ہم آپ کے ساتھ نہیں

توقیر چغتائی  پير 7 اگست 2017

دو سیاسی پارٹیاں اور ایک دھڑا یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ ملک کے بیس کروڑ عوام ان ہی کے ساتھ ہیں۔ یہ بات تب درست تسلیم کی جاسکتی ہے جب پاکستان کی آبادی بیس کروڑ کے بجائے ساٹھ کروڑ تک پہنچ جائے اور سب پارٹیوں کے ممبران کی تعداد بیس بیس کروڑ ہوجائے، لیکن کم از کم اگلے بیس سال تک ایسا ممکن نہیں۔

جھوٹی سچی تقریروں اور دعوؤں کے لیے نہ صر ف تمام سیاسی رہنماؤں کو فی الحال نئی مردم شماری کے نتیجے میں سامنے آنے والی عوامی تعداد پر ہی گزارا کرنا پڑے گا بلکہ اپنے جلسوں میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد بھی بڑھا چڑھا کر بتانے سے گریز کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس میں ہر چیز کا ثبوت دیر سے سہی، مگر باآسانی مل جاتا ہے۔

ملک کی دو بڑی پارٹیوں اور ان پارٹیوں سے ٹوٹ کر جانے والے کچھ سیاست دانوں کی مدد سے بظاہر مضبوط نظر آنے والے دھڑے کے علاوہ ملک میں چند چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی موجود ہیں، جن کے ووٹر ہر الیکشن کے موقعے پر اپنے نمایندوں کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ چند سیٹیں جیت کر اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں، حزب اختلاف بھی وجود میں آتی ہے اور جوڑ توڑ کے بعد حکومت سازی کے لیے مخالفین کو ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، لہٰذا یہ دعویٰ کسی بھی سیاسی لیڈر کو زیب نہیں دیتا کہ بیس کروڑ عوام اس کے ساتھ ہیں۔

اپنے ملک کی ساری آبادی کی طرف سے کسی سیاسی لیڈر کی مخالفت یا حق میں دھواں دھار اور اخلاق سے عاری بیانات دینے والے رہنما شاید جوش خطابت میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بہت سارے ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان روایتی پارٹیوں سے سخت نالاں ہیں۔

ملک میں بہت سارے ایسے افراد بھی موجود ہیں جو مزدوروں، کسانوں اور بائیں بازو کی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہوئے عام آدمی کی زندگی بدلنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، مگر انھوں نے آج تک کسی ایسے لیڈر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی جو عوام کا خون چوس کر اپنے گھروں کی دیواروں پر نقش و نگار بناتا رہا ہو۔ ان کے علاوہ ایسے بدقسمت افراد بھی ہیں جنھیں ہمارے حکمرانوں نے اب تک تعلیم کی روشنی سے دور رکھا۔

سیاست کی الف ب سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ یہ بھی نہ سمجھ پائے کہ ستر سال کے دوران سیاسی میدان میں ہونے والے دنگل ہماری معیشت، تعلیم اور صحت کی بازی جیتنے میں تو ناکام رہے، مگر اس میں شامل نام نہاد پہلوان اپنے سر پر فتح کا جھوٹا تاج کیوں سجائے بیٹھے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مال بردار ٹرکوں کے پیچھے تمغوں سے سجی ایوب خان کی باوردی تصویر کو دیکھ کر جذباتی ہوجاتا ہے اور آہ بھر کر انتہائی ’’دکھی دل‘‘ سے کہتا ہے کہ اس قوم کو ڈنڈے سے ہی سیدھا کیا جا سکتا ہے۔

ان سب کے پیچھے پیچھے، مگر سب سے نمایاں وہ سدابہار طبقہ بھی ہے جو ’’جمہوریت‘‘ کی دیگ پکتے ہی بن بلائے مہمانوں کی طرح اقتدار کی دعوت میں شریک ہوجاتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جیتنے والی پارٹی کا پس منظر کیا ہے اور آنے والے دنوں میں وہ کیا کرنے والی ہے۔ اس طبقے میں نہ صرف عام کارکن بلکہ وہ سیاسی رہنما بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں نہ تو کسی نظریے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی جیتنے والی پارٹی کے نظریے کے بارے میں کچھ پوچھنے کی فرصت ہوتی ہے۔

تمام طبقوں کے علاوہ ملک میں خواتین اور اقلیتیں بھی موجود ہیں جن کی شمولیت کے بغیر ہمارا کوئی بھی سیاسی اور سماجی عمل نامکمل کہلائے گا۔ حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمارسے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں خواتین کی آبادی اور مردوں کی آبادی میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ اس کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بہت ساری خواتین اپنے ووٹ کے لیے تو کیا کسی ضروری کام کے لیے بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔ اقلیتوں کے بارے میں بھی یہ دعویٰ کرنا کہ وہ کسی ایک پارٹی، فرد یا دھڑے سے جڑے ہوئے ہیں، کچھ درست نہ ہوگا۔

اپنی تحریر و تقریر میں جو سیاسی رہنما اس بات پر مصر ہیں کہ ملک کے بیس کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں، ان پر دروغ گوئی کا الزام لگانا بہت کمزور لگتا ہے کہ وہ دروغ گوئی سے نکل کر گالم گلوچ اور گھروں میں بیٹھی بے قصور خواتین کی عزت و حرمت تک جا پہنچے ہیں۔

کسی بھی سیاسی لیڈر کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ جو لوگ اس کی جماعت میں شامل نہیں، اس کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے یا اس کی زبان درازی سے پریشان ہیں، ان کا نام لے کر وہ یہ کہتا پھرے کہ ملک کے بیس کروڑ عوام نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ یہ بات مت بھولیے کہ اس وقت ملک میں دو بڑی پارٹیاں موجود ہیں، مذہبی پارٹیوں کے علاوہ لبرل افراد اور چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی کام کر رہی ہیں۔

بائیں بازو کی پارٹیاں بھی پہلے سے زیادہ بہتر اور اپنے معاشرے کی ضروریات کے مطابق اپنا سیاسی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اقلیتیں اور خواتین بھی پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی ایک سیاسی رہنما یہ کہتا ہے کہ بیس کروڑ عوام اس کے ہر اچھے اور برے فیصلے میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں تو اسے یہ دعویٰ کرتے وقت ہزار بار سوچنے کی ضرورت ہے۔

کوئی پسند کرے یا نہ کرے، مگر کم ازکم ہم جیسے بے شمار افراد نہ تو کسی پارٹی کے جلسوں میں ہونے والی گالم گلوچ کو پسند کرتے ہیں، نہ ہی میڈیا پر ہونے والی سیاسی گفتگو کے دوران ایک دوسرے کی عزت اچھالنے سے متفق ہیں اور نہ ہی کسی وعدے اور دعوے پر اعتبار کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔