- مسلح ملزمان نے سابق ڈی آئی جی کے بیٹے کی گاڑی چھین لی
- رضوان اور فخر کی شاندار بیٹنگ، پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو ہرادیا
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے 6 اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی
- نارتھ ناظم آباد میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کردیا
- کراچی ایئرپورٹ پر روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کا افتتاح،پہلی پرواز عازمین حج کو لیکر روانہ
- شمسی طوفان سے پاکستان پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے، سپارکو
- سیاسی جماعتیں آپس میں بات نہیں کریں گی تو مسائل کا حل نہیں نکلے گا، بلاول
- جرمنی میں حکومت سے کباب کو سبسیڈائز کرنے کا مطالبہ
- بچوں میں نیند کی کمی لڑکپن میں مسائل کا سبب قرار
- مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی آوازوں کے متعلق ماہرین کی تنبیہ
- دنیا بھر کی جامعات میں طلبا کا اسرائیل مخالف احتجاج؛ رفح کیمپس قائم
- رحیم یار خان ؛ شادی سے انکار پر والدین نے بیٹی کو بدترین تشدد کے بعد زندہ جلا ڈالا
- خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین منتخب
- وزیراعظم کا ہاکی ٹیم کے ہر کھلاڑی کیلئے 10،10 لاکھ روپے انعام کا اعلان
- برطانیہ؛ خاتون پولیس افسر کے قتل پر 75 سالہ پاکستانی کو عمر قید
- وزیراعظم کا آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار، ہنگامی اجلاس طلب
- جماعت اسلامی کا اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے سے انکار
- بجٹ میں سیلز اور انکم ٹیکسز چھوٹ ختم کرنے کی تجویز
- پیچیدہ بیماری اور کلام پاک کی برکت
- آزاد کشمیر میں مظاہرین کا لانگ مارچ جاری، انٹرنیٹ سروس متاثر، رینجرز طلب
ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت، وائٹ ہاؤس میں افطار ڈنر نہیں ہوگا
واشنگٹن ڈی سی: امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس سال وائٹ ہاؤس میں مسلمانوں کےلیے روایتی دعوتِ افطار نہیں ہوگی کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اب تک اس بارے میں کوئی دعوت نامہ ارسال نہیں کیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں مسلمانوں کےلیے پہلی عید ملن پارٹی کا اہتمام 1996 میں امریکی خاتونِ اوّل ہلیری کلنٹن کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1997 سے صدر کلنٹن نے وائٹ ہاؤس میں ہر سال دعوتِ افطار یا ’’افطار ڈنر‘‘ کا اہتمام کرنا شروع کیا جس کے تحت امریکا میں رہنے والے اہم اور مشہور مسلمانوں کے علاوہ مسلم ممالک کے سفیروں کو بھی سرکاری طور پر ماہِ رمضان میں افطار اور عشائیے پر مدعو کیا جاتا تھا جبکہ اس حوالے سے دعوت نامے بھی رمضان سے پہلے ہی ارسال کردیئے جاتے تھے۔
وائٹ ہاؤس میں افطار کی یہ دعوتیں بتدریج مقبول ہوتی چلی گئیں یہاں تک کہ براک اوباما کے دورِ صدارت میں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ 2016 میں براک اوباما کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ دعوتِ افطار میں 1000 سے زیادہ مسلمان شریک ہوئے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بنتے ہی 20 سال پرانی یہ روایت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس سے اب تک سرکاری افطار ڈنر کا کوئی دعوت نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
’’رائٹرز‘‘ کی ایک خبر کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کے دو اعلیٰ عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس سال وائٹ ہاؤس میں افطار ڈنر نہیں ہوگا۔ ان عہدیداروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب محکمہ خارجہ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں دعوتِ افطار کی اجازت مانگی گئی تو امریکی سیکریٹری خاجہ ریکس ٹلرسن نے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
امریکی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ہر سال دعوتِ افطار سے وہاں رہنے والے مسلمانوں میں بطورِ خاص یہ احساس موجود رہتا تھا کہ امریکا میں انہیں بھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مساوی مقام حاصل ہے۔ اس موقعے پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والے امریکی مسلمانوں کا خصوصی تذکرہ کیا جاتا اور ان کی پذیرائی بھی کی جاتی تاکہ انہیں امریکا کے اجتماعی سیاسی و سماجی دھارے میں شامل رکھا جاسکے۔
لیکن ٹرمپ کے صدر بنتے ہی وائٹ ہاؤس میں سالانہ دعوتِ رمضان کا سلسلہ اس طرح سے اچانک ختم کردینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف امریکا میں مقیم تقریباً 33 لاکھ مسلمانوں سے، بلکہ پوری دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں سے بھی فاصلہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت ہے جس کا برملا اظہار وہ اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران اور صدر بن جانے کے بعد بھی کئی مواقع پر کرتے رہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔