جاوید ہاشمی: کیا بندہ ضایع ہوگیا؟

طارق محمود میاں  ہفتہ 9 فروری 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

اپنے محبوب سیاسی رہنما کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کے پہلو میں بیٹھا دیکھ کے بس یوں ہے کہ جیسے یہ قلم اچھل کے میرے ہاتھ میں ہے اور رواں ہونے کو ہے، اور کلیجہ ہے کہ منہ کو آنے کو ہے۔ میں اندازہ کرسکتا ہوں کہ میری طرح کے اور بھی کتنے ہی پرستار شرمندہ شرمندہ سے پھر رہے ہوں گے اور ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوں گے۔ جانے ایسی صورت حال کو کیا نام دینا چاہیے جس میں آس اور امید اور جذبے کی جی بھر کے توہین ہوجائے۔

سونامی کی دھوم مچی تھی تو “Pied Piper” کی بنسری پر نئے پرانے اور چھوٹے بڑے سیاستدانوں کا ایک ہجوم تھا جو جھومتا ہوا چلا۔ دلکش دھن کے سحر نے پتہ ہی نہ چلنے دیا کہ منزل کہاں ہے اور آگے سمندر کون سا ہے۔ جاوید ہاشمی بھی انھی میں سے ایک تھا۔ اس نے وہ پارٹی چھوڑی تھی جس میں ایک عمر بتائی تھی۔ دونوں طرف احترام کا رشتہ موجود تھا اور خیال یہی تھا کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا بلکہ یہ امید بھی تھی کہ ہاشمی نے شائستگی کا تڑکا لگایا تو سونامی مزاج بھی اپنی حد مقرر کرلے گا۔ اسی وجہ سے ہمارے میڈیا نے بھی جاوید ہاشمی کو جتنا احترام اور پیار دیا ہے اتنا اس سطح کے کسی اور سیاستدان کو نہیں دیا۔ بلایا بھی احترام سے ہے اور بات بھی احترام سے کی ہے۔ ٹی وی اینکرز دوسرے سیاستدانوں سے لڑ بھڑ لیتے ہیں، تُو تُو، میں میں بھی کرلیتے ہیں، ان میں سے جو ہر روز آئے بیٹھے ہوتے ہیں ان سے ہر روز لڑتے ہیں، لیکن ہاشمی اور حد ادب لازم ہے۔

یہ احترام آج بھی جاری ہے جب کہ نئی پارٹی کی صدارت سنبھالنے کے بعد ہاشمی نے کسی حد تک اس کا رنگ ڈھنگ بھی اپنالیا ہے۔ میں تو اسی وقت چونک گیا تھا جب اس کا یہ بیان پڑھا تھا کہ ’’میاں برادران سیاست میں آنے سے قبل الیکشن میں میرے ورکر کا کام کرتے تھے۔‘‘ یہ بیان اگر اپنی سنیارٹی بتانے کے لیے تھا تو ٹھیک تھا کیونکہ عملی سیاست میں آنے کے بعد ہاشمی نے ضیاء الحق کے دور میں تحریک استقلال چھوڑ کے چپکے سے وزارت مملکت قبول کرلی تھی، یوں سینئر تو وہ ہے، لیکن پارٹی کا کلچر بدلتے بدلتے وہ خود اس کے رنگ میں رنگا گیا ہے۔

میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ قصور کے جلسے میں کرسیاںلوٹی گئیں، رمضان میں افطاریاں لٹ گئیں، اور وقت افطار سے دس منٹ قبل لوگوں نے کھانا تناول فرما ڈالا یا عید ملن ہوئی تو کھانے کے ٹرک میں لوٹ مار ہوگئی۔ ایسا ’’ڈسپلن‘‘ تو نون اور قاف لیگ میں بھی ہوتا ہے اور شیخ لیگ میں بھی۔ ہاں اگر نہیں ہوتا تو وہاں جہاں تین تین فٹ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوئے ایک بندے کو یوں لگتا ہے کہ کسی نہ کسی بندوق کی نال اس پر ضرور تنی ہے۔ مجھے فکر اس بات کی ہے کہ ایک قدآور سیاسی لیڈر کا سائز کسی ایک سیٹ والے ’’شیخ الاسلام‘‘ کے بغل بچے کے حساب سے دیکھا جارہا ہے۔

ہاشمی کے رویے کے بارے میں ایک مثال میں ایک گزشتہ کالم میں دے چکا ہوں کہ کس طرح دنیا تیاگ دینے والا ایک بادشاہ پوری سلطنت چھوڑ کے سادھو ہوگیا، لیکن پھر ایک روز دریا کے کنارے کسی کی ایک موتیوں جڑی لٹیا اٹھا کے بھاگ لیا۔ یہ نون لیگ چھوڑنے پر تبصرہ تھا۔ اب تو وہ لٹیا بھی باقی نہیں رہی۔ بس ایک نئے ڈیزائن کی ٹوپی پر دل آگیا ہے۔

حالات نے، قدرت نے اور بے وقت فیصلوں نے ہاشمی کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، وہ ہمارے دور طالب علم کا بھی لیڈر تھا، جری اور نڈر۔ میں اس زمانے کی تاریخ دوہرا کے آپ کا وقت برباد نہیں کروں گا، بارہا لکھا اور پڑھا جاچکا ہے۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والا میرا ایک دوست شبیر مجھے اکثر وہاں کی تفصیلات بتاتا رہتا تھا۔ اب ہم نے یہ کردیا اور اب وہ کردیا ہے۔ اب یہ تیر چلایا ہے اور کل وہ توپ چلائیں گے۔ ہاشمی کو اسٹوڈنٹس یونین کا صدارتی انتخاب لڑوائیں گے۔ساری تفصیلات ہاسٹل میں میرے کمرے میں طے ہوئیں ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ پھر ہاشمی صدر بن گیا۔ ایسا متحرک صدر کہ بہادری کی تاریخ رقم کردی۔ یہ دور گزرا تو ایک روز شبیر نے بتایا کہ ہاشمی اور اس کی ایئرمارشل اصغر خان سے ملاقات ہوئی ہے اور توقع کے برعکس ہاشمی جماعت اسلامی کی بجائے تحریک استقلال جوائن کرنے والا ہے۔

پھر یہی ہوا۔ ہاشمی تحریک استقلال کے راستے سیاست میں داخل ہوگیا اور میرا دوست اپنے دھندے سے لگ گیا۔ اس کے بعد بھی وہ اکثر آپس میں رابطے کی باتیں سناتا رہتا اور کئی اندرونی کہانیاں بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کب ان کے رابطے معطل ہوئے، لیکن یہ سن 2010 کی بات ہے جب لاہور سے شبیر کا فون آیا اور اس نے کہا ’’یار! تمہیں معلوم ہے پچھلے ہفتے میرے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ اس کے بعد اس نے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی۔ کچھ روز قبل اچانک جاوید ہاشمی کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا تھا۔ شبیر نے تعزیت کے لیے فون کیا تو دونوں کچھ دیر تک پنجاب یونیورسٹی کے دنوں کو بھی یاد کرتے رہے۔ پھر شبیر نے اظہار افسوس کے لیے ملاقات کا ارادہ ظاہر کیا تو ہاشمی نے کہا ’’میں ابھی کئی روز تک ملتان میں ہی رہوں گا، تم وہیں آجاؤ‘‘ اگلے روز شبیر نے گاڑی نکالی اور چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر ملتان روانہ ہوگیا۔ ہاشمی کے گھر پر تعزیت کے لیے آنے والے جمع تھے۔ شبیر نے ہاشمی سے ملاقات کی، گلے ملا، اظہار افسوس کیا اور پھر ہاشمی نے شبیر سے پوچھا ’’آپ ہیں کون؟ اور آپ اتنی پرانی پرانی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟‘‘

یہ واقعہ کیا تھا اور کیسے ہوا؟ آپ کی طرح میری بھی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ ہر کھیل کا ایک وقت ہوتا ہے۔ موسم سازگار نہ ہو تو جلد بھی ختم ہوجاتا ہے۔ چلے ہوئے کارتوس والی بات پرانی ہوگئی۔ لیڈروں کے نام پر پارٹی میں کتنی ہی لاشیں پڑی ہیں۔ دو تو قصور سے تشریف لائی ہیں، ایک امریکا بدر سے اور میاں صاحب بھی ہیں جو قاف لیگ کے اولین صدر کے طور پر وزیر اعظم بنتے بنتے پارٹی ہی گنوا بیٹھے۔ اور ہوائی فوج والے بزرگ ہیں جو پارٹی چیئرمین کا رول ماڈل ہیں بلکہ مستقبل ہیں اور اتنی لمبی چوڑی ہاؤ ہو کے بعد پارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ ’’شیخ الاسلام‘‘ کی سطح پر اتر کے جمہوریت کا بستر گول کرنے کو نعرہ زن ہیں۔ پہلی کوششیں بارآور نہیں ہوئیں تو فتور مچانے کو الیکشن کمیشن والا کٹّا کھلا چھوڑ دیا ہے۔ ایسے میں بندہ ضایع ہوتا ہوا دکھائی دے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ رفیق باجوہ یا زاہد سرفراز بن کے گم ہونے سے بہتر ہے کہ شیرباز مزاری بن کے وقار قائم رکھا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔