سانڈ، ایک حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو

جاہد احمد  منگل 8 اگست 2017
اِس بات سے قطع نظر کہ سانڈ یہ کھیل کھیلنا چاہتا ہے کہ نہیں؟ یہ کھیل کھیلا جاتا رہے گا کیونکہ شائقین یہ کھیل دیکھنا چاہتے ہیں اور میٹا ڈار یہ کھیل کھیلتے رہنا چاہتا ہے۔

اِس بات سے قطع نظر کہ سانڈ یہ کھیل کھیلنا چاہتا ہے کہ نہیں؟ یہ کھیل کھیلا جاتا رہے گا کیونکہ شائقین یہ کھیل دیکھنا چاہتے ہیں اور میٹا ڈار یہ کھیل کھیلتے رہنا چاہتا ہے۔

انتہائی درجے کی حُب الوطنی اور حقیقی جمہوریت کے جذبے سے سرشار بیانیہ پیش کیا جاتا ہے،

’’یہ جمہوریت نہیں، مذاق ہے‘‘

’’وزیرِاعظم دو نہیں بلکہ تین پہیوں کی سائیکل چلاتا ہے۔ بھلا جمہوریت میں بھی کبھی ایسا ہوا ہے‘‘

’’یہ جمہوریت بھی کوئی جمہوریت ہے؟ دیکھو وزیرِاعظم دو پہیوں کے بجائے ایک پہیے کی سائیکل چلاتا ہے۔ یہ جمہوریت نہیں سرکس ہے‘‘

’’ایسی جمہوریت کو جمہوریت کہنا جمہوریت کے منہ پر کالک پوتھنے کے مترادف ہے۔ وزیرِاعظم دو پہیوں کی سائیکل پر ون ویلنگ کرتا ہے، یہ جمہوریت نہیں لااُبالی لونڈے لپاڑوں کا گینگ ہے‘‘

’’کون سی جمہوریت؟ جہاں وزیرِاعظم موٹر کار کے دور میں دو پہیوں کی سائیکل چلاتا ہے۔ یہ نالائقی ہے، نااہلی ہے، قدامت پسندی ہے، جمہوریت نہیں‘‘

’’کیا یہ جمہوریت ہے کہ غریب ملک کا وزیرِاعظم عوام کے پیسوں پر موٹر کار چلائے؟ یہ آخر دو پہیوں کی سائیکل کیوں نہیں چلاتا؟ یہ جمہوریت نہیں جمہوریت کے نام پر ڈاکا ہے‘‘

جمہوریت مخالف بیانیہ اب ایسے سکے کے طور پر سامنے آیا ہے جس کا چٹ اور پٹ دونوں جمہور سے وابستہ جمہوریت کی شکست کی علامت ہے۔ بیانیہ پیش کرنے والے عناصر کے لئے اچھی والی قابلِ قبول جمہوریت وہ ہے، جس میں عقل مند جمہور اچھے اچھے تصدیق شدہ سیاستدانوں کومنتخب کریں جو انحراف کی صلاحیت سے مکمل بے بہرہ ہوں اور بُری والی بدترین جمہوریت وہ ہے، جس میں کم عقل جمہور ناپسندیدہ بے لگام سیاستدانوں کا انتخاب کریں۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر آج تک جمہوری اور غیر جمہوری عناصر میں جاری سیاسی مُڈ بھیڑ اور اسپین کے مقبول کھیل ’بُل فائٹنگ‘ میں بہت مماثلت پیدا ہوچکی ہے۔ بُل فائٹنگ کا کھیل اپنی تمام تر حیوانیت کے باوجود دنیا بھر میں مقبولیت رکھتا ہے۔ یہ کھیل خصوصاً جنگجو طبعیت کے حامل افراد کیلئے انتہائی پُرکشش نظارہ پیش کرتا ہے، جہاں کُھلے میدان میں انسان بمقابلہ حیوان دکھائی دیتا ہے۔ ایک تگڑا، بپھرا ہوا سانڈ اور اُس کے مدمقابل دبلا پتلا، چست رنگین لباس میں انتہائی پھرتیلا میٹاڈار، جو ہزاروں افراد کے مجمع کے سامنے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ایک لال کپڑے، اپنے زورِ بازو اور کیل کانٹے کی مدد سے سانڈ کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔

جانوروں کے حقوق کی پرچارک تنظیموں سمیت اِس کھیل کے مخالفین اسپین کے اندر بھی موجود ہیں اور باہر بھی لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود اِس کھیل کے شائقین کی تعداد اب بھی اِس قدر ضرور ہے جو اِس کھیل کے کھیلنے والوں کو اِسے جاری رکھنے کے لئے تحریک دیتی ہے۔ جب تک کہ میدان تماشائیوں سے بھرے ہیں، سانڈ، میٹا ڈار کے ہاتھوں دھول چاٹتا رہے گا۔ تالیاں بجتی رہیں گی، سانڈ ایک خونخوار حیوان اور میٹاڈار ایک ہیرو کے طور پر اُبھرتا رہے گا۔

اِس بات سے قطع نظر کہ سانڈ یہ کھیل کھیلنا چاہتا ہے کہ نہیں؟ یہ کھیل کھیلا جاتا رہے گا کیونکہ شائقین یہ کھیل دیکھنا چاہتے ہیں اور میٹا ڈار یہ کھیل کھیلتے رہنا چاہتا ہے۔ سانڈ کی افزائش بھی میٹاڈار کی خواہش کے عین مطابق کی جاتی ہے۔ اِسے مقابلے کے لئے تیار کیا جاتا ہے، مقابلے سے پہلے بدترین سلوک روا رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ مستقل جسمانی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ مقابلہ شروع ہونے پر میٹاڈار سانڈ سے کھیلتا ہے، اُسے لال کپڑا دکھا کر طیش دلاتا ہے، تماشائیوں کے ذوق کے پیشِ نظر سانڈ کو میدان میں اِدھر سے اُدھر بھگایا جاتا ہے۔ وقت پورا ہونے پر میٹاڈار بھرپور ہُنرمندی اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانڈ کی کمر میں پتلی تلوار نما چھریاں پیوست کرنے کا عمل شروع کرتا ہے۔ خون بہتا ہے، سانڈ کمزور پڑتا ہے، قدم اٹھانے سے قاصر ہوتا چلا جاتا ہے اور تب میٹا ڈار کمال بہادری اور ادا سے آخری وار کرکے سانڈ کی زندگی اور کھیل کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

اِس دوران میٹا ڈار کی مدد کے لئے معاون میٹا ڈار میدان میں پوری تیاری کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ بدقسمت سانڈ کسی موقع پر میٹاڈار پر حاوی ہوتا نظر آئے تو معاون میٹا ڈار چھریوں اور تلواروں سے لیس گھوڑوں پر چڑھ کر سانڈ پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور اِس عمل کو بھی بھرپور بہادری ہی تصور کیا جاتا ہے۔

اب بس میٹا ڈار کی جگہ پاکستان کی نادیدہ غیر جمہوری قوتوں کو رکھ دیں اور سانڈ کو منتخب پاکستانی وزرائے اعظم سے تبدیل کردیں۔ آپ خود کو اسپین کے کسی ’بل فائٹنگ‘ کے میدان میں تماشائیوں کے بیچ بیٹھا محسوس کریں گے۔ لہو لہان سانڈ مٹی چاٹ رہا ہے جبکہ میٹاڈار کی شجاعت پر تماشائی پھولے نہیں سما رہے۔ جب تک میدان میں تالیاں پیٹنے والے، خراجِ تحسین پیش کرتے تماش بین بھرے رہیں گے، کھیل یوں ہی چلتا رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
جاہد احمد

جاہد احمد

جاہد احمد ایک لکھاری، ادیب و صحافی ہیں۔ اردو مجلے ماہنامہ "بیاض" کے شریک ایڈیٹربھی ہیں۔ ان سے رابطہ [email protected] پرکیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔