ایسے ہی ایک دن دوپہر کے کھانے کے بعد شعر و شاعری کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ دکھی پریم نگری صاحب نے کلیم عثمانی سے کہا بھئی! یہ ہمارا نوجوان صحافی یونس ہمدم ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اب فلمی گیت نگار بھی ہو گیا ہے۔

دو تین فلموں میں گیت لکھ چکا ہے۔ اس کی خواہش بھی لاہور کی فلم انڈسٹری میں جانے کی ہے اگر یہ لاہور آئے تو آپ نے اس کا خیال رکھنا ہے۔ یہ سن کر کلیم عثمانی بہت خوش ہوئے تھے اور کہنے لگے یونس میاں لاہور آؤ اور کمر کس کے آؤ۔ اپنے آپ کو منوانے کے لیے حوصلے اور ہمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارا تعاون تو ہر قدم تمہارے ساتھ ہو گا۔ پھر وہ بولے ارے بھئی! چلو اسی بہانے کچھ سناؤ۔ ایڈیٹر الیاس رشیدی بولے شرماؤ نہیں کچھ سنا دو، یہ تو تمہارے لیے ایک اعزازکی بات ہے۔ کلیم عثمانی جیسے نامور شاعر اور نغمہ نگار تم سے کچھ سننے کی فرمائش کر رہے ہیں اور واقعی یہ میری خوش قسمتی تھی، پھر میں نے ایک قطعہ اور ایک غزل سنائی غزل کے دو اشعار قارئین کی نذر ہیں۔

میں اپنے شہر میں پھر بھی اجنبی سا ہوں

جنوں یہ ہے کہ وفا کو تلاش کرتا ہوں

جو میرے زخموں کا مرہم بھی نوچ لیتے ہیں

میں ایسے لوگوں کی بستی میں کب سے رہتا ہوں

پھر ایک یہ قطعہ سنایا تھا:

زندگی کیوں اداس رہتی ہے

غم کی تصویر پاس رہتی ہے

ان سے ملنا بھی خوب ہوتا ہے

جوں کی توں میری پیاس رہتی ہے

میرے اشعار سن کرکلیم عثمانی نے بے ساختہ کہا۔ یونس میاں! شاعری کا ایک جنوں پرورش پا رہا ہے تمہارے اندر۔ آج اگر ہمارا ہے توکل تمہارا بھی ہو گا پھر وہ کہنے لگے تم ساحر لدھیانوی سے متاثر نظر آتے ہو اپنے قطعہ میں تم نے اسی کے خیال کو اپنے انداز میں سمویا ہے اور یہ بھی ایک شاعرانہ خوبی ہوتی ہے جو تمہارے اندر موجود ہے۔ میں نے ان کی بات کے جواب میں کہا تھا کہ میں واقعی ساحرؔ لدھیانوی کا پرستار ہوں۔ اس کی کتاب ’’تلخیاں‘‘ میں نے اس طرح پڑھی ہے جیسے کوئی اپنے نصاب کی کتاب پڑھتا ہے۔

یہ ایک بڑی خوشگوار اور یادگار ملاقات تھی کلیم عثمانی سے، پھر بات آئی گئی ہوگئی اورکچھ عرصے بعد بشیر نیاز نگار اخبار چھوڑ کر لاہور چلے گئے وہاں بحیثیت مکالمہ نگار انھوں نے بے شمار ہٹ فلمیں لکھیں پھر میں بھی خوش قسمتی سے لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا اور کلیم عثمانی سے تقریبا ً ہر دوسرے تیسرے دن ایورنیو اسٹوڈیو میں ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔

بہت سے فلمسازوں سے کلیم عثمانی کی معرفت ملاقاتیں رہیں۔ کلیم عثمانی بہت ہی کشادہ دل کے انسان تھے۔ جب میں سنگیتا پروڈکشن سے باقاعدہ وابستہ ہو گیا تو پھر وہ سنگیتا پروڈکشن میں بہت کم آتے تھے اور کہتے تھے بس اب ہمارا دور جتنا تھا وہ گزر چکا ہے، اب نئے لوگوں کا دور ہے۔ نوجوان لوگوں کو آگے آنے کے لیے بزرگوں کو راستہ دینا چاہیے۔ کلیم عثمانی آہستہ آہستہ تصوف کی طرف چلے گئے۔ فلمیں لکھنی چھوڑ دیں اور نغمہ نگار فیاض ہاشمی کے بعد یہ بھی صوفیانہ زندگی سے جڑتے چلے گئے تھے۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ لاہور میں مجھے فیاض ہاشمی اور کلیم عثمانی دونوں کی شفقت حاصل رہی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔