بارسلونا میں دو دن

مہ ناز رحمن  ہفتہ 6 مئ 2017

اسپین کی حکومت کیٹالونیا اور فاؤنڈیشن برائے صحت و خاندان کی جانب سے 25 اپریل کو بارسلونا میں ہونے والے ایک روزہ سیمینار میں خصوصی مقرر کی حیثیت سے ملنے والا دعوت نامہ میرے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر ہما جمشید کے پیغامات ملنا شروع ہوئے جو بارسلونا سٹی کونسل میں کام کرچکی ہیں، وہ پاکستانی عورتوں کی تنظیم برائے ثقافتی تعلیم و سماجی تعاون کی صدر ہیں۔ وہ پاکستانی کمیونٹی کی عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے انتھک کام کر رہی ہیں۔

کیٹالونیا میں پاکستانی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ 1972 میں شروع ہوا۔ ان کی تعداد 110 تھی اور یہ سارے کے سارے مرد تھے اور ٹریول کی کاربن کی کانوں میں کام کرنے آئے تھے لیکن رہائش انھوں نے بارسلونا میں اختیار کی۔ جب انھوں نے پاکستان میں اپنے بیوی بچوں کو پیسے بھیجنا شروع کیے تو دیگر لوگوں کو بھی ان نئے مواقع کا علم ہوا اور انھوں نے یورپ آنا شروع کیا لیکن ان کی پہلی ترجیح اسپین نہیں، برطانیہ تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی نقل وطن کی کھلی پالیسی 1971 میں ختم ہوگئی اور تب اسپین نقل مکانی کے لیے بہترین ملک بن گیا کیونکہ اس کی ویزا پالیسی بہت نرم تھی۔ 1975 اور 1982 کے درمیان مزید ایک ہزار پاکستانی آئے۔ 1992 میں پانچ ہزار اور آئے کیونکہ یہاں ورک ویزا حاصل کرنا آسان تھا 2009 کی پاکستان ورکرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی تعداد19,414 ہوچکی تھی۔

مجھے جس سیمینار سے خطاب کرنا تھا، اس کا موضوع ’’پاکستانی ثقافت سے تعلق رکھنے والی عورتوں اور مقامی عورتوں کے درمیان بین الثقافتی مکالمہ اور سوچ کو فروغ دینا‘‘ تھا۔ اس سے پہلے ایسے ہی دو سیمینار شمالی افریقہ اور لاطینی امریکا کی خواتین کے لیے ہوچکے تھے۔ اس سیمینار کا مقصد پاکستانی عورتوں کو درپیش چیلنجز کو سامنے لانا اور ان کی ترقی کی راہ ہموار کرنا اور پاکستانی عورتوں کی خودمختاری کے لیے درکار قانونی تبدیلیوں اور سرکاری پالیسیوں کے بارے میں تجاویز دینا تھا۔

لاطینی امریکا، شمالی افریقہ اور پاکستانی خواتین کے مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری کیٹالونیا حکومت نے ایک این جی او ’’ایسوسی ایشن برائے خاندان و صحت‘‘ کے سونپی ہے۔ یہ ایسوسی ایشن پندرہ سال سے بار سلونا میں آنے والی تارکین وطن خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ تنظیم فیملی پلاننگ، زچگی میں مدد، صنفی تشدد کی روک تھام اور بچوں اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں قانونی اور نفسیاتی رہنمائی فراہم کرتی ہے اور تارکین وطن کی دیگر تنظیموں اور مقامی، علاقائی اور قومی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اس کے لیے سرفہرست وہ تبدیلیاں ہیں جن کے ذریعے عورتوں کی خودمختاری کو ایک حقیقی اور عملی شکل دی جاسکے۔

اس حوالے سے جو پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے، اس کا نام ہے ’’مل جل کے آگے بڑھنا‘‘۔ اس کا مقصد مختلف پس منظر رکھنے والی خواتین کے درمیان مکالمے کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرنا ہے۔ اسی لیے وہ ان ممالک میں عورتوں کے لیے کام کرنے والی کسی ایکٹوسٹ کو خصوصی مقرر کے طور پر مدعو کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ بارسلونا میں مقیم کسی پاکستانی سوشل ورکر اور ایک کیٹلان خاتون کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان خواتین کا مقصد انسانی اور جمہوری اقدار کی بنیاد پر منصفانہ اور رواداری پر مبنی سماج تشکیل دینا ہے تاکہ عورتوں کی زندگی کے ذاتی، خاندانی، تعلیمی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کو بہتر بنایا جائے۔

منتظمین کو امید تھی کہ اس سیمینار کے نتیجے میں ایسی تجاویز سامنے آئیں گی جن کے نتیجے میں پاکستان سے آنے والی خواتین کی انسانی استعداد میں اضافہ ہوگا، ان کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے گا اور وہ اس سماجی علیحدگی سے بچ جائیں گی جس کا انھیں اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ سماجی تبدیلی کے عمل میں سرگرمی سے حصہ لے پائیں گی۔ اور ایک مساوات پر مبنی منصفانہ معاشرے کے قیام میں حصہ لیں گی۔

بارسلونا میں مقیم زیادہ تر پاکستانی خاندان منڈی بہاؤالدین، رحیم یار خان اور پنجاب کے دیگر شہروں سے ہجرت کرکے گئے ہیں ان کے ہاں ابھی بھی مشترکہ خاندانی نظام اور ادلے بدلے کی شادیوں کا رواج عام ہے، گھروں میں ساسوں کا حکم چلتا ہے، اگر بہو احتجاج کرے تو اسے طلاق دے کے گھر سے نکال دیا جاتا ہے، پاکستانی عورتوں کی اکثریت مقامی زبان نہیں بول پاتی، ان کی قانونی دستاویزات بھی شوہر کے قبضے میں ہوتی ہیں، اس لیے وہ مکمل طور پر اپنے شوہروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ جب شوہر انھیں گھر سے نکال دیتا ہے تو کیٹالونیا کی حکومت انھیں شلٹرز میں جگہ فراہم کرتی ہے۔ ان خواتین کو وظیفہ بھی ملتا ہے، مقامی زبان اور زندگی گزارنے کے لیے کچھ کام بھی سکھائے جاتے ہیں۔

دوسری طرف چند اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی خواتین بھی ہیں جو اقتصادی اور سماجی شعبوں میں کام کرکے پاکستان کا نام روشن کر رہی ہے۔ بارسلونا کی مقامی حکومت اور این جی اوز کوشش کر رہی ہیں کہ ان عورتوں کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکیں۔ بہرحال فوری اور اولین مسئلہ زبان کا مسئلہ ہے۔ تارکین وطن کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے پہلے کیٹلان زبان سیکھنی پڑے گی۔ پاکستانی کمیونٹی کو نیا ملک، نئی زندگی اور نئی ثقافت کو اپنانا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے تشخص کو برقرار رکھنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ہما جمشید پاکستانی خواتین کی مدد اور رہنمائی کر رہی ہیں۔ وہ روانی سے مقامی زبان میں گفتگو کرتی ہیں اور پاکستانی خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔

فاؤنڈیشن برائے خاندان و صحت کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایلوویرا منڈیز ایک دردمند دل رکھنے والی خاتون ہیں، پاکستانی تارکین وطن خواتین کے مسائل سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ان کے ساتھ ساتھ میں کیٹیلونیا حکومت کی بھی تعریف کرنا چاہوں گی جو تارکین وطن کے لیے ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے اور خلوص دل سے ان کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے۔ مجھے اس سیمینار میں مدعو کرنا بھی ان کے خلوص کا آئینہ دار تھا۔ ان کی فرمائش پر میں نے یہ تجویز پیش کی کہ پاکستانی تارکین وطن خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کاؤنسلنگ سروسز اور قائم کی جائیں۔

ایک وکیل یا قانون دان انھیں نئی شہریت کے تقاضوں اور حقوق و فرائض سے آگاہ کرے۔ ایک ماہر سماجیات انھیں ان سماجی قدروں کے بارے میں بتائے جن پر ان کا سماج قائم ہے۔ ایک ماہر نفسیات انھیں ’’کلچرل شاک‘‘ سے نمٹنے کے لیے تیار کرے۔ ایک ڈاکٹر ان کا طبی معائنہ کرے اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں بتائے۔ اور سب سے پہلے مقامی زبان سیکھنے کے آسان اور ’’کریش‘‘ کورسز کروائے جائیں۔

بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘ یعنی روم میں وہی کرو جو رومن کرتے ہیں۔ پاکستانی مردوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اب تو پاکستان میں بھی گھریلو تشدد، کم عمری کی شادی اور ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قوانین بن چکے ہیں تو پھر آپ اسپین میں رہ کر اپنی بیویوں اور بیٹیوں پر تشدد کیسے کرسکتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر طلاق دے کے انھیں گھر سے کیسے نکال سکتے ہیں۔ آپ باہر صرف اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں جاتے بلکہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی نمایندگی بھی کرتے ہیں۔ آپ سب ہمارے سفیر ہیں۔ اس لیے اپنے ملک کا نام روشن کریں نا کہ ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنیں۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔