میلۂ سگاں

توقیر چغتائی  اتوار 2 جولائی 2017

کتا ایک وفادار جانور ہے جس کی کئی مثالوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن ہم اس کا گوشت نہیں کھا سکتے ۔اس لیے کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔اس کے باوجود پچھلے ایک دو برسوں کے دوران ملک کے کئی ہوٹلوں اور قصابوں کی دکانوں پر چھاپے مار کر کتے کا گوشت بر آمد کیا گیا۔ جس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً دشوار نہیں کہ لذیذ ہو یا غلیظ بے خبری میں ہمارے بہت سارے دوستوں نے کتے کا گوشت ضرور کھایا ہو گا۔ ہمارے ملک کو تو چھوڑیے جہاں پچھلے کئی برسوں سے ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو قصائی کتوں کے ساتھ کر رہے ہیں، مگر سعودی عرب جیسے محفوظ ملک میں بھی پچھلے ہفتے کتے کا گوشت فروخت ہونے کی خبریں گشت کرنے لگی تھیں جنھیں بعد میں حکومت کی طرف سے افواہیں کہہ کر جان چھڑا لی گئی تھی۔

جس معاشرے کے رہنے والے بچپن سے ہی اپنی اقدارکی بنا پر کچھ چیزوں کو غلیظ سمجھتے ہوں وہ دوسروں کے لیے چاہے جتنی لذیذ کیوں نہ ہوں انھیں قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہی حال ہمارا اورکتے کے گوشت کا ہے جس کا نام سنتے ہی ہمیں گھن آتی ہے، لیکن کوئی پسند کرے یا نہ کرے ماضی کی طرح اب بھی دنیا کے بہت سارے ممالک میںکتوں کا گوشت بالکل اسی طرح فروخت ہوتا ہے جیسے ہمارے ہاں بکری اور گائے کا گوشت فروخت کیا جاتا ہے۔ ایسے ممالک میں چین، ساؤتھ کوریا ، فلپائن،لاؤس ، ویت نام ،کمبوڈیا اور بھارتی ریاست ناگا لینڈ کا نام سرفہرست ہے۔

جس طرح چین دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی، سیاسی اور ثقافتی رشتے استوار کرنے کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ پر چھایا ہوا ہے بالکل اسی طرح اس کے خود مختار علاقے کا ایک شہر یولن بھی کتوں کی خرید و فروخت اور ان کا گوشت کھانے کی خبروں کا مرکز بنا ہوا تھا جہاں جون کے مہینے کی اکیس تاریخ کو شروع ہونے والا’’کتوں کے گوشت کا میلہ‘‘ اپنی روایت کے مطابق تیس جون کو اختتام پذیر ہوا۔

اس میلے میں ہر سال دس ہزار کتے اور بلیوں کو لایا اورکھایا جاتا ہے۔ میلے کی ابتدا اکیس جون 2009کو ہوئی تھی، لیکن چین میں کتوں کا گوشت کھانے کی روایت 500 سال سے چلی آ رہی ہے جس کے مطابق اس گوشت کو انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید قرار دیا گیا ہے۔ تمام چینیوں کا نہ سہی مگر بہت سارے چینی باشندوں کا یہ من بھاتا کھاجا ہے اور انھوں نے اسے ’’خوشبودارگوشت ‘‘ کا نام دیا ہے جو جنوبی چین کے کئی ہوٹلوں میں باقاعدگی سے فروخت ہوتا ہے ۔ یولن میں منعقد ہونے والے کتوں کے میلے کی خبر تو یقینا ہم سب کے لیے دل چسپ ہے ، مگر اس سے بھی دل چسپ خبر یہ ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ نے کتے کے گوشت کو ’’سپر فوڈ ‘‘ کا نام دیا ہے۔اس سلسلے میںحکومت کی طرف سے ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے۔

جس میں یہ بتایا گیا کہ عوام کو چکن، بیف اور دوسرے گوشت کی جگہ کتے کا گوشت کھانا چاہیے اس لیے کہ اس میں دوسرے جانوروں کے گوشت کی نسبت زیادہ وٹامن اور پروٹین پائی جاتی ہے۔اس مہم کے دوران سرکاری ٹی وی پر کتے کے گوشت کو پکانے کا ایسا طریقہ بھی بتایا گیا جس سے وہ زیادہ مزیدار بن جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کتے کو کس طرح مار مار کر ہلاک کرنا ہے اور پکانے سے پہلے اس کو بالوں سے کیسے پاک کرنا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا میں پالتو کتوں کے سترہ ہزار فارم موجود ہیں۔ شاید کتوں کو مار مار کر کھانے کی ترکیب بتانے پر جنوبی کوریا میںجانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو بہت غصہ آیا اور انھوں نے شمالی کوریا کی حکومت کے اس حکم کے خلاف بھر پور احتجاج کیا، لیکن چین میں سرکاری سطح پر نہ تو کتے کا گوشت کھانے کی ترغیب دی گئی اور نہ ہی اسے تشدد کر کے مارنے کے بعد کھانے پکانے کو کہا گیا۔

اس کے باوجود یولن میں منعقد ہونے والے ’’ کتوں کے گوشت کے میلے ‘‘ کے دوران انھیں پنجروں میں ڈال کر فروخت کے لیے لانے ، اذیت دے کر مارنے، کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کر کھال کھینچنے اور مارنے سے پہلے کئی دنوں تک بھوکا رکھنے کے خلاف آج کل دنیا بھر میںجانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں شدید احتجاج کر رہی ہیں ۔اینمل ایشیا کے سی ای او کوجل رابنسن نے ڈیلی میل کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم چین میں ہونے والے اس میلے کے خلاف ایک بڑی مہم چلانے والے ہیں تاکہ اس میں بیچے اور مارے جانے والے کتوں کی جان بچائی جا سکے۔ اس میلے کے سلسلے میں دی جانے والی خود چین کے عوام کی رائے بھی انتہائی دل چسپ ہے۔ پچھلے دنوںچین میں اس میلے کے سلسلے میں ایک سروے کیا گیا جس سے پتا چلا کہ چونسٹھ فیصد چینی اس میلے پر پابندی کے حق میں ہیں جن میں یولن کے شہری بھی شامل ہیں ۔ اس سروے کے دوران اکاون فیصد لوگوں نے کتے کے گوشت کی تجارت پر مکمل پابندی کی حمایت کی، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس سروے میں انہتر فیصد لوگ ایسے بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے زندگی میں کبھی کتے کا گوشت کھایا ہی نہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ویت نام میں بھی ہر سال پانچ ملین کتے انسانی خوراک کا حصہ بنتے ہیں، لیکن ملکی سطح پراتنی بڑی تعداد کو پورا کرناانتہائی مشکل ہے جس سے نمٹنے کے لیے پڑوسی ممالک تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور لاؤس سے کتوں کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق تائیوان ایساملک ہے جہاں اس سال کے شروع میں بلیوں اورکتوں کی خرید وفروخت اور ان کا گوشت بیچنے پر پابندی لگادی گئی تھی۔اینمل پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کتوں اور بلیوں کی خرید وفروخت اور ان کے گوشت کا استعمال کرنے والوں پر اب پچاس ہزار سے لے کر ڈھائی لاکھ تک تائیوانی ڈالرجرمانہ عائد کیا جائے گا ۔چین میں منعقد ہونے والے ’’ ڈاگ میٹ فیسٹیول‘‘کی مخالفت بھی جاری ہے اوراس کے حق میں بولنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ جب لوگ گائے، بھینس، بھیڑ، بکری اور دوسرے جانوروں کا گوشت کھا سکتے ہیں تو کتوں کا گوشت کیوں نہیں کھا سکتے، لیکن بلیوں اورکتوں کو پالنے اور ان کی وفاداری کا دم بھرنے والے زیادہ تر مغربی شہریوں اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے کارکنوںکا خیال ہے کہ ہر سال اتنی بڑی تعداد میں کتوں کی ہلاکت اور ان کے گوشت کا استعمال کسی طرح بھی جائز نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔