2 فروری… آب گاہوں کا عالمی دن

محمود عالم خالد  جمعـء 1 فروری 2013

اس امر میں اب کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی کہ انسانی سرگرمیوں اور فطرت کے امور میں مسلسل مداخلت بے جا کے نتیجے میں زمینی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جس کے سنگین اثرات کرۂ ارض کے مختلف خطوں میں نظر آرہے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک پورے سال ماحولیات سے وابستہ مختلف مسائل کے حوالے سے عالمی دنوں کا انعقاد کرتے ہیں اور کرہ ارض پر بسنے والے سات ارب انسانوں کو اس میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں ان مسائل کے بارے میں شعور و آگاہی میں اضافہ ہو اور وہ اس واحد زمینی سیارے کے مستقبل کو محفوظ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اسی تناظر میں 2 فروری کو دنیا بھر میں آب گاہوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں آب گاہوں کے انحطاط اور تنزلی پر 1960 کی دہائی سے تشویش کا اظہار کیا جانے لگا تھا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ممبر ممالک اورغیر سرکاری تنظیموں کے مابین مذاکرات کیے جانے لگے جس کے نتیجے میں 2 فروری 1971 کو ایران کے شہر رامسر میں ’’کنونشن آن ویٹ لینڈ‘‘ کا انعقاد ہوا۔ جس میں آب گاہوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک معاہدے کی منظوری دی گئی جو 1975 میں نافذ ہوا، اسی مناسبت سے آب گاہوں کا پہلا عالمی دن 2 فروری 1975 کو منایا گیا۔ اس کنونشن میں ابتدائی طور پر 138 ممالک شریک ہوئے، رامسر شہر میں منعقد ہونے کی وجہ سے اسے رامسر کنونشن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے جدید بین الحکومتی معاہدوں میں یہ سب سے پرانا معاہدہ مانا جاتا ہے۔ اب تک دنیا کے 160 ممالک اس معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں۔ پاکستان نے 1976 میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ سال 2013 میں منائے جانے والے عالمی دن کا موضوع ’’آب گاہیں اور آبی انتظام کاری‘‘ جب کہ سلوگن’’آب گاہیں پانی کو محفوظ بناتی ہیں‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس موضوع کی اہمیت اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اقوام متحدہ سال 2013 ’’آبی تعاون کا سال‘‘ کے طور پر منا رہی ہے۔

عالمی معیشت میں ماحولیاتی نظام کی حصے داری کے تعین کے لیے کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرہ ارض کا ماحولیاتی نظام سالانہ 33 کھرب امریکی ڈالر کے مساوی خدمات فراہم کرتا ہے۔ جس میں سے 4.5 کھرب ڈالر کا حصہ آب گاہوں اور اس کے ماحولیاتی نظاموں کا ہے۔ آب گاہوں کی خصوصی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کرہ ارض کے پانیوں میں پائی جانے والی 20 ہزار سے زائد مچھلیوںکی اقسام میں سے 40 فیصد تازہ پانیوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔

آب گاہوں کی اہمیت اور افادیت کتنی زیادہ ہے اور اس کے فوائد کتنے ہمہ جہت ہیں اس بارے میں ہمارے ملک میں شعور و آگاہی کا فقدان ہے۔ بظاہر بے ضرر نظر آنے والی آب گاہیں نہ صرف ہمارے ایکو سسٹم سے وابستہ ہوتی ہیں بلکہ یہ کسی بھی ملک کی مجموعی معاشی صورتحال میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ متعدد منفی عوامل سے انسانی زندگی کو محفوظ رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر زمین سے نکالے جانے والے پینے کے پانی کو معدنی اجزا فراہم کرتی ہے۔ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے خطرات میں کمی لاتی ہیں۔ موسموں کو اعتدال میں رکھنے اور بارش برسنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ہوا کے دبائو کو قابو میں رکھتی ہیں، زیر زمین پانی کی سطح کو نیچے گرنے سے بچاتی ہیں۔

پاکستان کو خدا نے جہاں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے وہاں مختلف قسم کی آب گاہیں بھی عطا کی ہیں جو شمال میں موجود گلیشیر سے لے کر جنوب میں ڈیلٹا اور سمندر کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ آب گاہیں قدرتی بھی ہیں اور انسانوں نے اس میں اپنی ضرورت اور استعمال کے مطابق ضروری تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ پاکستان میں 225 قدرتی اور مصنوعی آب گاہیں موجود ہیں۔ جو پاکستان کے کل رقبے کے تقریباً 11 فیصد پر مشتمل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 30 لاکھ افراد ان کے اطراف مستقل اور تقریباً 30 لاکھ افراد غیر مستقل رہائش پذیر ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ آب گاہیں شدید انسانی دبائو کا شکار ہیں۔ ان میں 112 بڑی آب گاہیں جن میں سے سندھ کی 30، پنجاب کی 17، بلوچستان کی 22، خیبرپختونخوا کی 20 ، شمالی علاقہ جات کی 12، آزاد کشمیر کی 10 اور وفاقی دارالحکومت کی ایک آب گاہ شامل ہے۔ ان آب گاہوں کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے ان میں پانے جانے والے جانوروں کی کئی قسمیں معدومی کے خطرات کا شکار ہیں۔ ان میں رینگنے والے جانوروں کی 6 نسلیں، پرندوں کی 9 نسلیں، مچھلیوں کی 6 نسلیں، ممالیہ کی 5 نسلیں شامل ہیں۔ پاکستان کی 19 آب گاہوں کو رامسر سائٹ کا درجہ حاصل ہے جب کہ ہمارے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت، بلتستان، سوات، کاغان، دیر اور چترال میں ایک بھی آب گاہ کو رامسر سائٹ کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ جب کہ یہاں شندور، دیوسائی اور قرمبر جیسے علاقے موجود ہیں۔

اقوام متحدہ رواں سال کو آبی تعاون کے سال کے طور پر منارہی ہے۔ اس حوالے سے آب گاہوں کے عالمی دن کا موضوع ’’آب گاہیں پانی کو محفوظ بناتی ہیں‘‘ انسان اور پانی کے گہرے تعلق کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ہم اپنے پانی کے قیمتی ذخائر یعنی دریا، جھیلوں، چشموں، ندیوںکو گٹر کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اور تمام گھریلو، صنعتی اور زرعی کوڑا کرکٹ اور فضلہ ان میں بہا رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے قیمتی آبی ذخائر کا کیا حال ہوگا۔ اس کے لیے نہ تو پیچیدہ اعدادو شمار کی ضرورت ہے اور نہ ہی بھاری بھرکم سائنسی اصلاحات کی۔ اس کی تازہ ترین مثال کئی ملین افراد کو پانی فراہم کرنے والی رامسر سائٹ کینجھر جھیل ہے جہاں بی فیڈر اور پہاڑی ندیوں کے ذریعے نوری آباد اور کوٹری کے صنعتی اداروں کا زہریلا فضلہ کینجھر جھیل میں شامل ہورہا ہے۔ 1997 کے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے قانون کے مطابق تمام صنعتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے زہریلے صنعتی پانی کو اخراج سے پہلے صاف کریں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ملک میں کام کرنے والی صنعتی یونٹوں کی اکثریت اس پر عمل نہیں کرتی۔ ایک اندازے کے مطابق ہم تقریباً 30 لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی پشتوں اور ندی نالوں میں بہا دیتے ہیں۔ جس کے باعث ہمارا قدرتی آبی ماحول تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ آج پاکستان کا شمار ان ملکوں میں کیا جاتا ہے جو پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ عالمی بینک کی جانب سے 2005-06 میں کرائے گئے ایک مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ 2040 تک پاکستان میں پانی کے 40 فیصد وسائل ختم ہوجائیں گے۔

پانی آب گاہوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ آب گاہوں اور دیگر قدرتی آبی وسائل کا تحفظ خود ہمارا تحفظ ہے۔ صاف پانی بنیادی انسانی ضرورت میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف ہماری پانی کی ضروریات کو پوری کرتی ہیں بلکہ سیکڑوں آبی اور جنگلی حیات کا مسکن بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی آب گاہیں بھیانک حد تک آلودگی کا شکار ہوچکی ہیں اور ہم فطرت کی عطا کردہ ان آب گاہوں کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔

ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم نے اپنے وسائل کا صحیح اور دانشمندانہ استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا بدترین استحصال کیا۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے پالیسی ساز ادارے ، بڑے بڑے کاروباری اور کارپوریٹ ادارے، بااثر طبقات اور سیاسی جماعتیں سمندر، دریائوں، آب گاہوں اور قدرتی ماحول کے تحفظ کے حوالے سے اپنی پیشہ ورانہ اور قومی ذمے داریوں سے عہدہ بر آ نہیں ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے فوائد اور زندگی پر پڑنے والے ان کے مثبت معاشی اثرات کے بارے میں نچلی سطح پر آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر حکمت عملیاں ترتیب دی جائیں اور ان کی بقا کے لیے ملکی ماہرین کے ساتھ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل جس میں ملک کے مختلف اسٹیک ہولڈرز، سول سوسائٹی، صحافی، وکلا، انجینئرز، ڈاکٹرز، قلم کاروں سمیت اہم لوگوں پر مشتمل کمیشن بنایاجائے جو حقیقی معنوں میں حکومت کے ساتھ مل کر پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروائے اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نئی ترامیم اور نئی قانون سازی کو یقینی بنائے۔ یہ ایک سنگین نوعیت کا انسانی مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے ان مسائل کو نچلی سطح کے افسران پر چھوڑ دیا تو اس کے سنگین اثرات ہمیں من حیث القوم بھگتنا ہوں گے، جس کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔