ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت، وائٹ ہاؤس میں افطار ڈنر نہیں ہوگا

ویب ڈیسک  ہفتہ 27 مئ 2017
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دورِ حکومت سے وائٹ ہاؤس میں سالانہ دعوتِ افطار کا سلسلہ شروع ہوا جو براک اوباما کے عہدِ صدارت میں عروج کو پہنچ گیا جس میں پچھلے سال ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شریک ہوئے لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اچانک یہ سلسلہ منقطع کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دورِ حکومت سے وائٹ ہاؤس میں سالانہ دعوتِ افطار کا سلسلہ شروع ہوا جو براک اوباما کے عہدِ صدارت میں عروج کو پہنچ گیا جس میں پچھلے سال ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شریک ہوئے لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اچانک یہ سلسلہ منقطع کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

واشنگٹن ڈی سی: امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس سال وائٹ ہاؤس میں مسلمانوں کےلیے روایتی دعوتِ افطار نہیں ہوگی کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اب تک اس بارے میں کوئی دعوت نامہ ارسال نہیں کیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں مسلمانوں کےلیے پہلی عید ملن پارٹی کا اہتمام 1996 میں امریکی خاتونِ اوّل ہلیری کلنٹن کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1997 سے صدر کلنٹن نے وائٹ ہاؤس میں ہر سال دعوتِ افطار یا ’’افطار ڈنر‘‘ کا اہتمام کرنا شروع کیا جس کے تحت امریکا میں رہنے والے اہم اور مشہور مسلمانوں کے علاوہ مسلم ممالک کے سفیروں کو بھی سرکاری طور پر ماہِ رمضان میں افطار اور عشائیے پر مدعو کیا جاتا تھا جبکہ اس حوالے سے دعوت نامے بھی رمضان سے پہلے ہی ارسال کردیئے جاتے تھے۔

وائٹ ہاؤس میں افطار کی یہ دعوتیں بتدریج مقبول ہوتی چلی گئیں یہاں تک کہ براک اوباما کے دورِ صدارت میں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ 2016 میں براک اوباما کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ دعوتِ افطار میں 1000 سے زیادہ مسلمان شریک ہوئے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بنتے ہی 20 سال پرانی یہ روایت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس سے اب تک سرکاری افطار ڈنر کا کوئی دعوت نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔

’’رائٹرز‘‘ کی ایک خبر کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کے دو اعلیٰ عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس سال وائٹ ہاؤس میں افطار ڈنر نہیں ہوگا۔ ان عہدیداروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب محکمہ خارجہ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں دعوتِ افطار کی اجازت مانگی گئی تو امریکی سیکریٹری خاجہ ریکس ٹلرسن نے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

امریکی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ہر سال دعوتِ افطار سے وہاں رہنے والے مسلمانوں میں بطورِ خاص یہ احساس موجود رہتا تھا کہ امریکا میں انہیں بھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مساوی مقام حاصل ہے۔ اس موقعے پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والے امریکی مسلمانوں کا خصوصی تذکرہ کیا جاتا اور ان کی پذیرائی بھی کی جاتی تاکہ انہیں امریکا کے اجتماعی سیاسی و سماجی دھارے میں شامل رکھا جاسکے۔

لیکن ٹرمپ کے صدر بنتے ہی وائٹ ہاؤس میں سالانہ دعوتِ رمضان کا سلسلہ اس طرح سے اچانک ختم کردینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف امریکا میں مقیم تقریباً 33 لاکھ مسلمانوں سے، بلکہ پوری دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں سے بھی فاصلہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت ہے جس کا برملا اظہار وہ اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران اور صدر بن جانے کے بعد بھی کئی مواقع پر کرتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔