’’ٹھیکرے کی مانگ‘‘

صدف آصف  اتوار 13 جنوری 2013
ہمارے یہاں شادیوں کو ایک نہ حل ہونے والا مسئلہ سمجھا جانے لگا ہے۔ فوٹو: فائل

ہمارے یہاں شادیوں کو ایک نہ حل ہونے والا مسئلہ سمجھا جانے لگا ہے۔ فوٹو: فائل

پوری دنیا میں والدین سے زیادہ اپنی اولاد کا بھلا کوئی اور نہیں سوچ سکتا، وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں۔

اس کے پیچھے اولاد کی بہتری ہی پنہاں ہوتی ہے، لیکن نسل در نسل چلنے والی کچھ روایات ایسی ہیں جن سے اس دور میں بھی چمٹے رہنے کو اچھا سمجھنا یقیناً والدین کی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ جیسے عہد کم سنی میں شادی یا منگنی کا فیصلہ کرنا۔ ایسے فیصلے بعض اوقات بچوںکی زندگی کو بہت زیادہ مشکلات کا شکار کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی بڑوں کا جلد بازی میں اٹھایا جانے والا قدم چھوٹوں کی زندگی تباہ کرنے کا باعث بن جاتا ہے ۔

گائوں دیہات اور بعض شہروں میں بھی کچھ برادریاں اور خاندان اپنی پرانی ریت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی نوزائیدہ بچی کا رشتہ گیارہ، بارہ یا پندہ سال کے لڑکے سے کر دیا جاتا ہے، یا شادی کی عمر نکل جانے کے خوف اور خاندان میں جوڑ نہ ہونے کی وجہ سے بڑی عمر کی لڑکیوں کا نکاح نو عمر لڑکوں سے کر دیا جاتا ہے، کچھ والدین تو خوشی خوشی پالنے میں پڑی بچی کو کسی بچے سے منسوب کر دیتے ہیں، یا کبھی تو پیدائش سے قبل ہی خاندان کے بزرگ اعلان کر دیتے ہیں کہ اگر لڑکی ہوئی تو یہ فلاں کی منگ ہو گی، جسے ’’ٹھیکرے کی مانگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

بعض خاندان سالوں سے جاری دشمنیاں ختم کرنے کے لیے بھی اس طرح کی شادیاں کرا دیتے ہیں، تو کہیں رشتے کے بدلے رشتہ کرنے میں عمر، شکل و صورت یا جوڑ کا خیال نہیں رکھا جاتا، اور ادلے بدلے کی شادی کر دی جاتی ہے، جسے اصطلاحاً ’’وٹہ سٹہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس رسم کی وجہ سے اکثر لڑکیوں کو اپنے بھائی یا باپ کی دوسری شادی کے لیے خود کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ برسوںسے جاری اس رسم کے ذریعے لڑکیاں اپنی مرضی کے بغیر ادلے بدلے کے رشتوں کے بندھن میں باندھی جا رہی ہیں۔ روایتی گھرانے اس طریقہ کار کو کام یاب شادی کی ضمانت کہتے ہیں۔ شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں جہاں لڑکی کو صرف جائیداد سمجھا جاتا ہے، ایسی شادیوں کا رواج عام ہے۔

ہمارے یہاں شادیوں کو ایک نہ حل ہونے والا مسئلہ سمجھا جانے لگا ہے، بالخصوص لڑکیوں کے لیے والدین جلد از جلد شادی کے فریضے سے سبک دوش ہونا چاہتے ہیں، اگر لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے لیے مناسب ہیں تو شوق سے رشتے کیے جائیں، مگر جبری طور پر کی جانے والی شادیاں ہمارے مذہب میں بھی جائز نہیں۔ اسلام تو ایسا وسیع النظر مذہب ہے جو شادی سے قبل لڑکی کا عندیہ لینے کی تاکید کرتا ہے، جب کہ بچپن میں طے کی گئی نسبت میں رضا و رضامندی کا سوال ہی نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت، اچھے رشتوں کا فقدان، خاندان یا برادری سے باہر رشتہ نہ کرنے کی رسم، مادیت پرستی، تعلیم اور شعور کی کمی وغیرہ۔

بچپن میں طے کیے جانے والے رشتوں میں منگنی شدہ جوڑوں کو اس وقت تو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا مگر جیسے جیسے وہ شعور کی منزلیں طے کرتے جاتے ہیں، ویسے ویسے انہیں اس باہمی رشتے کی سمجھ آتی جاتی ہے، لیکن اگر جوانی میں کسی ایک کے خیالات میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے، تو دوسرے کی زندگی پر اس کے خاصے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں بالخصوص لڑکیوں کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

بعض گھرانوں میں بچوں کو مذاقاً کم عمری سے ہی ایک دوسرے کے نام اور نسبت سے چھیڑا جاتا ہے، ان کے خیالات کو ایک دوسرے کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔ لوگوں کے اس عمل کے باعث ایک طرف ان کا بچپن بہت جلد ختم ہو جاتا ہے اور ان کی معصومیت گویا چِھن جاتی ہے تو دوسری طرف اس کا اثر لڑکوں پر یہ ہوتا ہے کہ وہ ناسمجھی میں اپنی منگیتر کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتے ہیں اور رعب جماتے ہیں، جب کہ کچھ پہلے ہی سے شک وشبے کے عادی ہو جاتے ہیں، کیوں کہ وقت آنے سے قبل ہی ان کے نحیف کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہوتی ہے، جس کے وہ ابھی اہل نہیں ہوئے ہوتے۔

ان وجوہات کی بنا پر دونوں خاندانوں کے درمیان تلخیاں جنم لینے لگتی ہیں اور بعض گھرانے منگنی ختم کرنے پر مُصر ہوتے ہیں کہ ’’آپ کا بیٹا تو ابھی سے ہماری بیٹی کو ذہنی اذیتیں دے رہا ہے، بعد میں پتا نہیں کیا کرے گا!‘‘ بچپن کی منگنی ختم ہونے کا ایک اور ناخوش گوار پہلو یہ ہے کہ ایک رشتہ ٹوٹتا ہے تو پھر سابقہ رشتے سے پہلے والی گرم جوشی یا تعلقات ہی باقی نہیں رہ پاتے، رنجشیں اتنی بڑھتی ہیں کہ پھر کئی رشتے دار بھی چھوٹ جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک فریق اتنا پڑھ لکھ جاتا ہے کہ دوسرا اسے اپنے معیار کا نہیں لگتا، نتیجتاً پہلے سے طے شدہ کچے دھاگے جیسا یہ بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔

زیادہ تر لڑکا لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایسے رشتے کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ ان کو لگتا ہے کہ والدین کے اس عمل نے انہیں اسیر کر کے ہمیشہ کے لیے ایک ان دیکھے زندان میں ڈال دیا ہے۔ بعض اوقات تو دونوں کا معیار بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے مگر انہیں لگتا ہے کہ آپس میں ذہنی ہم آہنگی کی کمی ہے، یا کوئی فریق کسی دوسرے لڑکے یا لڑکی کو پسند کرنے کی وجہ سے انکاری ہو جاتا ہے۔

بعض نوجوان اپنے ہم سفر کی تلاش اور چنائو کے معاملے میں مکمل آزادی چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح کی رسموں کو فرسودہ، دقیانوسی اور خود پر ظلم تصور کرتے ہیں۔ ان کا یہ استدلال ہوتا ہے کہ زندگی کے اس اہم فیصلے کے موقع پر ان کی مشاورت کے بغیر دوسروں کی مرضی تھوپنا صحیح اقدام نہیں۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے پیاروں کی زندگی کے اس اہم فیصلے کو عجلت کی نذر نہ کریں۔ خصوصا ناسمجھ بچوں کا رشتہ طے کرتے ہوئے کئی بار سوچیں۔ ایسا نہیں کہ ایسے رشتے ہمیشہ ناکام ثابت ہوئے ہیں، مگر زیادہ تر بچپن کی منگنیاں تلخ تجربات کے بعد ختم ہو جاتی ہیں یا شادی کے بعد پیچیدہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر اولاد بغاوت کرتی ہے تو پورا خاندان اسے لعن طعن کرتا ہے، والدین زور زبردستی کر کے شادی کرا بھی دیتے ہیں تو اس کے بعد نبھائو مشکل ہو جاتا ہے، جب کہ والدین کی آنکھوں پر رسم ورواج اور فرسودہ روایات کی پٹی بندھی ہوتی ہے، جس کی بنا پر وہ نادانستگی میں اپنی خوشیوں کو خود سے دور کر دیتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے رشتے کے وقت ان کی پسند و نا پسند اور معیار کا خیال رکھیں، کیوں کہ یہ سارے خوشی کے سودے ہیں، ان میں زور زبردستی کا کیا کام؟ بچوں کی شادی کے لیے ان کے مناسب عمر تک پہنچ جانے کا انتظار کریں۔ ان کی مرضی ہے تو بات آگے بڑھائیں ورنہ نہیں۔ جب زندگی ان دو فریقوں نے گزارنی ہے تو پھر ان کی مرضی کا خیال نہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ شادی کے لیے علاقہ، ذات پات، برادری یا صرف دولت کو معیار بنانے کے بہ جائے اپنے خاندان سے ہم آہنگ، ایک اچھے رکھ رکھائو اور اخلاقیات والے مخلص خاندان کو اولیت دی جائے تو بہتر ہے۔

خاندان معاشرتی اکائی ہے اور نئے رشتے ایک خاندان کی بنیاد بنتے ہیں۔ خاندان کی کام یابی کے لیے ان کا پختہ اور مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس لیے اگر رشتے ماں باپ اور اولاد کی باہمی رضا مندی سے قائم کیے جائیں تو ان سے خوشیوں کا رنگ خود بہ خود جھلکے گا۔ یہ نہ صرف ایک گھر میں سُکھ لائے گا بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی چین کا باعث ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔