آئیے، اسٹریٹ چلڈرن کو ملک کا روشن مستقبل بنائیں!

ناصر تیموری  اتوار 28 مئ 2017
اِس اسکول کی وجہ سے بہت سارے بچوں کی زندگیاں تبدیل ہوگئی ہیں۔ گلیوں میں پھرنے والے بچوں نے منشیات کا استعمال ترک کردی اور لوگوں کی جیبیں کاٹنے جیسے بُرے کام بھی چھوڑ دیئے ہیں۔

اِس اسکول کی وجہ سے بہت سارے بچوں کی زندگیاں تبدیل ہوگئی ہیں۔ گلیوں میں پھرنے والے بچوں نے منشیات کا استعمال ترک کردی اور لوگوں کی جیبیں کاٹنے جیسے بُرے کام بھی چھوڑ دیئے ہیں۔

تعلیم ہر شخص کا بنیادی حق ہے، اور یہ بنیادی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات اُٹھائے جن کی مدد سے ریاست میں بسنے والا کوئی ایک بچہ بھی اپنے اِس حق سے محروم نہ رہے۔ اگر ریاست اِس بات کا خیال نہیں رکھے گی تو پھر کوئی بھی شخص یا ادارہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے تعلیم سے محروم بچوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ اِس کی مثال نائن الیون کے چند سال بعد وطنِ عزیز میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر سے لی جاسکتی ہے کہ دشمنوں نے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے خودکش دھماکوں کے لیے ایسے لوگوں کو استعمال کیا جو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں تھے اور باآسانی دشمن کے دھوکے میں آگئے۔ 

دہشت گردی کی اِن وارداتوں کے دوران یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی کہ خود کش حملہ کرنے والوں میں نوعمر بچے بھی شامل ہیں جبکہ گلیوں میں پھرنے والے آوارہ بچے بھی اِن وارداتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ گلیوں میں آوارہ پھرنے والی نسل جب بڑی ہوگی تو ممکنہ طور پر اُن کی اکثریت جرائم پیشہ افراد کا حصہ بننے کے لئے آسانی سے مائل ہوسکتی ہے اور وہ دہشت گرد گروہوں کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں۔

اِس مسئلہ کو کراچی کی رہائشی سیدہ انفاس علی شاہ نے شدت سے محسوس کیا۔ انہوں نے گلیوں میں پھرنے والے ایسے بچوں (اسٹریٹ چلڈرن) کی دیکھ بھال کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا تاکہ گلیوں میں پھرنے اور کام کرنے والے بچے اسکول بھی آئیں۔ اسٹریٹ چلڈرن کی اصطلاح میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو سڑک پر اپنی رات گزارتے ہیں یا پھر وہ بچے ہیں جو سڑکوں پر کام کاج کرتے ہیں اور پھر رات کو واپس اپنے خاندان کے پاس چلے جاتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک ادارے پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (اسپارک) کی 2012ء کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں اور دیہی مراکز میں تقریباً 12 لاکھ اسٹریٹ چلڈرن ہیں۔ ایسے بچوں کی اکثریت 9 سال سے 15 سال پر مشتمل ہے۔

سید انفاس علی شاہ بتاتی ہیں کہ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اُنہوں نے سوچا کہ وہ گھر سے باہر نکلیں اور کچھ مثبت انداز سے بچوں کے لئے کام کریں۔ اِس طرح کے کاموں کے لئے پہلا قدم اٹھانا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ بچوں کو اسکول لانے کے لئے قائل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ بیشتر بچے یومیہ بنیادوں پر کام کرتے ہیں، اور اکثریتی جگہوں میں یہ بچے چند سو روپے کمانے کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر گالیاں سنتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ تشدد کو بھی برداشت کرتے ہیں۔

سیدہ انفاس علی شاہ نے ہمت پکڑی اور کراچی کے علاقے کلفٹن میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے سامنے بحریہ فلائی اوور کے نیچے فٹ پاتھ پر چٹائی بچھا کر کام کا آغاز کیا۔

یہ عام تاثر ہے کہ گلیوں میں پھرنے والے بچوں کو پڑھائی لکھائی سے دلچسپی نہیں ہوتی لیکن وہ اِس کے برخلاف بچوں کی دلچسپی دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ فٹ پاتھ پر قائم اسکول میں بچوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ چٹائیاں، کرسیوں اور میزوں سے تبدیل ہوگئیں۔ اپنے اِس کام کو بہتر طور پر سرانجام دینے کے لیے انہوں نے ٹیچرز، ایک گارڈ اور کچھ مددگاروں کی خدمات بھی حاصل کیں۔ بچوں کے پھٹے پرانے کپڑے، نیلے اور سفید رنگ کے یونیفارم سے تبدیل ہوئے جبکہ بچوں کو جوتے بھی مہیا کئے گئے۔

روزانہ صبح چھ بجے عبداللہ شاہ مزار کے سامنے ایک فٹ پاتھ، لال رنگ کی میزوں، کرسیوں، بچوں، اساتذہ، مائیکرو فون، بلیک بورڈز، پینسلوں اور کتابوں کے ساتھ اسکول میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب سورج ڈوبنے لگتا ہے تو بچے اور اساتذہ گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں جبکہ کرسیوں و میزوں سمیت دیگر سامان بھی واپس ٹرک میں رکھوادیا جاتا ہے اور اگلے دن پھر سارا سامان دوبارہ اُسی مقام پر واپس لایا جاتا ہے۔

نیلم کالونی کے قریب فٹ پاتھ اسکول کے اِس پروجیکٹ میں 600 بچے زیرِ تعلیم ہیں جن کی بڑی تعداد گلیوں و سڑکوں پر پھرنے والے بچوں پر مشتمل ہے جو سڑکوں پر مختلف اشیاء فروخت کرکے اور ٹریفک سگنل پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرکے روزگار کماتے ہیں۔ اسکول میں تقریباً 15 اساتذہ ہیں جو صبح 8 بجے سے دوپہر 2 بجے تک تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہتا ہے جبکہ فٹ پاتھ دن کے اوقات میں بچوں سے بھرا رہتا ہے۔ بچوں کو مائیکرو فونز کی مدد سے اِس عارضی اسکول میں سبق پڑھایا جاتا ہے۔ بچے کافی تیزی سے سیکھنے لگے ہیں۔ مستقل محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ بچے کچھ انگریزی جملے کہنے اور اردو کہانیاں پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں، جبکہ سادہ حساب کتاب بھی سیکھ گئے ہیں اور صرف دو سال کے دوران یہ انتہائی قابل ذکر پیش رفت ہے۔

قرب و جوار کی کچی بستیوں کے لوگ یا انتہائی محدود آمدن والے افراد بھی اپنے بچوں کو یہاں پڑھنے بھیجتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں بچوں کے اندر مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ بچوں کی سوچ بڑی ہورہی ہے اور ڈاکٹرز، انجینئرز سمیت دیگر پیشہ ورانہ شعبوں کی جانب اُن کی آگہی بڑھ رہی ہے۔

اِس اسکول میں ایسے ذہین ترین طالبعلم بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں جو وسائل کی عدم فراہمی کے سبب پڑھنے اور کھیل کود کی عمر میں مشکل حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر قریبی بنگلوں، عمارتوں اور دکانوں میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ پہلے عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے پاس بچے دن میں سڑکوں پر شاپنگ بیگ بیچتے تھے اور جب رات ہوجاتی تھی تو وہیں سوجاتے تھے لیکن اب وہ رات کو فارغ وقت میں اُسی فٹ پاتھ پر انگریزی اور حساب کا کام کرتے ہیں۔

اِس اسکول کی وجہ سے بہت سارے بچوں کی زندگیاں تبدیل ہوگئی ہیں۔ گلیوں میں پھرنے والے بچوں نے منشیات کا استعمال ترک کردیا ہے، یہی نہیں بلکہ انہوں نے لوگوں کی جیبیں کاٹنے جیسے بُرے کام بھی چھوڑ دیئے ہیں اور اب بہتر زندگی کے خواب کی تعبیر میں مصروف ہیں۔

گزشتہ ماہ اسٹریٹ چلڈرن کے عالمی دن فٹ پاتھ اسکول کے 400 طالب علموں نے پرفارمنگ آرٹس کا مظاہرہ کیا اور حاضرین طالب علموں نے اپنے ساتھیوں کی کارکردگی کو بھرپور انداز سے سراہا۔

سیدہ انفاس علی شاہ اِس وقت اسٹریٹ چلڈرن کی 7 شاخیں چلا رہی ہیں جن میں مجموعی طور پر 1500 بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ اِن میں تین اسکول کراچی اور چار اسکول اندرون سندھ قائم ہیں۔

اِن بچوں کو اسکول کی جانب سے یونیفارم اور جوتے مہیا کئے جانے کے ساتھ روزانہ کھانا اور 50 روپے بھی فراہم کئے جاتے ہیں، لیکن اِس حوالے سے لوگوں کی جانب سے زیادہ تعاون نہیں کیا جاتا۔ لیکن اِس کے باوجود سیدہ انفاس علی شاہ کا مکمل وقت اِن بچوں کے ساتھ گزرتا ہے، اور اِس کام میں خرچ ہونے والے وسائل کا بندوبست وہ اپنے فلاحی ادارے اوشن ویلفیئر آرگنائیزیشن کی طرف سے سرانجام دے رہی ہیں۔

اِس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ تعلیم کے ساتھ بچوں کو شعور آتا ہے۔ معاشرے کے باشعور افراد ہی ملک کو آگے لیکر چلتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں بھی اپنے ملک کو مثبت انداز سے آگے بڑھانے میں اپنے اردگرد گلیوں میں پھرنے والے بچوں کا خیال رکھنا چاہیئے اور ہمیں بھی اِس کام میں ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہیئے۔ بے شک اِس کام کے نتائج معاشرے میں فوری طور پر نظر نہیں آتے لیکن دور رس نگاہ سے دیکھیں تو اِس کام سے معاشرہ پائیدار اور مستحکم انداز سے آگے بڑھتا ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
ناصر تیموری

ناصر تیموری

بلاگر پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی ہیں۔ فی الوقت ایک نجی ادارے میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سماجی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔