بھارتی ثقافتی یلغار

ڈاکٹر یونس حسنی  اتوار 28 مئ 2017

پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا اور اس دو قومی نظریے کے عناصر ترکیبی تھے مذہب، زبان اور ثقافت۔

رہنمایان ملت کا استدلال یہ تھا کہ برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں۔ ہندو اور مسلمان۔ دونوں کے درمیان کچھ مشابہت ہو سکتی ہے مگر بعض بنیادی اختلافات ہیں جو ان کو یکجا رہنے میں حائل ہیں۔ مسلمان ایک بالکل منفرد مذہب کے حامل ہیں جس کا کوئی میل ہندو مذہب سے ممکن نہیں۔ مسلمانوں کی متفقہ اور ہر جگہ سمجھی جانے والی زبان اردو ہے جسے ہندوستان کے ہر خطے اور جداگانہ مادری زبان کا حامل مسلمان بھی اپنی زبان گردانتا ہے۔ اپنی ثقافت کو وہ بھی مسلمانوں کی اپنی ہے۔ مرد وعورت کے اختلاط سے گریز، شرم وحیا کی پاسداری اور رشتوں کا احترامی اعتراف اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

مگر ہوا یہ کہ ان واضح اختلافات نے جب اپنے آپ کو منوا لیا اور پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو خود مسلم رہنماؤں نے ان تینوں عناصر کی ارادی یا غیر ارادی طور پر وہ ریڑھ ماری کہ تقسیم کا جواز ہی ختم ہوتا نظر آنے لگا۔

مذہب کو ہتھیارکے طور پر استعمال کیا جانے لگا جب مذہبی پابندیاں آپ کی خواہشات اور تمناؤں میں آڑے آنے لگیں تو آپ نے مذہب کو ملائیت کہنا شروع کر دیا۔ اب دو قسم کے مسلمان وجود میں آ گئے۔ لبرل اور انتہا پسند۔ حالانکہ اسلام نہ لبرل ہے نہ انتہا پسند ہے، وہ صرف اسلام ہے، مگر دانش وران دہر نے روشن خیالی کے نام پر ایک لبرل اسلام ایجاد کر لیا۔ یعنی پورے کافر بھی نہیں پورے مسلماں بھی نہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ شراب  پئیں گے، رقص وسرورکی محفلیں سجائیںگے۔ عید کے موقعے پر ہر قسم کی آزادی کو روا رکھیں گے اورمسلمان بھی کہلائیں گے۔

لبرل مسلمان اور اگرکوئی ان باتوں پر ٹوک دے تو ملا، تنگ نظر اور انتہا پسند ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابھی دہشتگردی نے جڑ نہیں پکڑی تھی۔ آپ کے اسلام کی اس تقسیم نے در اصل انتہا پسند اسلام کو فروغ دیا ورنہ یہاں انتہا پسندی بنیاد پرستی کہلاتی تھی اور بنیاد پرستی کوئی بری چیز نہیں بلکہ خوبی ہے، ہر دین، ہر نظریے اور ہر عمل کو بنیاد پرستی ہی قائم رکھتی ہے۔ اسلام جب تک وابستہ شجر رہا، امید بہار رہی، کمیونزم جب اپنی بنیاد یعنی طبقاتی کشمکش پر قائم رہا زندہ رہا مگر جب اس نے سرمایہ داری سے ساجھا کیا ختم ہو رہا۔

سندھ کے گورنر محمد زبیر معقول باتیں کرتے ہیں۔ خدا جانے ماحول کا تقاضا تھا یا واقعی وہ ان نظریات کے حامل ہیں۔ پاکستان کی فلمی پالیسی سازی کے ایک اجلاس میں فرمانے لگے، قائد اعظم بھی لبرل تھے۔ انھوں نے 11 اگست47ء کی تقریر میں مسجد اور مندرکا ایک ساتھ ذکر کیا۔ اچھا تو ہم مودی جی کی زبان سے کہلواتے ہیں۔’’بابری مسجد ڈھا دو اوراس کی جگہ مندر تعمیر کر دو‘‘ تو کیا مندر اور مسجد کا نام ایک ساتھ لینے سے مودی جی لبرل ہو جائیں گے۔

اگر قائداعظم نے مسجد کی طرح مندرکا احترام کرنے کی بات کی یا دونوں جگہ عبادت کی آزادی کی بات کی تو اسلام کا مسلمہ اصول بیان کیا ہے۔ یہ نہ قائداعظم کو لبرل کہلوانے کا باعث ہے نہ یہ لبرل بدل اسلام ہے یہی در اصل اسلام ہے کہ ’’لکم دینکم ولیَ دین‘‘ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کی جان، مال، عزت آبروکی حفاظت کی جائے گی اور ان کو نہ صرف اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت ہوگی بلکہ ان عبادت گاہوں کا تحفظ مسلم حکومت کی ذمے داری ہوگی۔ یہ اسلام کا مسلمہ اصول ہے جسے قائد اعظم بیان فرما رہے تھے اس میں لبرل ازم کہاں سے در آیا۔

دوسرا عنصر اردو تھا۔ اسے ہم گزشتہ ستر سالوں سے دفن کرنا چاہ رہے ہیں مگر اس طرح جس طرح زمانۂ جاہلیت میں لڑکیاں دفن کی جاتی تھیں یعنی زندہ درگور مگر کم بخت یہ زبان اتنی جاندار ہے  ریسپیریٹرکے بغیر سانس لیتی رہتی ہے۔ لوگ اسے دفن کر کے ابھی اپنے ہاتھ کی مٹی جھاڑ رہے ہوتے ہیں کہ یہ قبر میں جی اٹھتی ہے۔ نہیں کہا جا سکتا کہ جیتی رہے گی یا مر جائے گی لیکن اس کی موت خود نظریہ پاکستان کی موت ہوگی۔ اﷲ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے۔

تیسرا عنصر ثقافت تھا۔ یہ ایک کمزور عضو تو پہلے سے تھی اور نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرتا ہے۔ اس لیے ایک ہزار سال سے زائد کی ہندوانہ محبت کے نتیجے میں پیدائش، شادی اور موت تک ہماری تمام رسوم ہندوؤں سے مستعار تھیں یا ہندوؤں کے رویوں کا مسلم ایڈیشن تھیں لیکن بعض وہ عناصر جن کا ذکر ہم نے ابتدائی سطور میں کیا۔

زندہ و پائندہ رہی تھیں اور وہی ہمیں ہندو ثقافت سے ممیزوممتازکرتی تھیں یعنی مرد و زن کے اختلاط سے گریز، شرم وحیا کی پاسداری، سترکا احساس اور رشتوں کے تقدس کا اعتراف۔ لیکن زبیر صاحب نے غضب کیا کہ لبرل کہلانے کے شوق میں اسی فلمی پالیسی سازی کے اجلاس میں فرمایا کہ میں نے پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی ریلیزکی کوشش کی اور اس کے لیے شدید جد وجہد کی یہ الگ بات ہے کہ میری کوششیں بار آور نہ ہوسکیں۔

ہم اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کی کوششیں بار آور نہ ہوسکیں۔ ہندوستانی فلموں میں جو بے حیائی اور بے شرمی رائج ہوچکی ہے وہ خود نصف صدی قبل ہندوستان میں بھی قابل اعتراض تھی۔ ہم نے اس ننگِ بدن لباس کی تشہیر چاہتے ہیں نہ اپنی نسلوں کو ان بے حیائیوں میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں جس میں بھارت اپنی نسلوں کو جھونک چکا ہے۔ ہمیں ہندوستانی فلموں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس صلاحیت بھی ہے اور اپنے معیارات بھی ہم زندگی کو اپنے مذہب وثقافت کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اس ثقافتی یلغار کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

اور یہ جو ہمارے فنکار ’’بنام فن‘‘ بھارت میں جاکرکمانا چاہتے ہیں تو کمائیں آخر ہماری بہت بڑی آبادی یورپ اور امریکا میں بھی کما ہی رہی ہے، مگر ہر شخص اس کی کوئی نہ کوئی قیمت ادا کررہا ہے جسے وہ خود خوب جانتا ہے اس لیے فن سرحدوں سے نا آشنا ہوتا ہے کہ سہارا لے کر فنی معیارات و اقدارکو رسوا نہ کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔