نظریات کا جبری تسلط
پوپ نے ایک فتویٰ دیا جس کی رو سے ہر شخص کا یہ فرض قرار دیا تھا کہ وہ دوسروں کے مذہبی عقائد کی مخبری کرے۔
1233 میں رومن کلیسا نے مذہب میں تشدد کے دورکا باضابطہ افتتاح کیا، یعنی مذہبی عدالت قائم کردی۔ یہ عدالت لوگوں کے مذہبی عقائد کی چھان بین کرتی تھی اور جو لوگ ان کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے انھیں زندہ آگ میں جلا دینے کاحکم دے دیتی تھی چنانچہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملحد گرفتار کیے گئے اور ہزاروں کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا، اس زندہ جلانے سے زیادہ خوفناک وہ اذیتیں تھیں جو ان لوگوں کو تجدید سے توبہ کرانے کے لیے پہنچائی جاتی تھیں، بہت سی بدنصیب عورتوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ جادوگرنیاں ہیں اس لیے انھیں زندہ جلادیا۔
پوپ نے ایک فتویٰ دیا جس کی رو سے ہر شخص کا یہ فرض قرار دیا تھا کہ وہ دوسروں کے مذہبی عقائد کی مخبری کرے۔ پوپ نے علم کیمیا کی سخت مذمت کی اور اسے شیطانی عمل کے نام سے تعبیر کیا۔ لطف یہ ہے کہ یہ تمام ظلم و تشدد دیانت داری کے ساتھ کیا جاتا تھا یعنی سچ مچ وہ یہ ایمان رکھتے تھے کہ لوگوں کو آگ میں جلا کر وہ ان کی اور دوسروں کی روحوں کو ہلاکت سے بچا رہے ہیں۔ مذہب کے علم برداروں نے دوسروں پر زبردستی کی، اپنے عقائد جبراً ان سے منوائے اور ہمیشہ اسے دینی خدمت سمجھا، خدا کے نام پر انھوں نے بے شمار قتل اور خون کیے اور غیر فانی روح کو بچانے کے دعویدار بن کر انھوں نے فانی جسم کو جلا کر خاک سیاہ کرنے میں بھی تامل نہیں کیا اور جو لوگ ان وحشیانہ حرکت کے ذمے دار تھے وہ اپنے ذاتی نفع کے لیے ایسا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا پکا پکا عقیدہ تھا کہ یہ طرز عمل بالکل صحیح اور حق بجانب ہے۔
چودھویں صدی میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے جو ان دنوں برطانیہ کا ذہنی اور روحانی مرکز تھا ایسے دانشور نکلے جنہوں نے کلیسا کی ناانصافیوں کو دین مسیحی کی نفی سے تعبیر کیا، ان دانشوروں میں سب سے ممتاز جان وائکلف تھا، وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں استاد تھا مگر بعد میں پادری بن گیا۔ وہ اعتدال پسند کمیونسٹ تھا لیکن اس کا شاگرد جان پال اس سے بھی آگے نکل گیا، جان پال کسانوں میں وعظ کرتا تھا اور انھیں اشرافیہ کے خلاف بغاوت کی تلقین کرتا تھا، وہ کہتا تھا ''عزیزو! انگلستان کی حالت اس وقت تک نہیں سدھر سکتی جب تک آقا اور غلام باقی ہیں، اس وقت تک ہم میں مساوات نہیں ہوسکتی جن کو ہم اشرافیہ کہتے ہیں ان کے وجود کا کیا کوئی جواز ہے، وہ ہم سے کس اعتبار میں افضل ہیں، وہ ہمیں کیوں غلام بناتے ہیں؟ اگر ہم سب ایک ہی آدم اور حوا کی اولاد ہیں تو پھر وہ کیسے ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ ہمارے آقا ہیں اور ہم ان کے غلام۔
وہ ہمیں دولت پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں پھر اس دولت کو اپنے استعمال میں لاتے ہوئے خود تو ریشم اور کمخواب پہنتے ہیں اور ہم کو مو ٹے سوتی کپڑے پہننے پر مجبور کرتے ہیں، وہ گوشت اور میدے کی روٹی کھاتے ہیں اور ہم کو رائی کی روٹی بھی میسر نہیں آتی، و ہ عالیشان محلوں میں رہتے ہیں اور ہم کھیتوں میں بارش اور طوفان کے تھپیڑے کھاتے ہیں اور ہم وہ ہیں جن کی محنت سے ان کی ساری شان و شو کت قائم ہے مگر ہم غلام کہلاتے ہیں اور اگر ہم ان کے حکم سے سرتابی کریں تو ہماری پٹائی ہوتی ہے۔'' یہ باغیانہ باتیں تھیں چنانچہ جان پال کو 1381 میں پھانسی دے دی گئی۔ اسی زمانے میں ایک اور انقلاب پسند مذہبی فرقہ چیکو سلواکیہ میں پیدا ہوا، اس کا پیشوا پادری جان ہس تھا، جان ہس کو رومن کلیسا کے حکم سے آگ میں پھینک کر ہلاک کردیا گیا تھا اور اس کی ساری تصنیفات بھی جلادی گئی تھیں، سائنس اور چرچ کے درمیان سخت محاذ آرائی ہوئی۔ چرچ اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ لوگ سوچیں اور تجربہ کریں۔
چرچ کے خیال میں زمین کائنات کا مرکز تھی اور سورج اس کے گرد چکر لگاتا تھا۔ اگر کوئی فرد اس مفروضے کے خلاف کہتا تو اسے کافر اور مرتد قرار دے کر ''عدالت استیعال الحاد'' میں پیش کردیا جاتا جو سخت ترین سزائیں دیتی تھیں۔ اس کے باوجود ایک پولش سائنس دان کوپرنیکس نے کائنات کے بارے میں چرچ کے تصورات کو چیلنج کردیا۔ اس نے ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس طرح اس نے کائنات کے متعلق جدید تصور کی بنیاد رکھی۔ وہ 1473 سے 1543 تک زندہ رہا۔ اپنے انقلابی اور ملحدانہ خیالات کے باوجود وہ چرچ کے غضب سے محفوظ رہ گیا، اس کے بعد ایسے خیالات رکھنے والے لوگ زیادہ خوش نصیب نہ ثابت ہوئے۔ گیارڈینو برونو ایک اطالوی سائنس دان تھا جسے زمین کی گردش کے نظریے پر کاربند رہنے کے جرم میں 1600 عیسوی میں زندہ جلادیا گیا۔
اسی ماہر فلکیات نے نظریہ پیش کیا کہ ستارے بھی بذات خود سورج ہیں۔ ایک اور سائنس دان گلیلیو، جس نے دوربین ایجاد کی چرچ کے زیرعتاب آگیا لیکن وہ برونو کے برعکس بہت کمزور آدمی ثابت ہوا اس نے منحرف ہونا ہی مناسب سمجھا اور چرچ کے سامنے اعتراف کرلیا کہ وہ غلطی پر تھا۔ مسیحی کلیسا خود ایک سلطنت بن گیا تھا، تقریباً ہزار برس کے بعد ایک زبردست انقلاب آیا، اس انقلاب کی محرک وہ سماجی اور تہذیبی نشاۃ ثانیہ تھی جو چودہویں صدی میں اٹلی کی تجارتی بندرگاہوں سے شروع ہوئی اور دھیرے دھیر ے سارے یورپ میں پھیل گئی۔ اس انقلاب کو ریفارمیشن (اصلاح) کہتے ہیں۔ اصلاح مذہب کی تحریک پوپ کی بالادستی کے خلاف یورپ کے حکمرانوں کی بھی بغاوت تھی، اس تحریک کا سرغنہ مارٹن لوتھر نامی ایک جرمن پادری تھا۔ ان سب تحریکوں کے پیچھے ایک اور بہت بڑا عنصر پرنٹنگ یا طباعت کا تھا۔
عربوں نے کاغذ بنانا چینیوں سے سیکھا اور عربوں سے یہ فن یورپ میں پہنچا لیکن کاغذ کو سستا اور وافر ہونے میں بہت عرصہ لگا۔ پندرہویں صدی کے آخر تک یورپ کے مختلف حصوں میں کتابیں چھپنا شروع ہوگئی تھیں، اس صنعت میں ہالینڈ، اٹلی، انگلینڈ اور ہنگری سب سے آگے تھے۔ کاغذ اور طباعت کی آمد کے ساتھ ہی ایک انقلابی تبدیلی آگئی، چھپی ہوئی کتابیں منظر عام پر آئیں اور عام لوگوں کے علاوہ اسکولوں اور طالب علموں تک پہنچ گئیں، جتنے لوگ زیادہ پڑھتے ہیں ان کے ذہن میں وسعت آتی ہے، وہ زیادہ سوچتے ہیں، جس قدر زیادہ کوئی سوچے گا تو وہ حالات کا گہرا جائزہ لے گا۔ یہ ہی بات، صورت حال کو بدلنے کا سبب بنتی ہے۔ جہالت ہمیشہ تبدیلی سے خائف رہتی ہے، اس وقت سب سے پہلے چھپنے والی کتابوں میں بائبل شامل تھی، اس سے پہلے لوگ جنہوں نے بائبل کا لاطینی متن ہی سن رکھا تھا اور بائبل کو سمجھنے میں ناکام رہتے تھے اب وہ اسے اپنی زبان میں پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہو گئے تھے، اس کی وجہ سے پادریوں کی اجارہ داری ختم ہوکر رہ گئی اور لوگ پادریوں سے باغی ہوگئے اور انقلاب شروع ہوگیا۔
صدیوں پہلے رومن کلیسا نے جو مذہب میں تشدد کا افتتاح کیا تھا آج صدیوں بعد وہ ہی سب کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔ خدا کے نام پر قتل کیے جارہے ہیں، مذہب کے نام پر لوگوںکو وحشیانہ سزائیں دی جارہی ہیں۔ اپنے عقائد اور نظریات جبراً لوگوں پر مسلط کیے جارہے ہیں۔ اگر انتہاپسندی اور جنونیت کا بڑھتا ہوا یہ طوفان اس قدر وسیع ہوگیا کہ اس پر طاقت سے قابو پانا بھی مشکل ہوگیا تو شاید یہ ایک ایسی تباہی ہوگی جس کی لپیٹ میں پوری دنیا بھی آسکتی ہے۔ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، پاکستان کو واقعی روشن خیال جمہوری اور قانون کی بالادستی رکھنے والا انسان دوست ملک بنا کر اس صورت حال سے محفو ظ رہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے عوام کو متحرک کرنا ضروری ہے، ملک میں جمہوریت پسند قوتیں اگر بھرپور حوصلے کا مظاہرہ کریں تو پاکستان سے انتہاپسندی اور جنونیت کا خاتمہ ممکن ہے۔