عمر کے ٹیلنٹ کا عمر نے ہی گلا گھونٹ دیا

سلیم خالق  منگل 23 مئ 2017
عمر نے پنجاب کی قیادت کرتے ہوئے ٹیم مینجمنٹ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

عمر نے پنجاب کی قیادت کرتے ہوئے ٹیم مینجمنٹ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

2009 کی بات ہے، یونس خان کی زیرقیادت پاکستانی ٹیم سری لنکا کے دورے پر گئی، ایک نوجوان بیٹسمین بھی اس میں شامل تھا، جب دمبولا میں اپنے دوسرے ون ڈے میں اس نے اپنے ٹیلنٹ کی جھلک دکھائی تو سب حیران رہ گئے، مرلی دھرن سمیت تمام حریف بولرز کا عمدگی سے سامنا کیا، چوکوں کے ساتھ چھکے بھی لگائے،اننگز کا اختتام 66 رنز پر ہوا، پھر جب کولمبو میں اگلا میچ کھیلا گیا تو چھٹے نمبر پر آ کر سنچری جڑ دی، اس وقت ایسا لگا کہ دنیائے کرکٹ پر ایک نیا اسٹار نمودار ہو گیا ہے، وہ نوجوان عمر اکمل تھا، بڑے بڑے پلیئرز اس کے ٹیلنٹ کے گن گانے لگے، سب کو لگا کہ اب بیٹنگ میں پاکستان کے پاس بہترین اسٹروک پلیئر آ گیا جو مسائل کم کر دے گا۔

مگر یہ سوچ غلط ثابت ہوئی، عمر اکمل کے ٹیلنٹ کا عمر اکمل نے ہی گلا گھونٹ دیا، وہ اتنا باصلاحیت بیٹسمین تھا کہ بڑے سے بڑے بولرز اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، مگر ایک کھلاڑی کو عظیم بننے کیلیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں، ڈسپلن کی پابندی بیحد ضروری ہے، مگر عمر کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا، چند میچز میں اچھی کارکردگی دکھائی تو کرکٹ کی زبان میں ان کے ’’ کالر کھڑے‘‘ ہو گئے.

2010 کے ’’مشہور زمانہ‘‘ سڈنی ٹیسٹ میں کامران اکمل نے مائیک ہسی کے تین کیچز ڈراپ کر کے انھیں سنچری بنانے کا موقع دیا اور گلوز میں گیند آنے کے باوجود ایک پلیئرکو رن آؤٹ نہیں کیا، پاکستان جیتا ہوا میچ ہار گیا، اس پرفارمنس کے بعد کوئی بے وقوف ہی انھیں اگلا میچ کھلانے کی بات کرتا، ٹیم مینجمنٹ نے ڈراپ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور سرفراز احمد کو ہنگامی طور پر بلایا گیا، ایسے میں بھائی کی محبت جاگ اٹھی، عمر اکمل نے کمر میں تکلیف کا بہانہ کر کے کھیلنے سے انکار کر دیا، بہرحال ٹیم مینجمنٹ کے سختی دکھانے پروہ کھیلے مگر یہیں سے سب جان گئے کہ یہ خود مسائل کو دعوت دینے والا انسان ہے۔

اس کے بعد بھی لاتعداد ایسے واقعات ہوئے جو میڈیا کی زینت بھی بنتے رہے، جب تک تھوڑی بہت پرفارمنس تھی وہ ٹیم میں رہے مگر جب فارم روٹھی تو ڈراپ ہونے لگے،2009 میں ڈیبیو کے بعد اب 2017 آ گیا،8 برس میں عمر اکمل اسٹار بننا تو دور کی بات ٹیم میں جگہ بھی پکی نہیں کر سکے، 116 ون ڈے میچز میں محض 3044 رنز ہی بنائے، دوسری سنچری بنانے کا موقع افغانستان کے خلاف ملا، اس سے ہمارے کرکٹ سسٹم کی کمزوری کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک کھلاڑی 8 سال سے ان اور آؤٹ ہو رہا ہے اور ہم اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ ہی نہیں کر پائے۔

عمر اکمل کو ویرات کوہلی کا اسٹائل بہت پسند ہے، وہ انھیں کاپی کرنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں،ٹیم کے گراؤنڈ سے ہوٹل آنے پر چونکہ پتا ہوتا تھا کہ میڈیا کے کیمرے موجود ہوں گے تو کانوں میں بڑا سا ہیڈ فون لگا کر سن گلاسز پہن کر وہ خود کو کوہلی جیسا اسٹار سمجھنے لگتے، مگر افسوس انھوں نے یہ نہ سوچا کہ صرف اسٹائل دکھا کر ہیرو نہیں بنا جاتا اس کیلیے پرفارم کرنا پڑتا ہے، کوہلی کا ون ڈے ڈیبیوعمر اکمل سے ایک برس قبل2008میں ہوا۔

آج دونوں کہاں کھڑے ہیں سب جانتے ہیں،کوہلی نے 179میچز میں 7755 رنز بنا دیے جس میں 27 سنچریاں اور 39 ففٹیز شامل ہیں، وہ اب بھارتی ٹیم کے کپتان بن چکے مگر افسوس عمر کی ٹیم میں جگہ تک پکی نہیں، میں یہ موازنہ اس لیے کر رہا ہوں کہ آپ پاکستان کے کسی بھی بڑے کھلاڑی سے پوچھ لیں ٹیلنٹ میں عمر اکمل، کوہلی کے ہم پلہ تھے مگر اپنی حرکتوں سے مار کھا بیٹھے، اب فٹنس مسائل بھی بڑھنے لگے ہیں، میں جب یونس خان اور مصباح الحق سے ملتا ہوں تو فٹنس دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے مگر عمراکمل نے سینئرز سے سبق نہیں سیکھا، وہ اب جس حساب سے وزن بڑھا رہے ہیں کچھ برسوں بعد ریسلنگ میں حصہ لے سکتے ہیں، انھیں فٹنس کی وجہ سے ہی ویسٹ انڈیز نہیں لے جایا گیا، مگر آفرین ہے ہمارے چیف سلیکٹر انضمام الحق پر کہ چند روز بعد اسی عمر اکمل کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کپ کی ٹیم منتخب کر رہے تھے۔

انھیں چاہیے تھا کہ بیٹسمین کو سختی سے ہدایت دیتے کہ فٹنس بہتر بناؤ پھر واپس آنا مگر ایسا نہ ہوا،عمر نے پنجاب کی قیادت کرتے ہوئے ٹیم مینجمنٹ کو ناکوں چنے چبوا دیے، جنید خان کے بارے میں لائیو ٹی وی انٹرویومیں کہہ دیا کہ ’’پتا نہیں وہ کہاں چلے گئے‘‘ بعد میں پیسر نے ویڈیو پیغام میں جواب دیا تو نیا تنازع کھڑا ہو گیا، حسب روایت کمیٹی بنی تحقیقات ہوئیں، پھر نجانے کس کی کال آئی کہ عمر اکمل نے قومی ٹیم کے معیار کی فٹنس بھی پالی اور چیمپئنز ٹرافی کیلیے انگلینڈ چلے گئے۔

’’ایکسپریس‘‘ کے رپورٹر عباس رضا نے خبر دے کر حکام کو یاد دلایا تو چند ہزار روپے میچ فیس جرمانہ کر کے معاملے پر مٹی ڈال دی گئی، اب وہاں سے اطلاعات آئی ہیں کہ کوچ مکی آرتھر و دیگر فٹنس سے مطمئن نہیں اور انھیں واپس بھیجا جا رہا ہے،ایک ٹیم جس کا2 ہفتے سے بھی کم دنوں میں بھارت سے اہم میچ ہے اسے یہی نہیں پتا کہ کون فٹ ہے کون ان فٹ، اگر خدانخواستہ ایونٹ میں نتائج اچھے نہیں رہے تو چیف سلیکٹر کو فوری طور پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عہدہ چھوڑنا ہوگا، عمر اکمل کی فٹنس سے مکمل مطمئن ہوئے بغیر انھوں نے کیسے اسے ٹور پر بھیج دیا،ان پر جو اخراجات آئے وہ رقم سلیکشن کمیٹی کی تنخواہوں سے منہا کرنی چاہیے، یہی ہماری کرکٹ کا المیہ ہے۔

ایک ایسا کھلاڑی جس کا کردار ہمیشہ مشکوک رہا اسے 35 سال کی عمر میں دوبارہ قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع دے دیا، دوسرا ان فٹ ہونے کے باوجود منتخب ہو گیا، یہ کیسی سلیکشن ہے، ذرا انضمام صاحب اس کا جواب تو دیں، عمر اکمل بے شک بہترین صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی تھے مگر انھوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری، بار بار ٹیم میں بلانے کا کوئی فائدہ نہیں، انھیں اب مستقل طور پر گھر بھیج دیں، کسی نوجوان کو موقع دینا چاہیے جو شاید ٹیم کیلیے کچھ کر جائے، بار بار پٹے ہوئے مہروں کو آزمانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، الٹا اس سے ٹیم کا ماحول خراب ہوتا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ اکمل برادرز کے ’’اعلیٰ حلقوں‘‘ سے بھی تعلقات ہیں مگر حکام کو بھی سوچ لینا چاہیے کہ اب بس بہت ہو گیا کیونکہ جب گرین شرٹس کی کارکردگی اچھی نہ رہی تو یہ بڑی شخصیات ان کی ملازمتیں بھی نہیں بچا سکیں گی،اب بھی وقت ہے ، ایسے کھلاڑی سامنے لائیں جو کارکردگی کے ساتھ ڈسپلن میں بھی اچھے ہوں،سلیکٹرز کچھ تو اپنی لاکھوں روپے کی تنخواہوں کے ساتھ انصاف کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔