ملک کی خدمت کیسے کریں؟

عابد محمود عزام  ہفتہ 12 اگست 2017

ہر سال 14اگست کی سپیدہ سحرکی کرنیں قوم کو یہ واضح پیغام دیتی ہیں کہ غلامی کے ماحول کو پس منظر میں دھکیلنے کے لیے جرات و ہمت، پختہ ارادہ اور اپنے موقف اور اصولوں پر ڈٹے رہنا ضروری ہے۔ مسلمانوں نے ایک آزاد مسلم وطن حاصل کرنے کا عزم مصمم کیا اور انگریز کی عداوت اور ہندو کی منافقت کے باوجود عزم و ہمت کے ساتھ اپنے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

مایوسی کبھی ان کے قدموں کی زنجیر نہ بن سکی ۔ مسلمان مسلسل آزادی کے حصول کی جدوجہدکرتے رہے اور 14اگست 1947ء کو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ پاکستان کی عمر 70 سال ہوگئی ہے۔ پاکستان کی ہر سالگرہ کو ہم ’’یومِ آزادی‘‘ کے طور پر بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور اس دن مختلف طریقوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ جس طرح ہر سال ہم یوم آزادی پر باقاعدگی کے ساتھ بے انتہا خوشی کا اظہارکرتے ہیں، اسی طرح ہر سال ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ یوم پاکستان خود فراموشی کا دن نہیں، بلکہ خود احتسابی کا دن ہے، اگر ہم نے ملک کے لیے کچھ کیا ہے، تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر کچھ نہ کرسکے تو آیندہ کچھ کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔

14اگست 1947 کو مسلمانوں نے یہ سوچ کر ایک الگ ملک حاصل کیا تھا کہ نئے ملک میں امن، چین و سکون سب کچھ ملے گا۔ تمام مسالک، فرقوں، نظریات اور جماعتوں کے لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں گے۔ انصاف کا بول بالا ہوگا۔ بد دیانتی و بدنیتی نہیں ہوگی۔ بدعنوانی وخیانت کو اس ملک میںکہیں بھی جائے پناہ نہیں ملے گی۔ ظلم و زیادتی کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہوگا۔ لوگ پیارومحبت سے رہیں گے۔ سیاست کے نام پر عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جائے گا۔

بااختیار لوگ ملک و قوم کی دولت کو اپنی دولت سمجھ کر استعمال نہیں کریں گے۔ تمام پاکستانی قوانین پر عمل کریں گے۔ امیر وغریب کے لیے قانوں یکساں ہوگا، لیکن یہاں تو اس کے برعکس ہوا۔ لوگ معمولی سے اختلاف پر بھی مخالف مسالک، مخالف نظریات اور مخالف جماعتوں کے لوگوں کو قتل کردیتے ہیں۔ انصاف صرف کتابوں میں لکھا ہوا ملتا ہے اور اگرکسی کو انصاف ملنے لگتا بھی ہے تو بااثر لوگ رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ میرٹ کا قتل عام ہورہا ہے۔ لوگ بد عنوانی و خیانت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، لیکن حکومت کوکوئی فکر نہیں ہوتی۔ ایک طرف کچھ لوگوں کے پاس بے حساب دولت ہے، جب کہ دوسری جانب غربت سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ طاقتور ظالم اور کمزور مظلوم ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے غریب بچوں اور بچیوں پر معمولی سی غلطی پر بھی تشدد کیا جاتا ہے، قتل تک کردیا جاتا ہے، لیکن انھیں کوئی سزا نہیں ہوتی۔ پیار و محبت ناپید، جب کہ نفرت وافر مقدار میں موجود ہے۔ برداشت عنقا ہوچکی ہے۔ سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کو مخالف جماعتوں کے خلاف اکساتے ہیں۔ سیاست کے نام پر عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ ہر پانچ سال بعد بے وقوف بنایاجاتا ہے۔

سیاست دانوں کو عہدے ملتے ہیں تو وہ دل کھول کر کرپشن کرتے ہیں، اگر عدالت ان کرپٹ لوگوں کو سزائیں سناتی ہے تو عوام ہی ان کی کرپشن کو بھلا کر ان کو ہیرو بنادیتے ہیں۔ امیر وغریب سب مل کر قوانین توڑنے میں مشغول ہیں، جس کا جہاں بس چلتا ہے، قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ ہم سب اپنی ذمے داری ادا کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہم سب نے مل کر اپنے بزرگوں، ان کی قربانیوں اور قیام پاکستان کے وقت اپنی جانوں کے نذرانے دینے والوں کی ناقدری کی ہے۔ انھوں نے 70سال پہلے پاکستان بنایا تھا اور آج ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر اس ملک کی حفاظت کا عہد کریں اور اسے پورا کر دکھائیں۔ اس ملک کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے، کیونکہ پاکستان نے ہی ہمیں ایک پہچان دی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اس دھرتی کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دل و جان سے کوشش کریں۔ جس طرح ہم خود اپنی ذات اور اپنی فیملی کے مستقبل کو تابناک اور روشن بنانا چاہتے ہیں، اسی طرح ہمیں ملک کا مستقل بھی روشن بنانے کی فکرکرنی چاہیے، اگر ہم چاہیں تو اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی بھی ہے، جن کے دل میں پاکستان کے بارے میں نہ صرف اپنائیت کا احساس ہے، بلکہ کچھ کردکھانے کا جذبہ اورمحنت کرنے کاعزم ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، لیکن ان کے پاس ملک کی خدمت کرنے کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔

بہت سوں کی سوچ ہوتی ہے کہ جب تک ہم کسی بڑی کرسی پر نہیں بیٹھ جاتے، بڑا عہدہ نہیں حاصل کرلیتے، دولت مند نہیں بن جاتے، بڑے لیڈر نہیں بن جاتے، بڑے صحافی، بڑے ادیب، بڑے سائنسدان یا بہت بڑا مقام حاصل نہیں کرلیتے، اس وقت تک ملک و قوم کی خدمت ٹھیک طریقے سے نہیں کرسکتے، لیکن جب بڑی کرسی، بڑا عہدہ، بڑا مقام حاصل نہیں کرپاتے اور نہ ہی بڑے لیڈر، بڑے صحافی، بڑے سائنسدان بن پاتے ہیں تو ان کے تمام خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اوروہ مایوس ہو کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید اب ہم معاشرے کا بیکار پرزہ ہیں، جو اپنی زندگی تو گزار سکتے ہیں، لیکن ملک و قوم کے لیے کچھ نہیں کرسکتے، حالانکہ ملک و قوم کی خدمت کے لیے بہت بڑا لیڈر بننا، بہت زیادہ بااختیار ہونا، بہت زیادہ دولت مند ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ معاشرے کا ہر فرد خواہ کسی بھی درجے کا شہری ہو، وہ اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کرسکتا ہے، کیونکہ ایک اچھا اور ذمے دار شہری بننا ہی ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہے اور یہ کام ہر شخص ہر جگہ رہتے ہوئے کر سکتا ہے۔

جو شخص ملک کا جتنا اچھا شہری ہے، وہ ملک و قوم کے ساتھ اتنا ہی مخلص ہے، کیونکہ کوئی مخلص شہری کبھی ملک کے قوانین کو نہیں توڑتا، رشوت، بدعنوانی، چوری، ڈاکا، بدامنی، لڑائی جھگڑے اور دیگر جرائم میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمیشہ ملک و قوم کا بھلا سوچتا ہے اور اپنے مفادات کو ملک و قوم اور معاشرے کے مفادات پر ترجیح نہیں دیتا۔ وہ جس علاقے اور جس محلے میں بھی رہتا ہے، بہترین اصولوں پر کاربند ہوتا ہے۔

جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں معاون بنتا ہے اور وہ جہاں بھی رہتا ہے، عمدہ اخلاق کی وجہ سے سب سے نمایاں ہوتا ہے۔ ہم ہر جگہ رہتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کرسکتے ہیں ، اگر ہم اچھے اور ذمے دار شہری بن جاتے ہیں تو پھر ہم کسی بھی شعبے میں چلے جائیں، کسی بھی مقام پر پہنچ جائیں، کسی بھی شہر یا دیہات میں زندگی گزاریں، ہم کبھی ملک و ملت اور معاشرے کے ساتھ دغا نہیں کریں گے، بلکہ ہمیشہ مفید ثابت ہوں گے، اگر ہم ایک اچھا شہری بن کر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا کرلیں تو یقین جانیئے معاشرے میں مثبت تبدیلی دنوں میں آسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔