تفہیم اور خواہش

رفیع اللہ میاں  اتوار 23 اپريل 2017

صدق و امانت جیسی اقدار کی ہمارے آئین میں موجودی، ان اقدار کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اہم یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم کے خلاف کیا فیصلہ آیا ہے، اہم یہ ہے کہ کن اقدار کے حوالے سے اسے جانچا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ان اقدار کی عملی حیثیت کیا ہے؟

صداقت کی قدر ہمارے لیے ایک اضافی (Relative) نوعیت کی قدر ہے۔ ہر سیاسی و مذہبی گروہ کی صداقت دوسرے کی صداقت کے متضاد ہے۔ ’’سچ وہ ہے جو میں کہہ رہا ہوں‘‘ جیسا جنونی مقولہ معاشرے کی جڑوں تک میں کارفرما ہے۔ یہ اس ٹھوس مقولے ’’سچ وہ ہے جو میں سمجھ رہا ہوں‘‘ کی بھی کم ترین سطح ہے۔ جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سمجھ اور فہم کے دائرے سے باہر رہ کر کہا جاتا ہے۔ ’کہے جانے‘ کی ایک اندھی دوڑ لگی ہے۔

معزز عدالتیں بھی فیصلے محض ’کہہ‘ دیتی ہیں۔ ’صادق‘ اور ’امین‘ ان کے لیے بھی دو ایسے الفاظ ہیں جو بے کار آئین میں مزید بے کار حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیا ان دو مقولوں کا فہم حاصل کرنے کے بعد عدالتیں ویسی رہ سکتی ہیں جیسا کہ وہ ابھی ہیں؟

عدلیہ اور انتظامیہ دو ایسے اعلیٰ ادارے ہیں جن کا وجود ہی ان دو اقدار پر استوار ہوتا ہے۔ انصاف ایک الگ قدر ہے لیکن صداقت کا ساتھ دیے بغیر انصاف کا وجود برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح امانت ایک اہم ترین اخلاقی ذمے داری ہے۔ اگر آپ کو انصاف کی فراہمی کی امانت/ ذمے داری سونپی گئی ہے تو صداقت کا ساتھ دیے بغیر آپ اس ذمے داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ ملک کا انتظام چلانے کی ذمے داری بھی اتنی ہی اہم ہے‘ عملاً دیکھیں تو یہ ذمے داری ’اقتدار‘ کہلاتی ہے۔ یعنی امانت کی قدر کی عملاً اس حد تک قلب ماہیت کی جاچکی ہے کہ اصل قدر کا وجود ہی مٹ چکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے الگ اور مختلف لیکن اندرونی طور پر بہت زیادہ منسلک ہیں۔ یہ اس سلسلے کے بہت اہم سوال ہیں: ایوانِ انصاف ’صادق و امین‘ ہے تو انتظامیہ ’جھوٹ اور خیانت‘ پر کیسے قائم ہے؟ انتظامیہ ’صادق و امین‘ ہے تو ایوان انصاف ’جھوٹی اور خائن‘ کیسے ہوسکتی ہے؟ صادق اور امین ایوان انصاف کسی ایسے معاشرے میں زندہ نہیں رہ سکتا جس کی بنیادی اقدار جھوٹ اور خیانت پر مبنی ہوں۔ جھوٹ کو سچ ’کہنا‘ اور خیانت کو امانت ’کہنا‘ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

جھوٹ اور خیانت کے اقتدار اور غلبے میں ’سب کچھ کہہ دینا‘ ہی ایک اہم ترین عمل رہ جاتا ہے۔ اقتدار اور غلبہ ایسی منفی قدریں جن کی موجودی میں سچ اور امانت کی قدریں سانس نہیں لے سکتیں۔ سمجھ اور فہم کے ساتھ کمزور رشتوں والا سماج کتنا کمزور اور خوف ناک ہوسکتا ہے‘ اس کی مثال کے لیے اپنے معاشرے سے باہر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوچے اور سمجھے بغیر کہہ دینا ایک عادت نہیں ہے‘ تباہی ہے‘ اس کی جڑیں عمل میں بہت گہرائی میں اترتی ہیں کیوں کہ سمجھ اور فہم سے رشتہ کم زور پڑنے کے بعد خود زندگی کی معنویت ماند پڑ جاتی ہے۔

کوئی ہوتا ہے جو سوچے سمجھے بغیر ’کہہ‘ دیتا ہے اور کوئی ہوتا ہے جو سوچے سمجھے بغیر زندگی ’تلف‘ کردیتا ہے۔ کہنے اور کرنے میں نفسیاتی طور پر زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا‘ تکرار ویسے بھی سچ اور جھوٹ کے درمیان کا فاصلہ ختم کردیتی ہے۔

ہمارا معاشرہ ٹکڑوں میں اس طرح بٹا ہوا ہے کہ لوگوں کی نفسیات میں ’انفرادیت‘ کا مقولہ عجیب سطح پر بس گیا ہے۔ ہم اگر عدلیہ کو شناخت کریں گے تو اس کے فوری عمل کی طرف دیکھیں گے۔ انتظامیہ کو شناخت کرنے کے لیے اس کے فوری اعمال کی طرف نگاہ کریں گے۔ کسی بھی سماجی و انفرادی وجود کی شناخت اس کے فوری عمل سے نہیں کی جاسکتی۔ ایک وجود کو دوسرے سے کاٹ کر دیکھنے سے ایک فوری اور غیر حقیقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جسے سمجھ اور فہم کی بنیاد پر کوئی سہارا نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فوری رشتے نظر کا دھوکا ہوتے ہیں۔ فرد کی صداقت کا معیار صرف فرد کی صداقت کا معیار نہیں ‘ فرد دوسرے افراد کی صداقتوں کے معیار کے انسلاک کے ساتھ اپنا معیار پیش کرتا ہے۔ یعنی فرد کی صداقت کا معیار دیگر افراد کی صداقتوں کے معیارات کی روشنی ہی میں قابل فہم ہے۔ مثال کے طور پر فرد کی لبرل صداقت کو دوسرے فرد کی مذہبی صداقت کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر ایک صداقت دوسرے کو رد کرتی ہے تو پہلی صداقت خود رد ہوجاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ صداقتیں ایک دوسرے ہی سے جنم لیتی ہیں‘ ایک صداقت اپنی نفی کرکے دوسری صداقت کو جنم دیتا ہے۔ صداقتیں ایک دوسری کا رد باہر سے نہیں کرسکتیں بلکہ یہ اندر ہی سے اپنا رد کرتی رہتی ہیں اور تقسیم در تقسیم کا عمل جاری رہتا ہے۔ جب لبرل صداقت کا معیار صرف لبرل صداقت کا معیار سمجھ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر روایتی مابعد الطبیعاتی سوچ اپنا کام دکھارہی ہے۔

یہی مابعد الطبیعاتی اشارہ لبرل اور مذہبی صداقتوں کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مذہبی صداقت کا معیار صرف مذہبی صداقت کا معیار کیوں نہ سمجھ لیا جائے؟ یہ سوچ تاریخی عمل سے آنکھیں بند کرنے کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔ اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں مذہب خود اپنے اندر اپنے تضاد میں آکر لبرل سچائی کو جنم دیتا ہے یعنی لبرل سچائی باہر سے نہیں آتی بلکہ اندر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ سوال تو یہی ہے کہ مذہب کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟

جواب یہی ہے کہ مذہب اپنے اینٹی/ضد سے پیدا ہوتا ہے۔ لبرل سچائی کی سب سے بڑی قدر ’آزادی‘ ہے اور مذہب ’پابندی‘ سے عبارت ہے۔ یہ دونوں متضاد اقدار ایک دوسرے ہی سے جنم لیتے ہیں‘ یعنی ہر قدر ایک سطح پر آکر اپنے متضاد میں تبدیل ہوتی ہے۔ جب صرف آزادی ہوتی ہے تو یہ اپنے جوہر کی لامتناہیت سے وحشت زدہ ہوکر پابندی کو جنم دے دیتی ہے اور جب صرف پابندی ہوتی ہے تو یہ اپنے جوہر کی لامتناہیت سے وحشت زدہ ہوکر آزادی کو جنم دے دیتی ہے۔ جس طرح انسان/مخلوق کے متناہی وجود کے بغیر خدا/خالق کے لامتناہی وجود کی تفہیم ممکن نہیں ہے اسی طرح لبرل صداقت کے بغیر مذہبی صداقت کی تفہیم ممکن نہیں ہے۔

عدلیہ کی شناخت انتظامیہ کی شناخت اور خود معاشرے کی شناخت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے عدلیہ کے فیصلے صرف عدلیہ کے فیصلے نہیں ہیں یہ اجتماعیت کے آئینہ دار ہیں۔ سطحی طور پر دیکھیں گے تو یہ سوال ذہن میں اٹھے گا کہ ایک بہت بڑا طبقہ تو اسے مسترد کررہا ہے۔ گہرائی میں تجزیہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ مسترد کرنے والے عدلیہ اور اس کے فیصلے کو نہیں، دراصل خود کو مسترد کر رہے ہیں۔ نہ مسند انصاف صادق و امین ہے، نہ انتظامیہ اور نہ سماج۔ تینوں اصولی طور پر ایک ہی سطح پر ہیں تو اختلاف دراصل ذاتی یا گروہی خواہشات پر مبنی ہے۔ ہر شخص یا گروہ محض اپنی خواہش ’کہہ‘ رہا ہے‘ ابھی تک یہ اپنی خواہشات کی تفہیم بھی نہیں کرپایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔