ایک ہنگامہ بپا ہے

زبیر رحمٰن  منگل 15 اگست 2017
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

ملک گیر احتجاج ہو رہا ہے۔کہیں بجلی غائب ہونے پر لوگ سڑکوں پہ امنڈ آئے ہیں، کہیں گندے پانی کی سڑاند سے تنگ آ کرلوگ احتجاجاً ٹائر جلا رہے ہیں،کہیں پانی کی قلت پر پتیلی اور بالٹی سروں پر رکھ کر جلوس نکال رہے ہیں، کہیںکارخانے سے مزدوروں کی برطرفی کے خلاف مزدور سراپا احتجاج ہیں۔ابھی چند دنوں قبل فیصل آبادکے پاور لومزکے مزدوروں نے جلوس نکالا، حد تو یہ ہے کہ پاورلومز کے مزدوروں کو پندرہ دن بعد جب کوئی اور مزدور چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کرتا ہے تو اسے بدلے میں چھٹی ملتی ہے۔

ڈیرہ غازی خان کی بھری عدالت میں بھائی نے بہن کو پسند کی شادی کرنے پر گولی مار کر قتل کر دیا اور غیرت کے نام پر قتل کر کے پر خود پر فخرمحسوس کیا۔ یہی بھائی جب کل اپنی مرضی سے شادی کرے گا، تو اسے کوئی گولی نہیں ما رے گا، مگر بہن ماری جاتی ہے۔ یہ ہمارے دیس کا دستور ہے۔

حبیب جالبؔ نے درست کہا تھا کہ

اوجھڑی میں لوگ مرے تو مر گئے،

جتنے ہلاکو مرے، چنگیز مرے،

ڈاکو مرے شہید ہوئے

ایسا کیوں نہ ہو اس لیے کہ وہ حکمران طبقات کے لوگ ہیں۔ چودہ اگست کی آمد آمد تھی اور وہ آ گیا ہے۔آزادی کا جشن منانے کی بھرپور تیاریوں میں حکمران طبقات لگے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کیسی آ آزادی ہے؟ جہاں لوگ بھوکے مرتے ہوں، ادویات کی عدم دستیابی کے باعث لوگ جان سے جاتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال پر ہندوستان کی پندرہ اگست کی آزادی کے موقعے پرکمیونسٹ پارٹی آف انڈیاکے معروف انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے ایک نظم لکھی تھی، جس میں کہا تھا کہ

’ یہ آزادی جھوٹی ہے، جنتا ساری بھوکی ہے‘

یہ شعر پاکستانی صورتحال پر بھی من وعن صادق آتا ہے۔ پھول کا گملہ اچھا لگتا ہے لیکن اس سے پہلے روٹی چاہیے۔ بڑی عمارتیں، اونچی سڑکیں، فائیواسٹار اسپتال، اورینج ٹرین، ماڈل اسکول، ماڈل ٹاؤن وغیرہ بھی انسان کی ضرورت ہیں، لیکن سب سے پہلے اور آخری سوال روٹی کا ہے، اگر ایک عام انسان کو جینے کے لیے آٹا، دال، چاول، دودھ، چینی، تیل، گھی اور صاف پا نی نہ ملے تو وہ خوبصورت بسوں، سڑکوں اور عمارتوں میں کیونکر رہ سکتا ہے؟ اس کیلیے تو یہ سب کچھ کنکریٹ کا جنگل ہی تو ہے۔ ملکی سیاست میں بنیادی اور روزمرہ کی اشیائے ضرورت کی بات نہیں ہوتی ہے۔ حزب اختلاف بھی اس لیے بات نہیں کرتی کہ انھیں بھی اقتدار میں آکر یہی سب کچھ کرنا ہے۔

اس نظام میں رہتے ہوئے جتنی بھی اصلاحات کی بات کی جائے بے سود اور بے معنی ہو جائے گی۔ اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں بھوک سے مرنے کی آزادی ہوتی ہے اوردوسری جانب دولت کا انبار لگانے کی آزادی۔ عوام کو ایسے نان ایشوز پر لگا دیا جاتا ہے جس میں وہ ان مکروہ، بیہودہ باتوں اور مذاکروں میں الجھے رہیں۔

آج کل اسمبلی میں ایک دوسرے پر ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں جن کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ اسمبلی میں گالم گلوچ اور ہاتھا پائی اکثر ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان میں چالیس سال تک فوجی آمریت عوام پر مسلط رہی۔ عدالتیں، نظریہ ضرورت کا فیصلہ دیتی آ رہی ہیں اور میڈیا ہاؤس اپنی ریٹینگ میں مصروف کار ہیں۔ان سب کے محافظ اور آقائے نامدار عالمی سرمایہ دار ہے۔

یہاں تو سامراجی احکامات اور پالیسیاں ہی چلتی ہیں، عوام کی مرضی کی بات کہہ کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ سامراجی پاکستان کی معدنیات اور وسائل کی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کی قیمتی معدنیات اور وسائل سامراجی دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ برطانیہ نے ریلوے، سرنگیں، عمارتیں، سڑکیں، گرجا گھروں، تعلیمی ا داروں، نہریں اور بنیادی سماجی ڈھانچوں کی تعمیرکی اور ساتھ ساتھ لا کھوں ہندوستانیوں کا قتل کیا اورکھربوں ڈالرکی دولت یہاں سے لوٹی۔ ہندوستانی عوام نے آزادی کی جنگ لڑی اور انگریز استعماریت کو مار بھگایا۔

ہمارے حکمران پاکستان میں خود مختارکارخانے، فیکٹریاں لگانے اور بنجر زمینوں کو قابل کاشت کرنے کی کوشش میں لگنے کی بجائے عالمی سامراج اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے کی تگ ودو، آسرے اور انحصار پر تکیہ کیے ہو ئے ہیں۔ یقینا غیر ملکی کمپنیوں کا تو یہ و تیرہ ہے کہ وہ سرمایہ کاری ہی اس لیے کرتے ہیں کہ اپنی لوٹ میں اضافہ کریں۔اپنے سامان کی ترسیلات کے لیے ریل کی پٹری اور سڑکیں بناتے ہیں، یہ ان کی ضرورت ہے اورہمیں بھی فائدہ ہو جا تا ہے مگر بنیادی طور پروہ ہمارے فائدے کے لیے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنی تجارت اور لوٹ کے لیے کرتے ہیں۔

جس طرح ہم نے پرتگیزی اورانگریزاستعمارکو ملک سے نکال باہرکیا، کل دیگر سامراجی قوتوں کو بھی نکال باہرکرنا ہو گا۔ فرق اتنا ہے کہ کل ہم نوآبادیات تھے جب کہ آج جدید نو آبادیاتی ممالک کا حصہ ہیں۔ ہمیں اس وقت بڑی بڑی عمارتیں نہیں بلکہ سو فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت اور تعلیم کا بہتر نطام درکار ہے، ہمیں بم بنانے کی بجائے ملک میں کارخانوں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے جس میں بیروزگاروں کو دو نہ سہی ایک وقت کی روٹی تو مل جائے۔

ہمیں دال کی پیداوار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں دال دو سو روپے کلو کی بجائے پچاس روپے کلو فروخت ہو سکے، ہمیں گندم کی پیداوار کو اتنا بڑھانا چاہیے جس میں آٹا عوام کو بیس روپے کلو دیا جا سکے۔ ڈیری فارمز میں اتنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دودھ بیس روپے لیٹر مل سکے۔ اینمل ہزبینڈری (مویشی پالن)کو اتنا جدید اور موثرکیا جائے جس میں گوشت سو روپے کلو مل سکے۔ کنولا، بھٹہ، سویا بین، سرسوں، زیتون اور سورج مکھی کی پیداوار میں بے تحاشہ اضافہ کیا جائے جس میں عوام کو تیل پچاس رو پے کلو بیچا جا سکے۔یہ کام پہلے کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اونچی عمارتیں، سڑکیں، ماڈل اسکول، ماڈل کالونی، جدید کاریں، میٹرو وگرین بسیں۔

پہلے کارخانوں کا جال پھر زمینوں کی مشترکہ ملکیت کے ذریعے زراعت میں کمیون کا نظام، عوام کومفت، معقول اور بر وقت علاج فرا ہم کرنا ہو گا، اس کے بعد دوسری چمک دمک والے ترقیاتی پروجیکٹوں کی ضرورت ہے۔ چمک دمک والے پروجیکٹوں میں اگر ایک سو لوگوں کو روزگار ملتا ہے توکارخانے لگانے اور زمین تقسیم وکمیون کے نظام سے لاکھوں کروڑوں کو روزگار ملے گا۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیرطبقاتی امداد باہمی کے سماج میں ہی مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔