پیرالائزڈ آدمی اپنے ہاتھ سے کھانے پینے کے قابل ہوگیا

عبدالریحان  جمعرات 6 اپريل 2017
حالیہ پیش رفت نے ثابت کردیا ہے کہ برسوں پہلے کی گئی پیش گوئی غلط نہ تھی۔ فوٹو : فائل

حالیہ پیش رفت نے ثابت کردیا ہے کہ برسوں پہلے کی گئی پیش گوئی غلط نہ تھی۔ فوٹو : فائل

انسانی سوچ کو پڑھنے اور اسے عملی شکل دینے والی ٹیکنالوجی پر برسوں سے تحقیق جارہی ہے۔

اس تحقیق کے نتیجے میں ایسے کئی آلات بنائے جاچکے ہیں جنھیں انسان محض اپنی سوچ کے ذریعے متحرک کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر سوچ کی لہروں کے ذریعے ویڈیو گیم کھیلنے والے ہیڈفون، جو کئی سال پہلے بنالیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں ایسے مصنوعی ہاتھ بھی تخلیق کیے جاچکے ہیں جن کی انگلیاں انسانی خواہش کے مطابق حرکت کرتی ہیں۔ یہ ہاتھ اب تک کئی معذوروں کو لگائے جاچکے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کو ابتدا ہی میں معذوروں، بالخصوص مفلوج افراد کے لیے مفید قرار دے دیا گیا تھا۔

سائنس دانوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ انسانی سوچ کو عملی شکل دینے والی ٹیکنالوجی مفلوجوں (پیرالائزڈ) کے لیے ایک نئی زندگی کی نوید ثابت ہوگی۔ حالیہ پیش رفت نے ثابت کردیا ہے کہ برسوں پہلے کی گئی پیش گوئی غلط نہ تھی۔ یہ ٹیکنالوجی اس سطح پر پہنچ گئی ہے جہاں مفلوج مریض اس کی مدد سے اپنے پاتھ پاؤں کو حرکت دینے کے قابل ہوگئے ہیں۔

آٹھ سال پہلے کی بات ہے امریکی ریاست اوہایو کا رہائشی چھپّن سالہ بل کوچیور ڈیوٹی کے بعد حسب معمول سائیکل پر گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ ایک موڑ کاٹتے ہوئے اچانک اس کی ٹکر سامنے سے آتی ہوئی کار سے ہوگئی۔ کار کی رفتار اتنی تیز تھی کہ تصادم کے بعد بل اڑتا ہوا قریبی دیوار سے جا ٹکرایا۔

اس حادثے نے بل کے اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچایا اور شانوں سے نیچے اس کا پورا جسم مفلوج ہوگیا۔ وہ انگلیوں کو جنبش تک دینے سے معذور ہوگیا تھا۔ آٹھ سال بل نے اسی بے بسی کے عالم میں گزارے۔ مگر اب وہ وھیل چیئر پر بیٹھ کر خود کھانا کھانے کے قابل ہوگیا ہے۔ وہ دنیا کا پہلا فرد ہے جو مفلوج ہونے کے بعد اپنے بازو اور ہاتھوں کو انگلیوں کو حرکت دینے کے قابل ہوا ہے۔ اس کے لیے وہ کیس ویسٹرن ریزرو یونی ورسٹی کے سائنس دانوں کا مرہون منت ہے۔

بل کوچیور کے دماغ میں ایک مائکروچپ نصب ہے جو اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو پڑھ کر انھیں اعصاب کے لیے ہدایات میں بدل دیتی ہے۔ یہ ہدایات اعصاب کو منتقل ہوتی ہیں اور ان کی مناسبت سے پھر بازو اور ہاتھ حرکت میں آتا ہے۔ سائنس دانوں نے بل کی ویڈیوز اپ لوڈ کی ہیں جن میں وہ دائیں ہاتھ سے آلو کا بھرتا کھاتا اور کافی پیتا ہوا نظر آرہا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ حرام مغز کی تباہی یا اس کے متأثر ہونے کی صورت میں دماغ سے اعصاب کو احکامات کی منتقلی کا راستہ منقطع ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ دماغ سے ہدایات حرام مغز کے ذریعے آگے جاتی ہیں۔ گویا یہ حصہ دماغ اور بقیہ جسم کے درمیان پُل کا کام دیتا ہے۔ مگر اس تیکنیک میں سائنس دانوں نے حرام مغز کی مرمت کرنے کے بجائے مائکروچپ اور کمپیوٹر پروسیسر کے ذریعے دماغ کا براہ راست رابطہ اعصاب سے جوڑ دیا۔

بعدازاں ماہرین نے motor cortex ( دماغ کا یہ حصہ بازو کی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے ) میں ننھی سی چِپ نصب کردی۔ چپ اس حصے میں پیدا ہونے والے خیالات یا سوچ کو پڑھ کر کمپیوٹر پروسیسر کو بھیج دیتی ہے، جہاں یہ خیالات ڈی کوڈ ہوتے ہیں، اور پھر شانے، بازو کی مچھلی اور کلائی کے عضلات میں امپلانٹ کیے گئے برقیروں یا الیکٹروڈ کو منتقل کردیے جاتے ہیں۔ یہ عضلات مل کر منتقل شدہ ہدایات کے مطابق بازو کو حرکت میں لے آتے ہیں۔ بازو کو حرکت میں لانے کے لیے بل کو مہینوں تک باقاعدہ مشق کروائی گئی تھی۔

ابتدا میں اسے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بہ تدریج وہ سوچ کے ذریعے بازو کو متحرک کرنے میں ماہر ہوگیا۔ اب وہ انگلیوں، انگوٹھے، کہنی کو انفرادی طور پر حرکت دینے کے علاوہ پورے بازو کو بہ یک وقت حرکت میں لاسکتا ہے تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے اس کامیابی سے مفلوجوں کے علاج کی امید پیدا ہوگئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔