نان جسٹس ایبل

جاوید قاضی  ہفتہ 5 اگست 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آئیے انصاف کریں، نہ جذبات کی رو میں بہہ جائیں، نہ کسی کے ہاتھوں میں کھیلیں، نہ اپنے مفادات عزیز رکھیں، نہ کسی کو یرقانی آنکھ سے دیکھیں۔ مگر انصاف کرنے کے لیے انسان کی پانچ حسیں کافی نہیں ہیں، اسی لیے جو لوگ قانون بناتے ہیں وہ خود انصاف کا معاملہ عدالتوں پر چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ قانون بنانے کے لیے عوامی رائے درکار ہے۔ ان کی اجازت اور شرکت لازمی ہے، جب کہ انصاف کرنے کے لیے ایک ایسی بھٹی سے پکنا لازمی ہے جو کہ اس تجربے سے گزری ہے اور خود ایسی ایک آنکھ بن جائے جو ٹھوس حقیقتوں، ان کے منطق، صداقت اور ضرورت کو دیکھ سکیں۔

کئی زاویے ہیں سچ کو دیکھنے کے، ان تمام زاویوں میں کہیں سچ خود زیاں بھی ہوسکتا ہے اور معنی بھی دے سکتا ہے، کبھی بے معنی بھی ہوجاتا ہے، کبھی خود قاتل بن کر آپ کا تعاقب بھی کرتا ہے۔ میں سچ کے ایک ایسے زاویے سے تعلق رکھتا ہوں جس سے آگے آنے والی راہیں کھلتی ہیں۔

عدالت جب فیصلے سناتی ہے تو عدالت کے پاس قانون کی تشریح کرنے کے لیے بہت سے زاویے ہوتے ہیں۔ اس بات کا ذکر میں پہلے بھی کرچکا ہوں۔ وہ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص حالات، اس وقت سچ کی تشریح کررہے ہوتے ہیں جس سے فیصلے اور انصاف کا تعین ہوسکے۔ جہاں آئین و قانون، مورخ کو جواب نہیں دے سکتا کہ کورٹ نے ہر فیصلہ قانون کی کس شق کے تحت کیا، وہاں سے Jurisprudence کے دروازے کھلتے ہیں۔ خود Jurisprudence کے معنی کے بھی کئی زاویے ہیں لیکن بنیادی اور حتمی طور پر اس کے معنی Philosophy of Law ہے۔

قانون اور اخلاقیات بنیادی طور پر دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر جو اخلاقیات قانون اپنے دائرے میں لیتا ہے وہ قانون ہے اور جو اخلاقیات قانون کے دائرے میں نہیں، وہ صرف اخلاقیات ہے۔ اخلاقیات پر بھی طرح طرح کے سوالیہ نشان ہیں۔ لبرلز کسی کی ذاتیات میں نہیں جاتے، مگر تنگ نظر لوگ ایسا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ افراد کی آزادی ہر آئین اور قانون کی اولین ترجیح ہے، اس وقت تک جب تک ایک فرد کی آزادی دوسرے فرد کی آزادی میں مخل نہ ڈالے اور تب تک عدالت اس کو اپنے دائرہ کار میں نہیں لاتی۔

اس نقطے سے Justiciable اور Non-Justiciable کے درمیان ایک باریک سی لکیر کا تعین ہوتا ہے، مگر یہ لکیر بہت معنی رکھتی ہی۔ جب عدالت فیصلہ کرتی ہے تو Jurisprudence کہتی ہے کہ عدالت کے پاس فیصلے کا تعین کرتے ہوئے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک Principle اور دوسرا Policy۔ فیصلہ جب ایک مورخ پڑھتا ہے تو وہ اس حقیقت تک پہنچ جاتا ہے کہ فیصلے میں پالیسی کا وزن زیادہ ہے یا کہ Principle کا۔ خود نظریہ ضرورت کیا ہے؟

پوری کی پوری ایک پالیسی کا عکس ہے۔ یعنی سسٹم بھی بچاؤ اور آئین سے ماورا بھی ہوجاؤ اور آگے نکلو۔ کیونکہ اصولی طور پر فیصلہ عدالت کو نہیں کرنا ہوتا بلکہ لوگوں نے کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کب ہوا کہ شب خوں مارا گیا اور لوگ سڑکوں پر آئے؟ اور جب جہاں ایسا ہوا تو اس کے ردعمل میں اسی وقت لوگ سڑکوں پر آئے تو شب خوں ناکام ہوا جیسا کہ ہیوگوشاویز یا اردگان کے خلاف ہوا اور ایسی کئی اور بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

پاکستان میں کورٹ اس وقت غیر فعال ہوجاتی ہے جب شب خوں مارا جائے اور لوگ فوراً سڑکوں پر نہ آئیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جب جب پاکستان پر شب خوں مارا گیا، پاکستان امریکا کے زیر اثر تھا یا سرد جنگ کے زمانے تھے۔ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ ہم مصر سے بہت مختلف ہیں کہ وہاں 1940 سے اب تک مسلسل آمریت ہی مسلط ہے، سوائے دو سال کے۔ اور دو سال بھی کوئی کم بھیانک نہ تھے۔ صدر مرسی نے جو آئین ریفرنڈم کے ذریعے دیا وہ آئین کے ماڈرن معنی سے بہت مختلف تھا۔

ہماے پاس آمریت تو آئی مگر دس سال سے زیادہ ٹھہر نہ پائی، یہ اور بات ہے کہ ہماری جمہوریت ابھی پختہ نہیں ہوئی لیکن نظریہ ضرورت ہماری کورٹس کی مجبوری تھی۔ اور حقیقت بھی ہے۔ وہ ماورائے آئین تو تھا مگر مخصوص حالات میں اگر Jurisprudence کی آنکھ سے دیکھا جائے تو فطری عمل تھا۔ پھر ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ عدالتیں قانون کی آزادی کی علمبردار بن گئیں اور پھر ایسا بھی ہوا کہ Judicial Activism کے بہانے خود کورٹ آمر بن گئی۔ پھر آنریبل جسٹس تصدق جیلانی کا زمانہ بھی آیا کہ Judicial Restrain کی بنیادیں بھی ڈالیں گئیں۔ کورٹس پر اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، اور جب سے آمریتوں کا راج ختم ہوا کورٹس کی خود اعتمادی اور بھی بڑھ گئی۔ اب بھی معاشرہ اتنا بالغ نہیں ہوا کہ جہاں اردگان اور پوتن جیسی مافیا جمہوریت کی بنیادوں سے جنم نہ لے سکیں۔

اب خطرہ جمہوریت کو آمریت سے نہیں بلکہ خود اس نابالغ جمہوریت سے ہے۔ اس وقت بھی آمریت ممکن نہ تھی، اس لیے کہ دنیا میں سرد جنگ ختم ہوچکی تھی لیکن اتنی تیزی سے آگے نکلے کہ گر پڑے اور ساتھ ان کے ہماری نابالغ جمہوریت بھی، عدالتیں بھی۔ ایک اور واقعہ بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ ایک خاتون جو کہ انسانی حقوق کی بڑی وکیل ہیں، خود میاں نواز شریف سے کہہ رہی تھیں کہ میاں صاحب! مشرف پر ٹرائل نہ چلاؤ۔ یہ سب اس وقت قانون و آئین کے تحت نہیں کہہ رہی تھیں بلکہ Jurisprudence کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ کیونکہ جمہوریت ابھی اتنی بالغ نہیں تھی کہ مشرف کے ٹرائل کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا سکے۔

وہ ڈی چوک کا دھرنا، وہ جمہوری حکومت کا غیر فعال ہونا کہ خود پیپلز پارٹی بھی اس وقت بھانپ گئی تھی کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ اب عمران خان پاکستان کی جمہوریت کے پروسیس کا حصہ ہیں اور جو امن اب ہمارے ملک میں لوٹ کر آیا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار ہے۔ اب اگر کوئی سرگوشی ہے تو وہ یہ ہے کہ جمہوریت کو یرغمال بنایا جائے۔

یہ عوام کی JIT کی phrase کے کیا معنی ہیں؟ معنی یہ ہیں کہ ہمیں اداروں کی جمہوریت نہیں چاہیے، تو کیا اگر کوئی قتل کرے تو اس کا فیصلہ بھی کیا عوام کریں گے کہ ملزم کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ جاتے جاتے نہ چاہتے ہوئے بھی میں عائشہ گلا لئی کا تھوڑا سا ذکر کرتا چلوں، اگر اینگلوسیکسن قانون کی رو سے دیکھا جائے تو یہ تمام معاملہ consensual ہے، یعنی چار سال پہلے کے میسجز اور مس عائشہ کی خاموشی خود کیا ظاہر کرتی ہے۔ ہمارے قانون کی اصل Origin بھی یہی ہے، اور اس طرح اس حقیقت کا یہ وہ پہلو ہے جو اس کو Non-Justiciable بناتا ہے۔ یعنی یہ معاملہ سیاسی معاملہ تو ہوسکتا ہے لیکن آئینی یا قانونی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔