ایسا کیوں؟

شبیر احمد ارمان  منگل 2 مئ 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

14سالہ شاہ نواز پاکستان کے مالیاتی مرکزکراچی کے ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہے جنھیں خیراتی ادارے کھانا فراہم کرتے ہیں، وہ روزانہ سیلانی ویلفیئر سے اپنی فیملی کے لیے دو وقت کا مفت کھانا لینے آتا ہے،کچھ عرصہ قبل وہ اس وقت اسکول کو خیرباد کہہ چکا ہے جب ملکی معشیت کمزور شرح نمو کے ساتھ ترقی کررہی تھی، وقت گزرتا رہا ، اب چرچا ہے کہ ملکی معشیت ترقی کی راہ پرگامزن ہے، لیکن شاہ نواز اوراس جیسے دیگر غریب آج بھی خیراتی کھانا کھانے پرمجبور ہیں، ایسا کیوں؟

ملک کے لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں لیکن غربت کے باعث وہ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حالات کے جبر نے انھیں وقت سے پہلے اپنے کنبے کا کفیل بنا دیا ہے،کسی کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے، کسی کے والد کی دیہاڑی اتنی نہیں کہ جس سے گھر کا نظام چل سکے،کسی کا باپ نشئی ہے، جسے اپنے گھر والوں کی کفالت سے زیادہ اپنے نشے کی لت ہے، الغرض ہر بچے کی ایک الگ اپنی کہانی ہے اورہرکہانی کے پیچھے چھپا ہے سر بستہ داستان جسے بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔

عرف عام میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ فرسودہ نظام کا شاخسانہ ہے۔ ملک کے غریبوں کی مایوسیاں ، ہچکیاں اونچے محلوں کی اونچی دیواروں سے ٹکراکر واپس خستہ حال مکانوں سے ٹکراکر ایک گونج پیدا کردیتی ہیں، لیکن کسی کو سنائی نہیں دیتے ہیں کہ جیسے سبھی نے اپنے کانوں میں روی ٹھونس رکھی ہو۔ یہ کیسی معاشی ترقی کے ثمرات ہیں کہ آج بھی 60.6 فیصد آبادی کو پکانے کے ایندھن تک رسائی نہیں،آدھے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، ایک تہائی آبادی کو بنیادی طبی سہولت تک رسائی نہیں، خیراتی کھانے کے مراکزمیں لوگوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ یہ کیسی معاشی ترقی ہے کہ غریب بھکاری بننے پرمجبور ہیں؟

ایک طرف زر مبادلہ میں اضافے کی بازگشت ہے تو دوسری طرف غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ سچ بات یہ ہے کہ ہم مصنوعی مدد پر چل رہے ہیں، اندرونی اوربیرونی قرضے اس قدر زیادہ ہیں کہ آنے والی نسلیں بھی مقروض دکھائی دیتے ہیں۔

اب سی پیک سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں لیکن اس ضمن میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بیجنگ کے 46ارب ڈالر سرمایہ کاری ہے یا قرض ؟اکنامسٹ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ قرض ہے تو مستقبل میں ملک کی غیر ملکی ادائیگیوں کی صلاحیت کو سخت متاثرکرے گا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ترقی کے ثمرات بلند سطح کی نمو ظاہرکرسکنے والے دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابل بہت وسیع ترہیں مگر امتیاز بہت ہے، بہرحال بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدرکی تنخواہ کو دیگر عالمی سربراہان کے مقابلے میں زیادہ شمارکیا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کے سربراہان کی تنخواہیں کتنی ہیں؟ غیرملکی میڈیا کے مطابق نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بطور صدرآئین کی ہدایت کی پابندی کرتے ہوئے سالانہ کم ازکم ایک ڈالر تنخواہ وصول کریں گے ۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی ماہانہ تنخواہ 32  ہزار 916 ڈالرز تھی۔

ایکسپریس غیر ملکی ویب سائٹ کے مطابق لکھتا ہے کہ اس تنخواہ کو اگر سال کے 12مہینوں سے ضرب کیا جائے تو اوباما کی سالانہ تنخواہ 3لاکھ 95 ہزار ڈالر بنتی تھی ۔ یورپ میں اقتصادی طور پر سب سے زیادہ مضبوط ملک جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں ، جس کی ماہانہ تنخواہ 20ہزار 778 امریکی ڈالرز جب کہ سالانہ تنخواہ 2لاکھ 49ہزار341ڈالرز بنتی ہے،ایک اندازے کے مطابق روسی صدرکی ماہانہ تنخواہ 11ہزار311 امریکی ڈالرز ہے جو سالانہ ایک لاکھ 35ہزار 736ڈالرز بنتی ہے۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی ماہانہ تنخواہ 17ہزار 320امریکی ڈالرز ہے، اس تنخواہ کو اگر سال کے بارہ مہینوں سے ضرب دی جائے تو یہ 2لاکھ 7ہزار 836امریکی ڈالرز بنتی ہے ، چین کے صدر شی چن پنگ کی ماہانہ تنخواہ ایک ہزار 734جب کہ سا لانہ تنخواہ 20ہزار 806 امریکی ڈالر بنتی ہے، فرانس کے صدرفرانسس اولاندے روزانہ 554،ہفتہ وار 3 ہزار890,، ماہانہ 16ہزار856ڈالرز کے حساب سے سالانہ 2لاکھ 2ہزار270امریکی ڈالرز کی تنخواہ اپنی حکومت سے وصول کرتے ہیں،کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈوکی ماہانہ تنخواہ 21ہزار 894امریکی ڈالرز ہے جو سالانہ 2لاکھ62ہزار 725امریکی ڈالرز بنتی ہے۔

اب آئیے اپنے غریب اور سر تا پا قر ضوں میں جکڑے مادر وطن پاکستان کے حکمرانوں کی تنخواہوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ منگل 25نومبر 2016ء کو وزیر اعظم نوازشریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عوامی نمایندوں اور عوامی عہدے داران کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی جس کے تحت فی وفاقی وزیرکی ماہانہ تنخواہ 2 لاکھ، وزیر مملکت کی ایک لاکھ 80ہزار، رکن پارلیمنٹ کی ڈیڑھ لاکھ روپے، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 2لاکھ 5 ہزار روپے، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی بنیادی تنخواہ ایک لاکھ 85ہزار روپے مقرر کی گئی جو یکم اکتوبر 2016ء سے لاگو ہیں۔ اس اضافے سے قومی خزانے پر سالانہ 40کروڑ روپے کا اثر پڑ رہا ہے۔

واضح رہے دیگر مراعات اورترقیاتی فنڈزکی داستان کا حساب کتاب الگ ہے جو قوم سے مخفی ہیں۔ پارلیمنٹریزکا طرز زندگی شاہانہ ہے جو انتخابات پرکروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ پاکستان ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے جس پر حکمرانی کرنے والے خوشحال خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو عوام پروری کا دعویدار ہیں، بجٹ کے مواقعے پر عوام سے کڑوی گولی نگلنے کا راگ الاپتے ہیں اور خود عوامی نمایندے کی حیثیت سے ایثاروقربانی کی مثال بننے کو تیار نہیں۔

اسی طرح اعلیٰ سرکاری افسران اور دیگرسرکاری عہدیداران کے شاہانہ رہن سہن ہیں،کرپشن کا معاملہ الگ ہے۔ دوسری طرف ملک کے پسے ہوئے عوام ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں، بیمارپڑجائیں تو علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے ، پہننے کے لیے مناسب کپڑا نہیں، سرچھپانے کے لیے اپنا مکان نہیں ہے ،کیا کسی کو یہ احساس ہے کہ نچلے درجے کے سرکاری وغیر سرکاری ملازمین، بے روزگار نوجوانوں کی زندگیاں صبح وشام کس عذاب میں گزر رہی ہیں؟

اف میرے خدایا ! ملک میں مزدورکی تنخواہ صرف 12سے15ہزار روپے ہے ، ان کا کیسے گزارا ہوتا ہے ،کیا حکمرانوں کو اس کا احساس ہے؟ غریب نہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرسکتے ہیں، نہ ان کی صحت کاخیال کرسکتے ہیں، نہ ان کی تعلیم پر توجہ دے سکتے ہیں ۔ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا اژدھا سب کچھ ہڑپ کررہا ہے اورکسی کو احساس ہی نہیں، سب کے سب سیا ست کا لوڈوکھیل رہے ہیں۔ پاکستان میں امیر اورغریب کی خلیج بڑھتی جارہی ہے، دولت و وسائل اوراقتدار پر ایلیٹ قابض ہیں، سماجی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ایک کروڑ میں صرف 25لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، یہاں غریب امرا کو دیتے ہیں ، ہمارے ہر پارلیمنٹرین کے پاس اوسطا اثاثہ جات 9 لاکھ ڈالر مالیت کے ہیں ۔پارلیمنٹ میں اکثریت زمینداروں اور جاگیرداروں کی ہے جو زرعی ٹیکس نہیں لگنے دیتے، دوسری طرف غریب اورمڈل کلاس پاکستانی جن پرانکم ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن وہ اشیائے صرف پرسیلزٹیکس کی صورت میں بھاری ٹیکس دینے پرمجبورہیںآخر ایسا کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔