سندھ کے وزیر اعلیٰ توجہ فرمائیں

رئیس فاطمہ  اتوار 30 اپريل 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ولیمے کی تقریب میں گیارہ بج چکے تھے، لوگ پہلو بدل رہے تھے۔ بچے بھوک سے بے حال شادی ہال کے باہر کھڑے پاپ کارن اور فرنچ فرائز کے مزے لوٹ رہے تھے۔ ساڑھے گیارہ بجے قابوں کے ڈھکنے کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔

اب جدید تہذیب کے کلچر میں میزبان مہمانوں سے جا کر درخواست نہیں کرتے کہ چلیے اٹھیے کھانا تیار ہے۔ بلکہ یہ فریضہ اب ہال کے بیرے قابوں کے ڈھکنوں کو گھنٹیوں کے طور پر بجا کر مہمانوں کے معدوں کو سکون دیتے ہیں کہ آ جاؤ مہمانو! کھانوں کی سیل لگ گئی ہے، لُوٹو اور کھاؤ۔

کیا تھا جو ولیمے کی دعوت میں نہیں تھا، بریانی، قورمہ تو بڑی بنیادی ڈشیں ہیں، لیکن یہاں تو حلوہ پوری، بھجیا، نہاری، بگھارے بینگن اور چکن بروسٹ کے علاوہ کولڈ ڈرنکس کے ساتھ ساتھ میٹھے میں پڈنگ، کھیر، لوکی کا حلوہ اور قلفی موجود تھی۔ اتنے کھانے اور اتنے میٹھے، معدہ ہر ایک کے جسم میں ایک لیکن کھانوں کی تعداد اور اشتہا دیکھ کر بعض لوگ یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ غالبؔ نے تو غموں کی زیادتی سے گھبرا کر کہا تھا:

میری قسمت میں غم گر اتنے تھے
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

لیکن یہاں یہ حال تھا کہ جس طرح کھانے کی میزوں پہ دھاوا بولا جا رہا تھا اس میں شاید 98 فیصد کی یہی آرزو ہو گی:

دعوت میں کھانے جب اتنے تھے
معدے بھی یا ربّ کئی دیے ہوتے

بقیہ 2 فیصد میں ہمارے جیسے لوگ آتے ہیں جو دوسروں کے ہاتھوں سے کفگیر چھیننے کا گر نہیں جانتے۔ ٹیبل خالی ہونے کا انتظار کرنے تک ڈشوں کا صفایا ہو چکا ہوتا ہے۔ جو بچا کچھا حصے میں آتا ہے اسے پلیٹ میں ڈال کر جب اپنی جگہ پر واپس جاتے ہیں تو وہاں کوئی پہلوان نما بچہ یا رستم زماں کا کوئی پٹھا تھری پیس سوٹ میں جگہ پہ قبضہ جمائے بیٹھا نظر آتا ہے۔

ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق ادھر ادھر نظر دوڑا کر کہیں قسمت سے خالی کرسی مل جائے تو غنیمت ورنہ کھڑے ہو کر کھائیے۔ تجربہ کار اور پیشہ ور مہمان ایسے موقعوں پر پہلے کھانوں کے قریب لگی میزوں پہ قبضہ کرتے ہیں پھر خواتین بیٹھی رہتی ہیں، ان کے ساتھ کے مرد اور بچے پلیٹیں بھر بھر کے جمع کرتے رہتے ہیں۔ جب ٹیبل پہ گنجائش ختم ہو جاتی ہے تو کئی کئی کولڈ ڈرنک کی بوتلیں کرسیوں کے ساتھ رکھ کے انھی پہاڑ نما بریانی، بروسٹ اور قورمے کی پلیٹوں میں شروع ہو جاتے ہیں۔

’’جوع البقر‘‘ کا مطلب انھی شادی بیاہ کی محفلوں کی میزوں اور مہمانوں کے معدوں کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے۔ تھوڑی دیر میں میٹھے کی طرف یلغار ہوتی ہے، کھیر چکھنی ضروری ہے، پڈنگ بھی کھانی ہے اور قلفی بھلا کوئی چھوڑنے کی چیز ہے؟ پلیٹوں میں نکلی کھیر اور پڈنگ اپنی قسمت کو رو رہی ہوتی ہیں۔ وہیں قلفی اور آئس کریم میں مقابلے بازی شروع ہو جاتی ہے۔

اس موضوع پر پہلے بھی میں کئی مختلف کالم سالوں پہلے لکھ چکی ہوں۔ لیکن ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والی بات ہے۔ لیکن آج کا کالم بے شمار قارئین کی بہت پہلے سے آئی ہوئی فرمائشوں کے جواب میں ہی ہے۔ لکھنا تو اس پر اداریہ چاہیے تھا، لیکن ہمیں تو کہیں کسی اخبار میں کوئی مراسلہ، مضمون، اداریہ یا کالم نظر نہیں آیا۔ تب سوچا کہ طبیعت ٹھیک ہونے کا انتظار کرتے کرتے بہت دن ہو گئے، بعض قارئین نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ ان سے معذرت کہ واقعی اس موضوع پر لکھنے میں بہت دیر ہو گئی۔

دراصل سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھاتے ہی دو اعلان کیے تھے۔ پہلا یہ کہ شادی ہال رات دس بجے بند ہو جائیں گے کیونکہ ملک میں بجلی کا بحران ہے اور دوسرا یہ کہ شادی کی دعوت میں صرف ایک ڈش ہو گی اور ایک میٹھا۔ اس اعلان نے لوگوں کو خوش کر دیا۔ لیکن ہمیں اور ہمارے جیسے دوسرے لوگوں کو سو فیصد یقین تھا کہ یہ ناممکن ہے۔

اس اعلان کی وجہ ’’اندرونی‘‘ ہے۔ وہی ہوا چند دن بعد دوسرا اعلان آیا کہ اس پابندی کا اطلاق پہلی فروری سے ہو گا۔ کیونکہ لوگ ہال بک کروا چکے ہیں اور وقت لکھ چکے ہیں۔ دوسرے پکوان ہاؤس والوں کو آرڈر بھی دیے جا چکے ہیں۔ اس لیے پکوان ہاؤس اور شادی ہال کے مالکان نے مفاد کو مدنظر رکھا گیا اور اعلان واپس لے لیا گیا۔ فروری گزرے مدتیں بیت گئیں لیکن عوام کے حق میں وزیر اعلیٰ کا دوسرا اعلان نہیں آیا۔ آخر پہلا اعلان اتنی جلدی کیوں آیا تھا؟ اور فوراً ہی واپس کیوں لیا گیا؟ یہ تو یعنی بات ہوئی کہ چاند چڑھا تو کل عالم نے دیکھا۔

سوال یہ ہے کہ وقت اگر 12 بجے رات کے بجائے دس بجے رکھ دیا جاتا تو ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے سب کو معلوم ہو جاتا۔ لوگ جلدی شادی ہال پہنچ جاتے۔ جہاں تک پکوان ہاؤس والوں کے نقصان کا سوال ہے تو انھوں نے کون سی مرغیاں ذبح کر کے رکھ لی تھیں، میٹھے بنا لیے تھے جو نقصان ہوتا۔ چلیں اب تو اپریل بھی ختم ہو رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ کو اپنا وعدہ کیوں یاد نہیں رہا؟ اس لیے کہ ’’ڈیل‘‘ ہو چکی ہے۔ ٹائم بارہ بجے تک کا ہے، لیکن 70 فیصد شادی ہال دو بجے رات تک دھما چوکڑی مچاتے رہتے ہیں۔ پولیس کو الگ بھتہ دیتے ہیں اور شادی ہال کی انتظامیہ کو الگ اضافی معاوضہ۔ اس لیے اب شادی لان کے بجائے بینکوئیٹ ہال زیادہ بن رہے ہیں تا کہ باہر کی روشنیاں بجھا دو اور اندر جو چاہو کرو۔ سب کچھ ہمیشہ کی طرح پولیس اور اعلیٰ حکام کی مدد سے ہو رہا ہے۔

سفید پوش بدقسمت طبقہ جسے رشتے داریاں نبھانی  اوربچوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں،بھرم بھی قائم رکھنا ہے۔ انھیں وزیر اعلیٰ کے اعلان سے ایک گو نہ خوشی اور اطمینان حاصل ہوا تھا کہ ایک ڈش کی پابندی سے وہ آسانی سے بچوں کی شادیاں کرسکیں گی لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ اس قانون پہ عملدرآمد سے عوام کو فائدہ پہنچا لیکن جو حکومت پینے کا صاف پانی مہیا نہ کر سکے وہ کیوں ایسا قانون بنائینگے جس سے لوگوں کو سہولت حاصل ہو۔

کبھی بھی رمضان سے قبل پولیس والے ٹھیلے اور پتھارے لگانے والوں سے اپنے ماہانہ بھتوں میں اضافہ کروانے کے لیے پتھارے اٹھوا دیتے ہیں تا کہ سڑک صاف ہو جائے اور ٹریفک رواں دواں ہو لیکن دو دن بعد پتھارے دار خود اعلیٰ افسران کے پاس جا کر ان کے ماہانہ بھتوں میں اضافے کی بات مان لیتے ہیں اور بس اگلے دن پولیس بڑے اہتمام سے ٹرک میں پتھارے داروں کا سامان اور ٹھیلے واپس کر دیتی ہے۔ پتھارے دار پہلے کے مقابلے میں زیادہ جگہ گھیر لیتے ہیں۔

سوال اپنی جگہ اسی طرح موجود ہے۔ لوگ اب بھی وزیر اعلیٰ سے پوچھتے ہیں کہ انھوں نے کہیں فروری 2020ء کی بات تو نہیں کی تھی۔ جب سندھ میں شادی بیاہ میں ون ڈش کی پابندی لگا دی جائے گی اور بجلی کے بحران کی وجہ سے رات دس بجے بازار اور شادی ہال بند کر دیے جائینگے،اس وقت وزیر اعلیٰ کہاں ہونگے یہ خود انھیں معلوم ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔