تنہائی کا آسیب

رئیس فاطمہ  اتوار 23 اپريل 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ڈپریشن (Depression) کا ترجمہ عموماً افسردگی، مایوسی اور انتہائی بیچارگی سے کیا جاتا ہے یعنی وہ ذہنی حالت جب مریض کو خود پر اختیار نہ رہے اور اس ذہنی حالت کا اثر انسانی جسم پر اس طرح پڑے کہ اس کی بھوک پیاس غائب ہوجائے اور کسی غذا سے رغبت نہ رہے لیکن میرے خیال میں ڈپریشن کی تعریف یا ترجمہ کسی ایک لفظ میں کیا جائے تو وہ ہے ’’کرب‘‘۔

کرب ہی وہ ذہنی کیفیت ہے جب انسان کو زندگی میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی اور وہ خودکشی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ خودکشی بھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جس میں انسان ایک ہی بار زندگی کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور دوسری وہ جس میں سسک سسک کر جیتا ہے۔ یہ وہ قید تنہائی ہے جس سے آج بیشتر لوگ گزر رہے ہیں۔

چند دن قبل ایک خبر نظروں سے گزری کہ ’’صرف کراچی کے 35 فیصد شہری ڈپریشن کا شکار ہوچکے ہیں۔‘‘ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ سے انسان کی سوچ اور عمل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسان اداسی اور مایوسی کے گہرے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ جس سے بہت سے جسمانی عوارض بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔

مایوسی اور افسردگی انسان کے کام کرنے کی صلاحیت پہ منفی اثرات ڈالتی ہے۔ ڈپریشن ایک بیماری ہے جس کا علاج ممکن ہے اور یہ قابل علاج ہے۔ لیکن اس کا علاج اس وقت ممکن ہے جب مریض خود علاج کروانا چاہے۔ خاص کر جب پژمردگی، اداسی اور مایوسی بوجوہ اس حد تک بڑھ جائے کہ زندگی میں کوئی کشش محسوس نہ ہو تو اہل خانہ کو چاہیے کہ وہ کسی سائیکاٹرسٹ یا ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ لیکن ایسے لوگ جو بالکل تنہا ہیں، کوئی پرسان حال نہیں، وہ ڈپریشن کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

ان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ انھیں ڈاکٹروں کے پاس لے کر کون جائے؟ خاندانی نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ ماں باپ بڑے چاؤ سے بہو بیاہ کر لاتے ہیں، لیکن وہی بیٹے چند ہی دن میں سنگدل اور اجنبی بن جاتے ہیں، جن کے لیے والدین نے نہ جانے کتنی سختیاں جھیلی ہوتی ہیں۔ بوڑھے والدین اکیلے پڑے رب کائنات سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا انھیں چلتے ہاتھ پیروں سے اٹھالے۔ جب کوئی پانی کا گلاس پکڑانے والا نہ ہو تو زندگی کی دعا کوئی کیونکر مانگے گا؟

مایوسی، ذہنی تناؤ، افسردگی اور اندرونی کرب باقاعدہ بیماریاں ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ان کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ آپ کسی کو سائیکاٹرسٹ یا ماہر نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دیں تو وہ فوراً کہے گا ’’میں کوئی پاگل ہوں جو ماہر نفسیات کے پاس جاؤں؟‘‘ تعلیم کی کمی اور جہالت کی بڑھتی ہوئی شرح ان امراض میں اضافہ کررہی ہے۔ کم علمی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ان پڑھ اور جاہل لوگوں کو تو چھوڑیے، باقاعدہ ڈگری یافتہ لوگ برا مان جاتے ہیں، اگر آپ انھیں ذہنی بیماری کی طرف توجہ دلائیں، انسانی جسم کی بیشتر بیماریوں کا تعلق ذہن سے ہوتا ہے۔

آپ اداس ہیں تو بھوک مرجائے گی، افسردگی بستر سے لگا دے گی، لیکن اگر آپ اندر سے خوش ہیں۔ آپ کی اولاد فرمانبردار ہے، ہمدرد ہے، آپ کے پاس ہے تو آپ کو بھوک بھی لگے گی اور خوشی بھی محسوس ہوگی۔ بدقسمتی سے یہ شعور ہمارے ہاں بیدار نہیں ہوا ہے کہ ڈپریشن بھی ایک بیماری ہے۔ آپ کے دانت میں درد ہوتا ہے آپ ڈینٹسٹ کے پاس جاتے ہیں، نزلہ زکام، کھانسی، نمونیہ، شوگر اور دیگر امراض کے لیے آپ فوراً متعلقہ ڈاکٹروں کے پاس بھاگتے ہیں۔ لیکن ذہنی دباؤ اور کرب کے لیے آپ کسی ڈاکٹر، حکیم یا ہومیوپیتھ سے مشورہ نہیں کرتے۔ جب کہ دوسری بیماریوں کی بہ نسبت ڈپریشن زیادہ خطرناک یوں ہے کہ مریض کو اس کے مضر اثرات کا علم ہی نہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک رجحان یہ ہے کہ ذہنی بیماریوں کا علاج جادو ٹونا کرنے والوں سے کروایا جاتا ہے۔ جو جگہ جگہ اپنے آستانے اور دکانیں سجائے بیٹھے ہیں، جو بھی ان کے پاس آتا ہے اسے فوراً سسرالی عزیزوں سے متنفر کرتے ہیں۔ بہو آئے گی تو کہیں گے ساس، نند نے سفلی کروایا ہے۔ اور ساس نند جائیں گی تو کہیں گے کہ بہو اور اس کی ماں نے بڑا زبردست کالا علم کروایا ہے۔ احمق لوگ ان شعبدے بازوں کی باتوں میں آکر جھولیاں بھر بھر کر رقوم دیتے ہیں۔ ان کا کام صرف رشتے داروں خصوصاً ساس، نند،بہو، دیورانی، جیٹھانی، سسر اور دیگر قریبی رشتے داروں کو ایک دوسرے سے متنفر کرکے مال بنانا ہے۔

احمق اور جاہل لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ اگر ان شعبدہ بازوں کے پاس کوئی علم ہوتا تو یہ دکانیں سجا کر بے وقوف لوگوں کو لوٹنے کو کیوں بیٹھتے۔ یہ اپنا حال درست کیوں نہ کرتے؟ لیکن اتنی سمجھ لوگوں میں ہے ہی نہیں کہ نجی ٹی وی چینل بار بار ان جعلی پیروں اور کالا علم کرنے والوں کے کرتوت دکھا رہے ہیں، لیکن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ کالا علم یا سفلی کرنے والوں کو مرنے کے بعد تو عذاب سہنا ہی ہوگا۔ لیکن افسوس کہ ان خبیث جعلی اور بدفطرت لوگوں کی وجہ سے کتنے خاندان بکھر رہے ہیں۔

کم ظرف اور سنگدل لوگ بیٹے کو ماں باپ سے جدا کر رہے ہیں۔ بھائی کو بہن سے، شوہر کو بیوی سے۔ جہالت کی انتہا یہ ہے کہ مٹھی بھر بھر کے پیسے دیتے وقت وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب فراڈ ہے، دھوکا ہے۔ بڑی آسانی سے یہ ہر بار ان بہروپیوں کی ڈیمانڈ پوری کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ جن اور آسیب اتارنے کے نام پر لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات بھی کرتے ہیں۔ کچھ کے کرتوت سامنے آجاتے ہیں، کچھ چپ چاپ سہہ لیتی ہیں۔

خدارا ان بہروپیوں اور دھوکے بازوں سے بچیے۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو پہلے کسی سائیکاٹرسٹ یا ماہر نفسیات سے رجوع کیجیے اور وہ جو دوائیں دے انھیں پابندی سے کھائیے۔ ذہنی امراض اور ڈپریشن کی دوائیں طویل عرصے تک کھانی ہوتی ہیں۔ ان میں ناغہ بھی نہیں کرنا چاہیے، کچھ عرصے بعد بہتری کی صورت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب مریض خود یہ فیصلہ کرلے کہ اسے ماہر نفسیات اور سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہیے نہ کہ جعلی اور ڈھونگی پیروں اور باباؤں کے پاس جائے۔

افسوس ہوتا ہے جب اچھے خاصے مہذب اور پڑھے لکھے لوگ ان جعلی عاملوں کے چنگلوں میں پھنس کر نہ صرف پیسہ برباد کرتے ہیں بلکہ ایمان بھی خراب کرتے ہیں۔ دراصل ابھی تک ہماری سوسائٹی نے ذہنی امراض کو صرف دیوانگی اور پاگل پن سے جوڑے رکھا ہے۔ ڈپریشن اور افسردگی کا شکار صرف عمر رسیدہ افراد ہی نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں ہر عمر کے لوگ ذہنی کرب میں مبتلا ہیں۔

لوڈ شیڈنگ کا عذاب، بیروزگاری کا عفریت، غلاظت کے ڈھیر، پینے کا صاف پانی نہ ملنا، مار دھاڑ، مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت جیسے بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے انسان ڈپریشن کا شکار ہیں۔ لیکن ماہرین کے پاس علاج کے لیے جانے سے کتراتے ہیں کہ کہیں کوئی دیوانہ یا پاگل نہ کہہ دے۔ رہی سہی کسر جعلی عامل اور ڈھونگی بابا کالا علم اور جادو کا کمال دکھانے کے لیے ہمہ وقت تیار۔ ڈپریشن کو باقاعدہ ایک مرض سمجھنا چاہیے اور دوسرے امراض کی طرح اس کے علاج کے لیے بھی ماہرین نفسیات اور سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔