جادہ نسیاں۔۔۔۔ بھولتی یادیں

رفیع الزمان زبیری  اتوار 3 فروری 2013

مظہر محمود شیرانی نے جب حکیم سید محمود احمد برکاتی سے ان کے عہد کی بعض شخصیتوں پر لکھے گئے ان کے مضامین کو شایع کرنے کی اجازت مانگی تو حکیم صاحب کو کچھ تردد ہوا، کیونکہ یہ مضامین جنھیں خاکے کہنا چاہیے مختلف اوقات میں لکھے گئے تھے اور ان کو لکھتے وقت ان کی اشاعت کا کوئی خیال نہیں تھا۔ یہ ان لوگوں کے خاکے تھے جنھیں حکیم صاحب نے دیکھا تھا، بار بار دیکھا تھا، پرکھا تھا اور برتا تھا۔ بعض پہلوؤں سے انھیں بلند اور عظیم پایا تھا، ان میں شریف النفسی اور کردار کی خوبیاں، سادگی، محبت، وضع داری، پابندی آداب، خودداری، جفاکشی، ایثار اور علم دوستی کے اوصاف نمایاں تھے۔

حکیم محمود احمد کو احساس تھا کہ یہ خوبیاں اب لوگوں میں کم نظر آتی ہیں بلکہ اب تو ماحول ایسا ہے کہ ان اخلاقی بلندیوں کو پستیوں سے تعبیر کیا جانے لگا ہے، انھوں نے یہ سوچ کر نئی نسل کو ایسے لوگوں سے متعارف کراناضروری ہے شیرانی کو اپنے خاکوں کا مجموعہ شایع کرنے کی اجازت دے دی۔ اس موقعے پر ان کے قلم سے کچھ ایسے الفاط نکلے جو پیش گوئی بن گئے۔ انھوں نے ’’جادہ نسیاں‘‘میں لکھا کہ ’’جیسے جیسے ماحول بگڑتا جارہا ہے، گرتا جارہا ہے مجھے ان صاحبان اوصاف کی باتیں یاد آتی ہیں اور چونکہ موت کے قدموں کی آہٹ صاف اور واضح سنائی دینے لگی ہے، کتاب زندگی کا ورق الٹنے والا ہی ہے، میں ان یادوں کو آیندہ نسلوں تک پہنچانے کے لیے ان متفرق مضامین کو ایک مجموعے کی شکل دے رہا ہوں تاکہ میری زبان بند ہوجائے تو یہ نقوش قلم یہ فرض انجام دیتے رہیں۔‘‘

حکیم محمود احمد برکاتی ماہر طب، صاحب علم، شریف النفس انسان تھے، معاشرے کی زبوں حالی اور اخلاقی قدروں کی پامالی اور سب سے بڑھ کر انسانی جان کی حرمت کی بے قدری کی شہادت اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ خود ان کی جان اس طرح گئی۔ دہشت گردوں نے جو موجودہ بگاڑ کی پیداوار ہیں انھیں گولیاںمار کر شہید کردیا۔ حکیم محمد سعید کی شہادت کی یاد تازہ ہوگئی۔ حکیم صاحب صاحب بصیرت تھے، ماحول میں تیزی سے پھیلنے والی تاریکی انھیںبھی بہت پہلے نظر آگئی تھی، اپنی شہادت سے کچھ ہی دن پہلے حکیم محمد سعید نے اپنی صاحبزادی سے کہا تھا کہ وہ اپنی رات کی نیند کا وقت کچھ اور کم کردیں گے۔ اس پر ان کی صاحبزادی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ آپ تو پہلے ہی بہت کم سوتے ہیں، اب مزید کم کریں گے تو آپ کی صحت پر اثر پڑے گا تو حکیم سعید صاحب نے فرمایا ’’کیا کروں سعدیہ، میرے پاس اب وقت بہت کم ہے۔‘‘ انھوں نے بھی موت کے قدموں کی چاپ سن لی تھی۔

حکیم محمود احمد برکاتی نے اپنے خاکوں میں جن شخصیات کی تصویر کشی کی ہے ان میں ایک مولانا عبدالرحمن چشتی تھے۔ وہ مدرسہ خلیلیہ برکاتیہ کے صدر مدرس تھے۔ حکیم برکاتی ان کے بارے میں کہتے ہیں ’’مولوی عبدالرحمن چشتی معقولات میں متحبر، منقولات میں فرد، اپنے دور کے ایک باکمال اور بے مثال مدرس مسلسل پڑھتے پڑھاتے رہے، ایک مدرسے کی چار دیواری میں بوریے پر بیٹھ کر برعظیم کے گوشے گوشے اور بخارا، تاشقند، سمرقند، غزنی اور کابل سے آنے والے طالبان علوم کو درس دیتے، خاموشی سے عالم گری اور مدرس سازی کرتے رہے اور جب ستر سال کام کرکے تھک گئے تو خاموشی سے گوشہ مرقد میں جا سوئے۔

’’اماں‘‘ کے عنوان سے حکیم محمود احمد نے اپنی دادی صاحبہ کا خاکہ لکھا ہے۔ انھوں نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد اپنے نانا، سید علی احمد عظیم آبادی سے فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔

حکیم محمود احمد لکھتے ہیں ’’مغرب کی نماز کے بعد ان کا دربار سجتا تھا جس میں شہر کی خواتین مسائل دریافت کرنے، خانگی مسائل پر مشورہ لینے اور علاج کے لیے ان کے پاس آیا کرتی تھیں، بچوں کے بہت سے امراض کے لیے وہ چند دوائیں تیار کرکے اپنے پاس رکھتیں، خمیرہ مروارید ہمیشہ تیار رہتا اور ضرورت مندوں میں تقسیم ہوتا، طب میں دسترس تھی، ایک بار میں نے کہا، اماں! کیا آپ حکیم ہیں؟فرمانے لگیں، حکیم کی بہو، حکیم کی بیوی، حکیم کی ماں ہوں، میں نے اپنی طرف اشارہ کرکے کہا، اور اب حکیم کی دادی بھی ہوجائیں گی تو چہرہ فرط مسرت سے کھل اٹھا۔ عربوں سے خصوصی عقیدت تھی۔ ٹونک کے رؤسا بھی عربوں کی خدمت کا خاص ولولہ رکھتے تھے۔ اس لیے عرب اور عرب نما ہندوستانی کثرت سے ٹونک آیا کرتے تھے۔ مولانا سید برکات احمد نے خاص طور پر عربوں کے قیام کے لیے اپنے والد ماجد کی مسجد سے متصل ایک مہمان سرائے، رباط الحکیم تعمیر کرائی تھی۔ جب بھی کوئی عرب ٹونک آتا، اماں اس کے قیام و طعام کے اہتمام میں سرگرم ہوجاتیں اور چلتے وقت نذرانہ پیش کرتیں۔ طلبہ کی خدمت کو واجبات میں سمجھتی تھیں۔‘‘

حکیم محمود احمد برکاتی کا ایک سادھو سے تعلق ہوا تو اس کے نظریات اور عمل کو توجہ سے دیکھا۔ لکھتے ہیں’’میرے متعلق تو سادھو مہاراج ابتدا میں یہ سمجھے کہ باغ کی سیر کو آیا تھا، سستانے اور دل بہلانے کے لیے چوبارے میں آبیٹھا ہے، جب ان پر واضح ہوگیا کہ مقصود ملاقات ہے تو پھر انھیں یہ غلط فہمی ہوئی کہ اپنی کسی خواہش کے حصول کے لیے کوئی عمل وغیرہ معلوم کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ میرے متعلق سوالات کیے اور جب یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی کہ میں نہ بے روزگار ہوں، نہ کسی کے عشق میں گرفتار ہوں، اور نہ کوئی عمل حاصل کرنا چاہتا ہوں تو متاثر ہوئے۔

پگھلے، کھلے اور زیادہ متوجہ ہوئے۔ کہنے لگے کہ بڑی حیرت ہوتی ہے، لوگ فقیروں کے پاس انھیں اللہ والا سمجھ کر جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی، گندی گندی خواہشوں کی تکمیل کی درخواست کرتے ہیں، حالانکہ کوئی بھی آدمی وید کے پاس نمک مرچ خریدنے یا بزاز کے پاس آٹا دال لینے یا گندھی (عطر فروش) سے ہینگ لینے نہیں جاتا۔ گندھی کو اگر حیرت ہو تو کیوں نہ ہو کہ اس سے خوشبو کی جگہ ہینگ مانگتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے میں نے ان کے لیے طرح طرح کے پھولوں کی روح نکال کر رکھی ہے کہ لوگ آئیں اور عطر لیں اور ان کی روح کو اہتزازحاصل ہو۔ اس کے بجائے وہ مجھ سے ایک بدبودار چیز طلب کرتے ہیں، فقیروں کو جب تم اللہ والا سمجھتے ہو تو ان سے اللہ کی باتیں پوچھو، اللہ سے ملنے کا راستہ پوچھو، اللہ والوں سے دنیا کی باتیں کتنی بے جا ہیں، کیوں جی!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔