وکلا کا احتجاج

ایڈیٹوریل  بدھ 23 اگست 2017
۔ہمارے عدالتی نظام پر مختلف قسم کی منفی رائے معمول بنی ہوئی ہے ۔ فوٹو : فائل

۔ہمارے عدالتی نظام پر مختلف قسم کی منفی رائے معمول بنی ہوئی ہے ۔ فوٹو : فائل

چیف جسٹس کی سربراہی میں لاہورہائیکورٹ کے لارجر بنچ کی جانب سے ملتان بنچ کے جج کے ساتھ بدتمیزی کے معاملے پر توہین عدالت کیس میں پیش نہ ہونے پر ملتان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شیر زمان قریشی کوگرفتاری کے حکم پر وکلا نے زبردست احتجاج کیا ہے ‘بار اور بینچ ہمارے عدالتی نظام کے دو ایسے پہیے ہیں جن کے بغیر عدالتی نظام نہیں چل سکتا ۔ماضی میں بھی بار اور بینچ کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن انھیں خوش اسلوبی سے نمٹا دیا گیا ہے۔ اس بار صورت حال زیادہ خراب ہوئی ہے‘ وکیلوں نے احتجاج کے دوران عدالتی احاطے میں بھی جارحانہ انداز اختیار کیا‘ پولیس اور وکلا کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں ۔ وکیل اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ ہے اور یہی طبقہ آئین و قانون کو سب سے زیادہ سمجھنے والا ہے۔

احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے تاہم عام تنظیموں کے کارکنوں اور وکلا تنظیموں کے احتجاج میں فرق ہونا چاہیے۔ توڑ پھوڑ کرنا یا عدالتی احکامات کو ماننے سے انکار کرنا کم از کم وکلا حضرات کے شایان شان نہیں۔وکیلوں نے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے لیے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے‘آئین اور قانون کی سربلندی ہی وکیلوں کا سرمایہ افتخار ہے۔اگر ججوں کے احکامات کو وکیل ہی نہیں مانیں گے تو پھردیگر طبقوں کے سائلین عدالتی احکامات کو کیسے مانیں گے۔یہ بڑی گمبھیر صورت حال ہے۔اس پر سب کو سوچنا چاہیے۔

پاکستان پہلے ہی ادارہ جاتی بحران کا شکار ہے۔ہمارے عدالتی نظام پر مختلف قسم کی منفی رائے معمول بنی ہوئی ہے‘ ایسے حالات میں بار اور بینچ کو انتہائی ذمے داری اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ‘اداروں کو بے توقیر ہونے سے بچانا آئین اور قانون کے محافظوں کی پہلی ذمے داری ہے ۔اس لیے اس معاملے پر وکلا حضرات کو آگے بڑھ کر مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہمارے عدالتی نظام کا وقار متاثر نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔