وادی نیلم میں چار فوجی جوانوں کی شہادت

ایڈیٹوریل  منگل 18 جولائی 2017
بھارتی فوج عموماً شہری آبادی کو نشانہ بنا کر اسے نقصان پہنچاتی ہے ۔ فوٹو : فائل

بھارتی فوج عموماً شہری آبادی کو نشانہ بنا کر اسے نقصان پہنچاتی ہے ۔ فوٹو : فائل

بھارتی فوج کی وادی نیلم کے سیکٹر اٹھ مقام میں پاک فوج کی گاڑی پر بلا اشتعال فائرنگ سے گاڑی دریا میں گرنے سے 4فوجی جوان ڈوب کر شہید ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اتوار کی شام بھارتی فوج کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے گاڑی کا ڈرائیور زخمی ہو گیا اور گاڑی بے قابو ہو کر دریائے نیلم میں جا گری۔ پاک فوج نے بھارتی اشتعال انگیزی کا موثر اور بھرپور جواب دیا۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے وادی نیلم میں پاک فوج کی جیپ پر فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے 4جوانوں کی شہادت پر گہرے رنج اور افسوس اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور بھارتی حملے کا فوری اور موثر جواب دینے پر پاک فوج کی صلاحیتوں کو سراہا۔ بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کا سلسلہ اکثر و بیشتر جاری رہتا ہے اور وہ سیزفائر معاہدے کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا، اس کا جب جی چاہتا ہے وہ سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ پاک فوج سیز فائر معاہدے کی مسلسل پابندی کر رہی وہ بھارتی جارحیت کے ردعمل کے طور پر فائرنگ کرکے دشمن کو جواب دیتی ہے۔

بھارتی فوج عموماً شہری آبادی کو نشانہ بنا کر اسے نقصان پہنچاتی ہے اب اس نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فوج کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ تجزیہ نگار کئی بار اس امر کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ بھارتی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں پاکستان کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ بھارتی فوج کے حوصلے بلند کر رہا ہے اور اس نے اسے پاکستان کی کمزوری تصور کر لیا ہے۔

بھارتی جارحیت روکنے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ دشمن کو بھرپور جواب دیا جائے جب اسے شدید نقصان اٹھانا پڑے گا تو وہ شرانگیزی سے باز رہنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین بھی متعدد بار بھارتی جارحیت کا نشانہ بننے والے سرحدی علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور معاملات روز بروز بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اس مسئلے کو روایتی طور پر صرف نظر کرنے کے بجائے اسے عالمی سطح پر اٹھائے اور دنیا کی توجہ بھارتی جارحیت کی طرف دلائے تاکہ یہ سلسلہ کسی طور رکنے میں آ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔