’’کوفہ‘‘ سے جنوبی افریقہ تک

ایاز خان  پير 21 جنوری 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

شیخ الاسلام کو ’’کوفہ‘‘ میں کس نے بلایا تھا، یہ گتھی جلد سلجھنے والی ہے۔ اس کے اشارے تو علامہ کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی ملنا شروع ہو گئے تھے مگر تب اس کا یقین کرنا مشکل تھا۔ انھیں کس نے بلایا تھا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ’’بُلٹ پروف انقلاب‘‘ ختم ہونے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کو ہوا ہے، اگر کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے تو وہ نواز شریف ہیں۔ میرا خیال ہے نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی تو ان کی مقبولیت بڑھے گی اور وہ آیندہ الیکشن میں اور زیادہ مضبوط بن کر ابھریں گے۔ اسلام آباد جسے شیخ الاسلام ’’کوفہ‘‘ قرار دیتے رہے اس میں برپا ہونے والے ’’انقلاب‘‘ کے بعد فی الوقت یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ایک زرداری سب پہ بھاری۔‘‘ اس ’’انقلاب‘‘ کے اثرات کافی عرصے تک مرتب ہوتے رہیں گے۔ اس کی بازگشت بھی ’’خالقِ انقلاب‘‘ کی اپنے وطن واپسی تک سنائی دیتی رہے گی۔

سیاست کے میدان میں ابھی نجانے کتنے ڈرامے اور ہونے ہیں کیونکہ بقول نواز شریف مینار پاکستان میں دو بڑے جلسے ہو چکے ہیں، دیکھیں تیسرا بڑا جلسہ کون کرتا ہے؟ خار زار سیاست کو اس کے بہترین کھلاڑیوں کے حوالے کرتے ہوئے کرکٹ کے میدان کی طرف چلتے ہیں۔ وطن عزیز میں کرکٹ کے میدان اجڑے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے لیے بیرون ملک ہی جانا پڑتا ہے۔ بھارت کو بھارت میں شکست دینے والی ٹیم اب جنوبی افریقہ پہنچ چکی ہے۔ 25 جنوری سے تین روزہ پریکٹس میچ کے ساتھ اس سیریز کا آغاز ہونا ہے۔ اس کے بعد یکم فروری سے جوہانسبرگ میں شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ سے 3 ٹیسٹ، 2 ٹی ٹوئنٹی اور 5 ون ڈے میچوں کی سیریز باقاعدہ شروع ہو گی۔

قومی ٹیم کے 2010ء کے دورہ انگلینڈ کے بعد یہ پہلا بھرپور دورہ ہے جس میں تینوں طرز کی کرکٹ کھیلنے کا بھرپور موقع ملے گا۔ پاکستان کو اس دورے میں کافی مشکلات درپیش ہوں گی۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی نمبر ایک ٹیم ہے۔ وہاں کی وکٹیں بھی خاصی مشکل ہیں جن پر ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارا ریکارڈ بھی ان کے خلاف اچھا نہیں ہے۔ حال ہی میں ٹیسٹ سیریز میں پروٹیز نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کا جو حشر کیا ہے اس سے ان کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔ افریقیوں کا پیس اٹیک ویسٹ انڈیز کے عروج کے زمانے کے پیس اٹیک کی یاد دلا رہا ہے۔

وہ پیس اٹیک جس میں اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر، کلارک اور میلکم مارشل جیسے بولر شامل تھے۔ یہ ایسے بولر تھے جو دنیا کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن کو بھی تہس نہس کر دیا کرتے تھے۔ بیٹنگ میں ہاشم آملہ پکڑائی نہیں دے رہے۔ اسمتھ، کیلس اور اے بی ڈویلیئرز بھی زبردست فارم میں ہیں‘ فاف ڈوپلیسس بھی بھرپور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ جنوبی افریقہ کے پیس اٹیک میں ڈیل اسٹین، فلینڈر، مورنے مورکل مخالف بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیک کیلس ایسے آل راؤنڈر ہیں جو فارم میں ہوں تو اکیلے ہی میچ جتوا سکتے ہیں۔ فیلڈنگ جنوبی افریقہ کی ہمیشہ شاندار رہی ہے۔ ان کے اسپنر عمران طاہر اور روبن پیٹرسن بھی اچھے ہیں مگر ہمارے اسپنر ان سے کہیں زیادہ با صلاحیت ہیں۔

پاکستانی ٹیم کا جائزہ لیں تو اس کا پیس اٹیک جنوبی افریقہ سے کسی صورت کم نہیں ہے۔ عمر گل کافی تجربہ کار ہیں۔ جنید خان نے جب سے ان سوئنگر پر کنٹرول حاصل کیا ہے مخالف بیٹسمینوں کے لیے مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ زبردست فارم میں بھی ہیں۔ محمد عرفان کے پاس ٹیسٹ میچوں کا سرے سے تجربہ نہیں ہے۔ ان کے پاس اسپیڈ اور شارٹ پچ بولنگ کا زبردست ہتھیار ہے۔ وہ اس قابل ہیں کہ کسی ایک اسپیل میں مخالف بیٹنگ کا شیرازہ بکھیر سکتے ہیں۔ دنیا کے دراز قد ترین اس بولر کی فٹنس سوالیہ نشان ہے۔ وہ پورے دورے میں فٹ رہے تو ان سے کافی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ بیٹنگ لائن اپ میں مصباح الحق، اظہر علی اور اسد شفیق تین ایسے بیٹسمین ہیں جو افریقی بولنگ اٹیک کے سامنے دیوار بن سکتے ہیں۔ محمد حفیظ اور ناصر جمشید بھی باصلاحیت ہیں مگر ان دونوں میں اتنا ٹمپرامنٹ نہیں ہے۔ پاکستانی فیلڈنگ انڈیا میں کافی بہتر لگ رہی تھی۔ جنوبی افریقہ میں بھی معیاری فیلڈنگ ہوئی تو مقابلہ سخت ہو سکتا ہے۔

پاکستان نے اب تک جنوبی افریقہ سے صرف ایک ٹیسٹ سیریز جیت رکھی ہے اور وہ بھی پاکستان میں جب اس نے 2003-04ء میں فیصل آباد ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کر کے دو میچوں کی سیریز ایک صفر سے جیتی تھی۔ جنوبی افریقہ میں ابھی تک اسے کسی سیریز میں کامیابی نہیں ملی۔ 18ٹیسٹ میچوں میں سے 8 پروٹیز، 3 پاکستان نے جیتے ہیں اور 7 ڈرا ہوئے۔ پاکستان کے لیے یہ سیریز بہت سخت ثابت ہو گی لیکن ہمارے کھلاڑی جب سے اندرون ملک انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم ہوئے ہیں ان کی پرفارمنس بہت بہتر ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے وہ زیادہ سخت جان ہو چکے ہیں۔ اس وقت مجھے یہ سیریز 60/40 جنوبی افریقہ کے حق میں لگتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان کی ہار یقینی ہو گی۔ اسپن اٹیک میں محمد حفیظ اور عبد الرحمان مخالف بیٹسمینوں کو مصیبت ڈال سکتے ہیں۔ سعید اجمل کا جادو چل گیا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پھر ہمارے کھلاڑی یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی دوسرے میدان سے کوئی اچھی خبر قوم کو نہیں ملتی اس لیے پاکستانیوں کے چہروں پر خوشیاں انھیں ہی بکھیرنی ہیں۔ دورۂ افریقہ مصباح الحق اورحفیظ کی کپتانی اور کھلاڑیوں کے حوصلے کا امتحان ثابت ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔