سیاسی اور مذہبی عدم برداشت کیوں؟

رئیس فاطمہ  اتوار 9 اپريل 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج ہمارا پاکستانی معاشرہ اس مصرعے کی منہ بولتی تصویر ہے:

زباں بگڑی‘ سو بگڑی تھی‘ خبر لیجے دہن بگڑا

یونیورسٹی سے اسمبلی تک ہر طرف مذہبی اور سیاسی عدم توازن اور عدم برداشت کا پھیلاؤ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کون لوگ ہیں جو مذہبی، سیاسی اور سماجی افراتفری پھیلاکر پاکستان کو ہر لحاظ سے کمزورکرنا چاہتے ہیں؟ نیز یہ بھی کہ معاشرے میں مذہبی اورسیاسی توازن کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے؟

سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گی کہ اس صورتحال کے ذمے دار ہمارے سیاستدان، لیڈر اورمذہبی جماعتوں کے سربراہوں کے علاوہ علمائے کرام بھی ہیں جنھوں نے ہمیں ایک قوم نہیں بننے دیا، ہمیں مختلف خانوں میں بانٹ دیا، زبانیں، ثقافت اورکلچر کی بنیاد پر دکانیں سجا لی گئی ہیں، لسانی تعصب وہ زہریلے سانپ ہیں جو علاقائی زہریلی زبانیں نکالے پھنکار رہے ہیں۔ اسی زہر نے پہلے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے بنگلہ دیش بنایا اور اب بچے کچھے پاکستان کو مزید ٹکڑوں اور عصبیت میں تقسیم کرکے اقتدارکی من پسند دیگ پکانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ کہیں پلّہ مچھلی کی دیگ پکانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، تو کہیں لسّی اور پائے کی تیاریاں ہیں، کہیں سجی اور دم پخت پلاؤ کی تیاری ہو رہی ہے۔ مقصد سب دیگوں کا ایک ہی ہے۔

رویوں میں تشدد اور عدم برداشت کیوں اور کیسے بڑھ رہا ہے؟ 1970ء تک یہ وبا اتنی عام نہیں تھی۔ لوگ ایک دوسرے کی بات کو توجہ سے سنتے تھے، اختلاف بھی کرتے تھے لیکن ایک دوسرے کے گریبانوں پہ ہاتھ نہیں ڈالتے تھے۔ مذہبی جلسوں پہ فائرنگ نہیں کرتے تھے، بم بلاسٹ نہیں کرتے تھے، خودکش بمبار پیدا نہیں کرتے تھے، سیاستدان مخالفین کے جلسوں میں سانپ نہیں چھڑواتے تھے۔ غنڈوں اور بدمعاشوں کے ذریعے جلسوں میں افراتفری پیدا نہیں کرواتے تھے، نامی گرامی بدمعاش سیاستدانوں کے ذاتی ملازم نہیں ہوتے تھے، ایک دوسرے کی بہو بیٹیوں کو اغوا نہیں کرواتے تھے، خواتین کی عزتیں لوٹنے والے اسمبلی کے ممبر نہیں بنتے تھے، ٹی وی چینلوں پہ ایک دوسرے کو مغلظات نہیں بکتے تھے۔

آج یونیورسٹی سے لے کر اسمبلیوں تک گالم گلوچ، مارپیٹ، سیاسی اور مذہبی عدم برداشت عام ہے۔ جو جتنی زیادہ بدزبانی کرتا ہے اتنا ہی پارٹی لیڈر کی نگاہوں میں عزت اور دولت پاتا ہے۔ بدمعاشی اور بدکرداری پر شاباش دی جاتی ہے۔ ’’ہاتھ ہولا‘‘ رکھا جاتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’انسان اپنی زبان میں چھپا ہے‘‘ تھری پیس سوٹ، ٹائی کالر کسی کا شجرۂ نسب نہیں بناتے بلکہ زبان سے نکالا ہوا ایک لفظ اور بات کرنے کا انداز خاندانی پس منظر کھول کر رکھ دیتا ہے۔ یہ خاندانی پس منظر کیا ہے؟ خاندانی وراثت کیا ہے؟ دولت سے خاندانی شرافت خریدی نہیں جاتی۔ یہ تو جینز میں شامل ہوتی ہے جسے سادہ زبان میں ’’حسب نسب‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ وراثت میں ملتی ہے لیکن آج حسب نسب صرف دولت سے ناپا جاتا ہے۔

ذرا غورکیجیے اور تقسیم سے پہلے کے برصغیرکا تصور کیجیے تو بات واضح ہوتی ہے کہ ایک آزاد ریاست کے حصول کے لیے کسی ایک مسلک یا ایک زبان بولنے والوں نے جدوجہد نہیں کی تھی۔ انگریز سے غلامی کی جنگ ہندو، مسلم اور سکھوں نے مل کر لڑی تھی۔ پاکستان کے حصول کے لیے بلاامتیاز زبان اور صوبہ سب نے جدوجہد کی تھی لیکن ایک سازش کے تحت بہت جلد بنگالیوں کو الگ کر دیا گیا۔ اب یہ یحییٰ کا پاکستان ہے، محمدعلی جناح کا نہیں۔ بات ذرا کڑوی ہے لیکن سچی ہے کہ مختلف مسلکوں اور مذہب کی دیگیں بھرپورطریقے سے پک رہی ہیں۔ کارندے خوب آگ دہکا رہے ہیں، جتنی زیادہ آگ بھڑک رہی ہے، اتنا ہی مال کارندوں کی جیبوں میں جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مذہبی منافرت اور سیاسی عدم برداشت کوکس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ میرے پاس اس کا صرف ایک جواب ہے وہ یہ کہ ہم قومی سطح پر خود کو صرف پاکستانی سمجھیں کچھ اور بعد میں۔ جس دن ہمارے علمائے کرام اور سیاستدان نفرت اور تعصب کی سیاست کو ایک طرف رکھ کر صرف پاکستانی کی حیثیت سے اپنی پہچان کروائیں گے، وہ دن پاکستانی سیاست کا سنہرا دن ہوگا۔

مجھے کہنے دیجیے کہ نفرت اور تعصب کے ذمے دار صرف لیڈر اور علمائے کرام ہیں۔ جس دن یہ مذہبی منافرت کا چولا اتار پھینکیں گے اس دن امن وشانتی کی فاختہ کی آواز عوام تک ضرور پہنچ جائے گی۔ جس دن ہم نے خود کو زبانوں اور صوبوں کی عصبیت سے آزاد کرلیا اس دن نفرت اور عداوت خودبخود ختم ہوجائے گی لیکن پاکستان میں جن قوتوں کی حکمرانی ہے، وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ یہاں کبھی امن قائم ہو۔ دنیا بھرکے دہشتگردوں کی پناہ گاہ کے طور پر پہچانے جانے والے ملک میں امن کی تمنا رکھنا میرے نزدیک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں دہشتگردی کا راج ہمیشہ رہے گا۔

ایران، افغانستان اور سعودی عرب کی جنگ کا میدان سجا ہے۔ پورے ملک سے جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ کراچی بن چکا ہے۔ اب یہ سلسلہ کراچی سے نکل کر اسلام آباد اور لاہور تک پہنچ چکا ہے۔ زبانی کلامی دعوؤں سے نہ امن قائم ہوگا نہ مذہبی اور سیاسی رواداری کیونکہ نفرت کا پنڈورا بکس اقتدار کی کرسی دلواتا ہے۔ علمائے کرام کبھی محبت کا درس دیتے تھے تو لوگ نہ صرف ان کی بات مانتے تھے بلکہ عزت بھی کرتے تھے لیکن اب معاملہ الٹ ہے۔

جمعہ کے خطبوں سے لے کر عام مجالس تک صرف نفرتوں کا پرچار ہے۔ مذہبی عدم برداشت زوروں پر ہے۔ دیکھئے آیندہ کا منظر نامہ کیا ہوتا ہے؟ بنگلہ دیش کے بعد اب کتنے دیش بنیں گے؟ کون جانے۔ کاش علمائے کرام اور لیڈر، محبت اور پیار کی اہمیت کو سمجھ سکتے لیکن اب ایسا ہونا ممکن نہیں۔ شاید کوئی طوفان نوح دوبارہ آئے اور نفرت کے مگرمچھوں کو نیست و نابود کردے۔ (آمین)

قارئین! میری صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ 12 مارچ سے سخت بیمار ہوں۔ کئی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے چکر لگ چکے ہیں، مگر بات وہیں کی وہیں ہے۔ ہوسکتا ہے اگلا کالم نہ لکھ سکوں، طبیعت زیادہ خراب ہے۔ بہتری کی طرف نہیں جا رہی۔ دعاؤں کی طالب ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔