نفرت کی فتح ؟ 

تنویر قیصر شاہد  پير 27 مارچ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آبادی کے اعتبار سے اُتر پردیش بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔تاریخی لحاظ سے بھی یہ بہت اہم ریاست ہے۔ لکھنؤ،جہاںاُردو مرثیہ پروان چڑھا اور جوکبھی مسلمان نوابوں کا مرکز ہُوا کرتا تھا، اِس کا صوبائی دارالحکومت ہے۔ الٰہ آباد اس کا عدالتی مرکز کہلاتا ہے۔ رانی جھانسی کا قلعہ یہیں ہے۔تاج محل کی پُرشکوہ عمارت بھی اسی ریاست میں ہے۔ علی گڑھ ایسی مسلم یونیورسٹی، جس کی بنیاد جناب سر سید نے رکھی تھی، اسی صوبے کا ایک معروف نام ہے۔

وارنسی (بنارس) کا شہر ،جسے ہندوؤں کا ’’مذہبی دارالحکومت‘‘ کہا جاتا ہے، اُترپردیش کا حصہ ہے۔ فیض آباد (جہاں مبینہ طور پر رام دیوتا کی پیدائش ہُوئی) اور گورکھپور ایسے خالصتاً ہندو شہر اسی صوبے کے جزو ہیں جن پر زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے کٹر ہندو فخر کرتے ہیں۔ اب یہ ہندو مذہبی رنگ وزیر اعلیٰ ادیتا ناتھ کی شکل میں اُترپردیش پر سیاسی اور اقتداری لحاظ سے غالب آ چکا ہے۔اسلام دشمن وزیر اعلیٰ ادیتا ناتھ اور اُن کے لاکھوں ماننے والوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو بھارت بھر کا ہروہ شہر جو مسلمان نام سے آباد ہے، اُس کا نام تبدیل کر کے ہندو شکل دے دیں گے۔

دہلی کی قدیم اور معروف شاہراہ، اورنگزیب روڈ، کا نام تو تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اب بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے مشہور علمی شہر، دیوبند، کا نیانام ’’دیوربند‘‘ رکھنے کی تجویز اُترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے۔ وہ تاج محل کا نام بھی تبدیل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ادیتا ناتھ نے اپنے حالیہ صوبائی انتخابات کی مہمات کے دوران واضح طور پر جگہ جگہ اعلان کیا تھا کہ اگر مَیں وزیر اعلیٰ بن گیا تو ہمایوں پور کا نام’’ہنومان پور‘‘ اور اسلام پور قصبے کا نام ’’ایشور پور‘‘ رکھ دوں گا۔

اب گورکھپور کے سب سے بڑے مندر کے مہنت ادیتا ناتھ ، جو ہمیشہ اپنی گود میں بندر(ہنومان) رکھ کر سرکاری کاغذات پر دستخط کرتے ہیں، زعفرانی چولا پہن کر اقتدار میں آچکے ہیںاور اُن سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق اُتر پردیش کے مسلمان نام رکھنے والے تمام شہروں کے نام تبدیل کریں۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہوگا؟

اُترپردیش ایسی بڑی ریاست ، جس کی آبادی بیس کروڑ سے زائد ہے، میں بڑے شہروں کی تعداد 65ہے۔ اِن میں مسلمان شہروں کے نام سے 16بڑے شہر آباد ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: غازی آباد، الٰہ آباد، علی گڑھ، مراد آباد،فیض آباد، مظفر نگر، شاہجہان پور،فرخ آباد، فتح گڑھ، فتح پور، مغل سرائے،غازی پور،سلطان پور،اعظم گڑھ، اکبر پوراورشکوہ آباد۔سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان، جو اُترپردیش ریاست کی کُل آبادی کا بیس فیصد ہیں، کیا یہ زیادتی برداشت کر سکیں گے؟

ایک معروف بھارتی نجی ٹی وی کے ٹاک شو’’آپ کی عدالت‘‘ میں ادیتا ناتھ اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوؤں کا حق ہے کہ ہم اقتدار میں آکر مسلمان ناموں والے بھارتی شہروں کے نام تبدیل کردیں’’کیونکہ مسلمان بادشاہوں نے بھی اقتدار کی طاقت سے ان شہروں کے ہندو نام تبدیل کرکے انھیں مسلمانی شکل دی تھی۔ اب تاریخ بدلنے کاوقت آگیا ہے۔ ‘‘

اُترپردیش کے یہ زعفرانی نئے وزیر اعلیٰ، ادیتا ناتھ، بی جے پی اور آر ایس ایس کے اُن مقتدر ہندو سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو بھارت میں اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کرنے کے حامی ہیں اور یہ بات بھی بلند لہجے میں کہتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب اختیار کر لینا چاہیے۔اس کوشش اور ’’اپیل‘‘ کو وہ ’’گھر واپسی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ادیتا ناتھ وہ آدمی ہیں جو اب تک بھارت کے اٹھارہ سو عیسائیوں کو ہندو بنا چکے ہیں۔ ایک بھارتی مسلمان پروفیسر، جن کی عمر پچاس سال ہے، کو بھی وہ ہندو بنا چکے ہیں۔

مسلمانوں سے نفرت اور دنگے کے بیوپاری اُترپردیش کے یہ نئے وزیر اعلیٰ ان مہمات کو قبول بھی کر چکے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔وہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور ایسا کہتے اور کرتے ہُوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتے، حالانکہ وہ خود کو ’’سنیاسی‘‘ بھی کہتے ہیں۔

ایک بھارتی نجی ٹی وی کے پروگرام میں جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ سنیاسی ہو کر خونریزی، تشدد اور مسلمانوں کے خلاف فساد کی بات کیوں کرتے ہیں تو اُنہوں نے تُرنت جواب یوں دیا:’’ مَیں سنیاسی ہو کر مالا بھی رکھتا ہُوں اور بھالا(خنجر)بھی۔ یہ دونوں چیزیں ہمیشہ میرے پاس ہوتی ہیں۔ مَیں مسلمان غنڈوں کو ہندوؤں سے بھتہ خوری کرنے دوں گا نہ اُنہیں اپنے شہروں کا ڈان بننے دوں گا۔‘‘ادیتا ناتھ نے زعفرانی لباس پہننے والے سیکڑوں جوگیوں کی ایک نجی فوج بھی بنا رکھی ہے۔ ان جوگیوں کے پاس ہمیشہ تیز دھار بھالے ہوتے ہیں۔

اُترپردیش کا وزیر اعلیٰ بن کر بھی ادیتا ناتھ کو اپنے اُن نفرت آگیں بیانات پر ذرا شرم محسوس نہیں ہوتی جب اُنہوں نے نے کہا تھا:’’ اگر کسی مسلمان لڑکے نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کی تو ہم 100مسلمان لڑکیوں کو اُٹھا لائیں گے۔ اگر کسی ایک بھارتی مسلمان نے کسی ہندو کا قتل کیا تو ہم قتل کا مقدمہ نہیں درج کروائیں گے بلکہ خود بدلہ لینے کے لیے ایک ہندو کے بدلے میں دس مسلمانوں کا قتل کریں گے اور یہ ہمارا حق ہے۔‘‘ وہ یہ بھی ’’فرما‘‘ چکے ہیں کہ اقتدار میں آکر  ہم اُترپردیش کی تمام مساجد میں اپنی دیوی اور دیوتاؤں کے بُت بھی رکھیں گے۔

بھارتی مسلمانوں کے خلاف ادیتا ناتھ کی اس نفرت کو بی جے پی کے صدر، امِت شاہ، کی بھرپور حمائیت بھی حاصل ہے۔ دونوں کے گٹھ جوڑ ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ حالیہ اُترپردیش(یو پی) کے انتخابات میںکسی ایک بھی مسلمان امیدوار کو بی جے پی نے اپنا پارٹی ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ اور جب اس بارے امِت شاہ سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا:’’ اُتر پردیش میں ہمیں کوئی موزوں مسلمان امیدوار ملا ہی نہیں۔‘‘ یو پی میں کسی مسلمان سیاستدان کو ٹکٹ نہ دینے اور اب یو پی میں بھاری اکثریت سے جیتنے والی بی جے پی پر تبصرہ کرتے ہُوئے ’’آل انڈیا مجلسِ مشاورت‘‘ کے سابق صدر، ظفر الاسلام خان، نے ٹھیک ہی کہا ہے :’’ بی جے پی نے یو پی میں مسلمان امیدواروں کی نفی کی ہے۔ اُنہیں نظر انداز کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے نفرت کی فتح حاصل کی ہے۔‘‘

اُتر پردیش اسمبلی میں کُل 403نشستیں ہیں۔ بی جے پی نے 312جیتی ہیں۔ جیتنے والے مسلمان امیدواروں کی تعداد24ہے۔  یو پی میںمسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اصولی طور پر100ہونی چاہیے تھی۔ 24سیٹوں کا مطلب یہ ہے کہ یو پی میں اس بار مسلمانوں کو صرف 6فیصد نمایندگی ملی ہے۔ پچھلے صوبائی انتخابات (2012ء) میں جیتنے والے مسلمان امیدواروں کی تعداد69تھی۔ اور اِس بار یو پی میں جو مسلمان جیتے ہیں، اُن میں 17سماج وادی پارٹی کے، 5 کانگریس اور 2بھوجن سماج پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ تعداد بھی نریندر مودی،امِت شاہ اور ادیتا ناتھ سے برداشت نہیں ہو رہی ہے؛ چنانچہ دو روز قبل راجیہ سبھا(بھارتی سینیٹ)میں ایک کٹر ہندو رکن، ایم رامیش، نے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہو رہاہے، ہمیں آن دی ریکارڈ بتایا جائے کہ ہر بھارتی صوبے میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔اورجب رامیش ’’صاحب‘‘ کو بتایا گیا کہ ’’بھارت کے کُل 675 ضلعوں میں 86ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد 20فیصد سے زائد اور ان 86ضلعوں میں 19ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد50فیصد سے زائد ہے‘‘ تو رامیش کے منہ سے بے اختیار نکلا:’’ اوہ، یہ تو بہت بڑھ گئے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔