شاہ زیب اور شاہ رخ دو کردار

یہ قصہ صدیوں پر پھیلے قصے کہانیوں کی طرح مختصر ہوجاتا اور وقت کی گرد میں گم ہوجاتا

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

NEW YORK:
شاہ رخ اور شاہ زیب دو فرد نہیں دو طبقے ہیں اور ان دو طبقوں کے درمیان محاذ آرائی آج کی بات ہے نہ محض 65 سال کی بات، ان دو طبقوں کے درمیان صدیوں سے لڑائی جاری ہے۔ اس لڑائی کا المیہ یہ ہے کہ شاہ زیب 98 فیصد ہوتے ہوئے بھی اس لڑائی کا کمزور فریق بنا ہوا ہے اور شاہ رخ دو فیصد ہوتے ہوئے بھی اس لڑائی کا طاقتور فریق بنا ہوا ہے۔ شاہ رخ نے شاہ زیب کی بہن سے بدتمیزی کی، شاہ زیب نے شاہ رخ کو اس وڈیرہ شاہی حرکت سے روکنے کی کوشش کی، شاہ رخ قبیلے کی قدروں کے مطابق شاہ رخ کو کسی کی بھی بہن بیٹی کو چھیڑنے، اس سے بدتمیزی کرنے، حتیٰ کہ اس کی آبرو لوٹنے کا حق حاصل ہے۔ شاہ رخ کا خیال تھا کہ شاہ زیب اسے اپنے آبائی حق کو استعمال کرنے سے روک کر گستاخی کا ارتکاب کر رہا ہے اور وڈیرہ شاہی تہذیب میں شاہ زیب کی اس گستاخی کی سزا موت ہے، سو اس نے شاہ زیب کو یہ سزا دے دی، اسے شاہ زیب کو یہ انتہائی سزا دینے میں کسی گواہ اور ثبوت، کسی قانون اور انصاف کی ضرورت تھی، نہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت۔ کیونکہ یہ ساری فضولیات اس کی جیب میں رہتی ہیں۔ سزا کا تعین اس کے ذہن نے کیا اور اس پر عملدرآمد اس کے ہاتھ میں موجود ہتھیار نے کیا۔ قصہ مختصر۔ یہ ہے مختصر کہانی وڈیرہ شاہی کلچر کی۔

یہ قصہ صدیوں پر پھیلے قصے کہانیوں کی طرح مختصر ہوجاتا اور وقت کی گرد میں گم ہوجاتا، لیکن ہمارے طاقتور میڈیا نے اسے اپنے چینلوں پر لاکر اس پرانے انصاف اور قانون کے اندھیروں میں گم ہوجانے والے قصے کو نیا بنادیا۔ جب یہ قصہ الیکٹرانک میڈیا سے ہوتا ہوا عوام تک پہنچا تو 98 فیصد نے آنکھیں مل کر دیکھا کہ یہ تو کھلا ظلم ہے اور اس طبقے کا ایک حصہ شاہ زیب پر ہونے والے اس ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا۔ شاہ رخ کے پیچھے کھڑے ہوئے نظام نے اپنے طبقے کے ایک فرد کو عوام کے غیظ و غضب اور شرماتے جھجکتے ہوئے قانون اور انصاف کی گرفت سے بچانے کے لیے شاہ رخ کو ملک سے باہر بھگادیا، لیکن میڈیا کی انگڑائی اور 98 فیصد کی ترجمان مڈل کلاس کی نیند سے جاگتی آنکھوں نے قانون اور انصاف کو اس طرح جھنجھوڑ ڈالا کہ شاہ رخ کا دو فیصد طبقہ اسے باہر سے واپس لانے پر مجبور ہوگیا اور شاہ رخ اب ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے صحیح عمر کے ساتھ جیل اور محترم عدلیہ کے درمیان چکر کاٹ رہا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ شاہ رخ مبینہ طور پر دن جیل میں گزارتا ہے اور رات اپنے کلفٹن کے بنگلے پر۔ اس قسم کی سہولتوں کا ہم نے جیلوں میں بھی تذکرہ سنا تھا، لہٰذا اس بات کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ شاہ رخ قید میں بھی آزادی کے مزے لے رہا ہوگا۔ شاہ رخ کو بڑوں کی جیل اور قتل کی سزا سے بچانے کے لیے قانون کی دفعات میں جھانک کر یہ کوڑی لائی گئی تھی کہ شاہ رخ ابھی بچہ ہے اس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور اس کی عمر کو اٹھارہ سال سے کم ظاہر کرنے کے لیے دانت گنوانے کی کوشش کی گئی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ شاہ رخ کے تو عقل داڑھ تک نہیں نکلی اور اس بہانے کو مضبوط بنانے کے لیے اس کی عمر کے جعلی سرٹیفکیٹ بھی لائے گئے لیکن بات چونکہ میڈیا نے اچک لی تھی لہٰذا شاہ رخ کو قانون اور انصاف سے بچانے کی کوششیں فی الوقت کمزور ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اس کی تعلیمی اسناد کے مطابق شاہ رخ کی عمر 20 سال کے لگ بھگ ہے اور اس کی روشنی میں شاہ رخ کو نہ بچہ جیل کی سہولتیں حاصل ہوسکتی ہیں نہ 302 کی سزاؤں سے بچنے کا فی الوقت کوئی امکان نظر آتا ہے۔ لیکن وڈیرہ شاہی نظام کی کمان میں ابھی بہت سارے تیر ہیں، دیکھیے یہ تیر کیسے آزمائے جاتے ہیں۔ اس نظام کی ستم دانیوں کا ایک اور ثبوت بلکہ شرمناک ثبوت اوگرا کے سابق سربراہ توقیر صادق کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس پر 86 ارب جی ہاں، 86 ارب کی کرپشن کا الزام ہے اور وہ بھی پاکستان سے باہر ابھی تک محفوظ زندگی گزار رہا ہے۔ اسے باہر بھگانے کا الزام ہمارے وزیر داخلہ پر عائد ہورہا ہے۔ یہ ہے اس 2 فیصد کے دو کردار جس سے بیدار ہوتا ہوا 98 فیصد نبرد آزما ہے۔


مشکل یہ ہے کہ ہمارے میڈیا، ہماری مڈل کلاس، ہماری عقل و دانش کی نظریں صرف شاہ رخ اور توقیر صادق پر جمی ہوئی ہیں۔ یہ نیم بیدار طاقتیں شاہ رخ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکتا اور توقیر صادق کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں لگی دیکھنا چاہتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارا نیم دروں، نیم بروں قانون اور انصاف سے 98 فیصد عوام خواہش ان کی توقعات پر پورا اترسکتا ہے یا نہیں؟ لیکن آج جو لڑائی ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر لڑی جارہی ہے اور بدقسمتی سے ہماری مڈل کلاس ہمارا اہل فکر طبقہ وڈیرہ شاہی کی پگڑی میں چھپی اس جمہوریت پر صدقے واری ہورہا ہے جو شاہ زیب کو صرف اس جرم میں سرعام گولیاں مار دیتی ہے کہ اس نے ایک وڈیرے کی اولاد کو اپنی بہن کے ساتھ دست درازی سے کیوں روکا؟

وڈیرہ شاہی ذہنیت کا دوسرا تازہ مظاہرہ کراچی ایئرپورٹ پر ایک ایم این اے کے جواں سال صاحبزادے نے ایک ایئرپورٹ سیکیورٹی افسر پر تشدد کرکے کیا۔ اس افسر پر اس جواں سال بددماغ نوجوان نے اس لیے شدید تشدد کیا کہ اس نے اسے خصوصی عزت نہ دی، جس کا وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتا تھا۔ ٹی وی اسکرین پر دنیا نے اس افسر کے زخم دیکھے جو تشدد کی وجہ سے آئے تھے۔ اس نوجوان کے ایم این اے باپ نے اپنے بیٹے کی اس حیوانیت پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے یہ کہا کہ سیکیورٹی افسر کی طرف سے خصوصی سلوک نہ کرنے سے نوجوان کا گرم خون جوش میں آگیا۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کی طرف سے آئے دن خواتین کی انفرادی اور اجتماعی بے حرمتی اور آبرو ریزی کے واقعات ٹی وی اسکرین اور اخباری صفحات پر دیکھے جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں غریب خاندانوں کی بہو بیٹیوں کے اغوا، آبرو ریزی، برہنہ جلوس اور ہاریوں، کسانوں کا قتل اس وڈیرہ شاہی کلچر میں روز کا معمول ہیں۔ ہاریوں کے خاندانوں کو نجی جیلوں میں قید کرکے ان سے عشروں تک بیگار لینا، ان کی بہو بیٹیوں کی عزت لوٹنا، اس قدر غیر اہم واقعات سمجھے جاتے ہیں کہ کوئی ان کا نوٹس بھی نہیں لیتا، جب کسی نشان دہی پر ہاریوں کے خاندانوں کو وڈیروں کی نجی جیلوں سے بازیاب کرواکر محترم عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے تو ہماری آزاد عدلیہ انھیں یہ انصاف دیتی ہے کہ وہ ''آزادی سے زندگی گزار سکتے ہیں''۔ انھیں عشروں تک اپنی نجی جیلوں میں قید رکھنے والے بدترین مجرموں کو سزا دینے کی کوئی خبر میڈیا پر نہیں آتی۔ اس انصاف ہی کی وجہ شاہ رخ آزادی سے گولیاں چلا رہا ہے۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ تین بار کی نیم دلانہ اور شاطرانہ زرعی اصلاحات کے باوجود وڈیرہ شاہی نظام ختم نہ کیا جاسکا اور آج بھی وڈیرے اور جاگیردار لاکھوں ایکڑ اراضی پر قابض ہیں، ان کی طاقت کا عالم یہ ہے کہ باوجود شدید دباؤ اور مطالبات کے آج تک اس طبقے سے زرعی ٹیکس تک وصول نہیں کیا جاسکا۔ یہ انصاف دشمن ایلیٹ 65 سال سے ہاریوں، کسانوں سے جبریہ ووٹ لے کر قانون ساز اداروں پر قابض ہوجاتی ہے اور سیاسی جماعتیں انھیں اپنے لیے اعزاز سمجھ کر اس لیے قبول کرتی ہیں کہ ''ان میں الیکشن جیتنے کی طاقت اور صلاحیت'' موجود ہوتی ہے۔ 8 جنوری کو عوامی ورکرز پارٹی کی طرف سے جاگیردارانہ نظام کے خلاف اور زرعی اصلاحات کے حق میں کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے گئے لیکن اسے اہم فیوڈل ذہنیت کا مظاہرہ کہیں یا میڈیا کی غیر ذمے داری کے اس اہم ترین مسئلے پر ہونے والے مظاہروں کی کوئی کوریج میڈیا نے نہیں کی۔

مڈل کلاس پر مشتمل بعض بڑی اور طاقتور سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاگیردارانہ نظام کے خلاف عشروں سے آواز اٹھائی جارہی ہے، لیکن یہ آواز اس لیے صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے کہ یہ آواز سڑکوں پر نہیں آرہی ہے، صرف بیانوں، تقریروں میں آرہی ہے۔ اگر اس ''فرسودہ جاگیردارانہ نظام'' کے خلاف عوام کے ہجوم سڑکوں پر نہیں آئیں گے تو شاہ زیبوں کی نوجوان بہنوں کو سرعام رسوا کیا جاتا رہے گا اور احتجاج کرنے والے شاہ زیبوں کو قتل کیا جاتا رہے گا۔
Load Next Story