دکھ کے بدصورت لمحے

شبنم گل  جمعـء 21 اپريل 2017
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

بہار جلدی گزر جاتی ہے، مگر اداسیوں کے موسم ٹھہر جاتے ہیں۔ کسک مستقل انسانی احساس کا تعاقب کرتی ہے۔ کیونکہ منظر تیزی سے بدل جاتے ہیں، پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ جو لمحے گزر جاتے ہیں بلانے پر بھی واپس نہیں لوٹتے۔ عجیب سی بے ثباتی ہے اس زندگی میں مگر پھر بھی لوگ زندگی کی چاہ میں موت کو بھول جاتے ہیں۔ جانے والے چلے جاتے ہیں، ان کی فقط یادیں رہ جاتی ہیں۔ انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ جلدی فسانہ بن جاتا ہے۔

چند نشانیاں رہ جاتی ہیں۔

جیسے اگر میں یاد کروں تو میرے پاس بابا کا چشمہ، چند کتابیں اور میرے نام لکھا ایک خط رہ گیا ہے۔ اور ماں کا مامتا کی خوشبو سے مہکتا دوپٹہ۔

ماں باپ کے کمرے میں آج بھی ان کی سانسوں کی مہک باقی ہے۔

میں اکثر ان کہے دکھوں کے بارے میں سوچتی ہوں۔ وہ دکھ جو آپ کے ذہن میں بھی کہیں کسک کی صورت سانس لے رہے ہیں۔ کسی نہ کسی گمشدہ احساس کی صورت۔ یہ دکھ شاید ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ہمیں ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ ورنہ خوشیوں میں تو انسان اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ خوشیاں، خود فراموشی میں مبتلا کرجاتی ہیں جبکہ دکھ، انسان کے وجود کو دریافت کرنے آتے ہیں۔

دکھ بھی عجیب ہیں۔ یہ فقط انسانوں کی میراث نہیں۔ اس خالی کمرے کا دکھ جسے مکین ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا ہو۔ اس سامان کی بے بسی جو مانوس لمس سے محروم رہ گیا ہو ہمیشہ کے لیے۔ وہ راستہ جو ہزار قدموں کے بعد بھی سناٹے میں ڈوبا رہتا ہے۔ جس پر مانوس قدموں کی آہٹ اب نہیں گونجے گی کبھی۔

وہ لباس جو ماؤں کی دل کی ڈھارس بن جاتا ہے۔ جب ان کے لال زندگی کی دہلیز پار کر جاتے ہیں۔ آنکھیں جن میں اب انتظار کے ستارے بجھ گئے ہیں ہمیشہ کے لیے۔

جو پل گزر گئے، انسانی احساس انھیں ڈھونڈتا ہے۔ میں بھی بے ثباتی کے دکھ بھرے احساس میں گھر گئی ہوں۔ ہونے پر نا ہونے کا گمان ہونے لگا ہے۔ مشال کی المناک موت نے میرے دل کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے زیادہ صدمہ دور کی بے حسی کا ہے۔ انسانیت سے اعتبار اٹھنے کا عجیب ملال سا ہے۔ جیسے انسان خود کو اپنی زمین پر اجنبی محسوس کرنے لگے۔ اس قدر کہ زمین بھی تڑپ اٹھے اور اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے لگے۔

اکثر چہروں کو دیکھتی ہوں وہ مشینی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کے لفظوں سے جذبے کی روح غائب ہوچکی ہے۔

دکھ کا گہرا بھنور ہے اور احساس مستقل اس میں ڈوب رہا ہے۔ یہ بھنور دن بہ دن گہرا ہو رہا ہے۔اور غم کا دائرہ ہے کہ باہر نکلنے کا راستہ نہیں دیتا۔ یہ دکھ اجتماعی احساس سے جڑا ہے۔

یہ مشال کے اندر کا عکس ہے۔ ایملی زولا کے یہ الفاظ اس پر کس قدر سجتے ہیں ’’میں نے ہمیشہ سچ اور انصاف کا ساتھ دیا۔ میری صرف ایک ہی آرزو ہے اور خواہش ہے کہ جو لوگ اندھیرے میں ہیں انھیں روشنی میں لایا جائے۔ جو دکھ میں سانس لے رہے ہیں انھیں خوشی عطا کی جائے۔ یہ میری روح کی آواز ہے، اگر یہ جرم ہے تو دن کی روشنی میں مجھ پر مقدمہ چلایا جائے‘‘۔

زندگی خوبصورت ہے۔ جو اس کے حسن کو محسوس کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی زندگی کا حسین چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ مساوات، انسانی حقوق کی بحالی اور بھائی چارے کی فضا کا پرچار کرتے صوفی شاہ عنایت شہید کی ہڈیوں کے چٹخنے کی بازگشت، سقراط کے زہر کے پیالے کا سرور اور مشال کی ٹوٹی انگلیوں کے سوز کا ربط بھی عجیب ہی ہے۔

بے پناہ دکھ اور ندامت کی بے حسن کیفیت میں اس کے روشن چہرے کو اپنی یہ نظم منسوب کر رہی ہوں۔
خوابوں کی گمشدہ تعبیر کے پیچھے سرگرداں
سراب کے درمیان بھٹکتے ہوئے اگر
مرجاؤں بیچ راہ میں تو اے دوست!
میری قبر پر یوکلپٹس کا درخت ضرور لگانا
جس کے قد جتنے اونچے میرے خواب، میرے
آدرش ہیں
جس نے ہواؤں کے سروں پر کئی بار آگہی کے غم کو لوری دے کر سلایا ہے
بہار کی کسی شام جب درخت کی شاخ پر
کوئل گیت گنگنائے گی تو اس کی آواز میں
خوشگوار مستقبل کی پیشگوئی کسی بہار بھرے
من کی تاروں کو چھو لے گی
کسی کی ویران آنکھوں میں روشن کرنوں جیسے
خواب سجائے گی
تو میری روح دور بہت دور
کپاس کے پھولوں جیسے نرم اور ریشمی بادلوں کا ہاتھ پکڑ کر،
خوشیوں کے افق کو چھو لے گی،
کیونکہ کوئل کی کوک کا اثر
خوابوں کی پری کے ہاتھ میں تھمی
جادو کی چھڑی کا سا ہوتا ہے،
جو دکھ کے بدصورت لمحوں کو چھو کر
سکھ کی چاندی میں بدل دیتی ہے
میری قبر کے کتبے پر یہ عبارت ضرور لکھنا
یہاں وہ دل دفن ہے
جس میں جذبوں کے گلاب کھلتے تھے
جنھیں فرعونیت کی ٹھوکروں نے کچل ڈالا
یہاں وہ آنکھیں دفن ہیں
جن کی جنبش میں روز ازل کے اسرار،
ان کہے دکھ اور نئے انکشاف پنہاں تھے
مگر جنھیں جبر نے بے رحمی کا کراس بناکر
ہمیشہ کے لیے بند کردیا
یہاں وہ ہاتھ دفن ہیں جن کی حرکت سے
لفظوں کا سنگ مر مر
احساس کی چاندنی میں جھلملا اٹھتا تھا
پر جن کی ریکھاؤں میں مقدر کی روشنی نہ تھی
پھر بھی وہ وجود کی بقا کی خاطر لڑنے والے
پسماندہ طبقوں، مایوسی و اندیشوں کے آسیب
میں لپٹے گھروں کے لیے روشن دعائیں مانگا کرتے تھے
میری قبر پر ایک دیپ ضرور جلانا
یقین ہے کہ جس کی روشنی زندہ اور متحرک دنیا
کے اجالے سے کہیں بہتر ہوگی جو سدا
باطن کی سیاہی میں ماند پڑ جاتی ہے
جب آسمان پر چمکتے مدھم ستارے منزل کا پتا
دینے کی خاطر اجڑے اور بھٹکتے قافلوں کی
رہنمائی نہ کرپائیں گے تو شاید
دیے کی وہ لو گمشدہ منزل کے مل جانے کا
استعارہ بن جائے
اور خواہشوں کی بنجر زمین میں
بھٹکتا ہوا کوئی تنہا مسافر
اس سے پہلے کہ آنکھوں کے ستارے بجھ جائیں
جذبوں کے پھول مرجھا جائیں
اور انتظار کے تمام تر راستے
ناامیدی کی دھول میں مٹ جائیں
مگر وہ لافانی احساس کی روشنی میں
اپنی کھوئی ہوئی منزل کا نشان پالے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔