چھاتہ بردار سیاستدان

طارق محمود میاں  ہفتہ 16 فروری 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ شاید ایک بار پھر میں بہت دشمنیاں مول لینے والا ہوں اور یہ جو میرے گنے چنے دو چار پڑھنے والے ہیں ان میں سے کتنے ناراض ہوجائیں گے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی بات پر میری ان 80 سالہ بزرگ سے اس دن لڑائی ہوگئی جب انھوں نے قہقہہ لگاکے کہا تھا ’’ہاہا ہا۔۔۔۔!میرا کیا ہے، یہاں اب کرایے کے مکان میں رہتا ہوں، کچھ گڑبڑ ہوئی، حالات اور خراب ہوئے تو۔۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔میں نے کیا کرنا ہے، بس ایک ٹکٹ کٹوانا ہے اور اڑن چھو ہوجانا ہے۔۔۔۔ہوہوہو۔‘‘ یہ وہ صاحب تھے جو میرے ملک میں شاندار زندگی گزار چکے۔ ایک آئل ریفائنری اپنی نگرانی میں لگوائی اور دوسری کا ڈیزائن تیار کرکے ریٹائر ہوگئے۔ اب وہ فرنچ کٹ داڑھی، گرے جینز اور فان کلر کی جیکٹ پہنے ہمارے سامنے اپنی ٹمی زور زور سے ہلا رہے تھے۔ موصوف اتنی تڑیاں اس لیے دے رہے تھے کہ ہم لوگ تو شہر کی خونیں صورت حال سے سہم کے مایوسی کی باتیں کر رہے تھے اور ان کی ساری آل اولاد اپنے مال و اسباب سمیت دبئی اور کینیڈا منتقل ہوچکی تھی۔

ایک لمبے چوڑے اور طویل المدتی عمل سے گزرنے کے بعد کسی غیر ملک کی شہریت حاصل کرنے والے یہی کرتے ہیں۔ مولانا قادری کی وجہ سے دہری شہریت کا ایشو کھل کر سامنے آیا ہے تو اس کے بہت سے مکروہ پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دہری شہریت کی سیاسی بات کرنے والے بڑی چالاکی سے تمام اوورسیزپاکستانیز کو دہری شہریت کی گنتی میں شامل کرلیتے ہیں۔ ایسا وہ اپنے کیس کو مضبوط کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ وہ لوگ اس کیٹیگری میں شامل ہی نہیں۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی جنھوں نے وہاں کی شہریت حاصل نہیں کی وہ تو سو فیصد پاکستانی ہیں۔ انھیں اس طبقے میں کیونکر شامل کیا جاسکتا ہے جو کسی دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھاچکا ہے۔ ایسے اوورسیز پاکستانیوں میں اور ہم لوگوں میں جو پاکستان میں رہتے ہیں قطعاً کوئی فرق نہیں۔ بس یہ ہے کہ ہم نے اپنا روزگار یہاں تلاش کرلیا ہے اور انھوں نے کسی اور ملک میں۔

باقی رہی بات اس قلیل سی تعداد کی جنھوں نے کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے تو ٹھیک ہے، ان کے اس انتخاب پر بھی کسی کو معترض نہ ہونا چاہیے بلکہ انھیں مبارک ہو کہ انھوں نے مستقل طور پر اپنا ٹھکانہ اور اپنی وفاداری اپنی مرضی سے تبدیل کرلی۔ وفاداری کے ساتھ ’’تبدیل‘‘ کا لفظ میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ کیونکہ میری سمجھ میں ہرگز نہیں آتا کہ وہ جادوئی جذبہ کون سا ہے جس کے تحت کوئی شخص بیک وقت دو ملکوں کا وفادار ہوسکتا ہے۔ کسی کو بہت سے ملکوں سے محبت ہوسکتی ہے، لیکن وفاداری ایک ہی ملک سے نبھائی جاسکتی ہے۔ مثلاً میں شہری پاکستان کا ہوں، مجھے کچھ اور خوبصورت ملک بھی اچھے لگتے ہیں، لیکن میں ان کا وفادار نہیں ہوں۔ نہ میں نے ان سے وفاداری کا اور ان کے لیے لڑنے مرنے کا حلف اٹھایا ہے اور نہ ہی میرا کوئی بیٹا ان کی فوج میں نوکری کرتا ہے۔صحیح صورت حال یہی ہے۔

جہاں تک دہری شہریت دینے کا تعلق ہے میرے نزدیک یہ فقط ایک سہولت ہے جو ہمارا ملک اپنے سابقہ باشندوں کو دیتا ہے تاکہ وہ وفاداری تبدیل کرنے کے بعد بھی اپنے وطن اور رشتے داروں سے آزادانہ رابطہ قائم رکھ سکیں ورنہ وہ تو کسی اور کا حلف وفاداری اٹھاتے ہی ہمارے لیے غیر ملکی بن جاتے ہیں۔ ایک غیرملکی کے پاس ووٹ دینے کا بھی حق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ لوگ اتنے مکمل غیر ملکی ہوتے ہیں کہ پاکستان کا دورہ کرنے کے دوران، ان کے نئے ملک کے اہلکار ان کی سیکیورٹی کا پورا خیال رکھتے ہیں اور باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرتے ہیں کہ کہاں کہاں جانا ہے اور کہاں احتیاط کرنی ہے۔ حالات خراب ہونے پر وہ انھیں فوری طور پر ملک چھوڑنے کو بھی کہتے ہیں، میں نے بارہا دیکھا ہے کہ ایسے میں وہ پاکستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر فوراً اپنے نئے وطن کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔

انھی دہری شہریت والوں کا یہ احسان باربار جتایا جاتا ہے کہ وہ اربوں ڈالر زرمبادلہ بھیجتے ہیں اور وہ پاکستان کے ان داتا ہیں، یہ سراسر غلط ہے۔ وہ کوئی پیسہ نہیں بھیجتے۔ جو لوگ برسوں کی کوشش کے بعد باہر جانے اور کسی غیر ملک کی شہریت لینے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کا پاکستان سے رابطہ بس غرض مندی کا رہ جاتا ہے۔ ان کی اکثریت باہر سیٹل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ یہاں موجود اپنی تمام مال و دولت باہر لے جانے میں جت جاتے ہیں اور تمام کاروبار اور سرمایہ کاری بھی پھر بس وہیں کرتے ہیں۔ آپ بھی اپنے دوستوں اور عزیزوں میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جو دھیرے دھیرے پورے خاندان کو باہر لے گئے۔ وہ اب پاکستان تشریف لاتے بھی ہیں تو یہاں بچی کھچی جائیداد بیچنے یا جو مکان بکے نہیں ان کے کرایے وصول کرنے۔ وہاں سے انھوں نے ڈالر کیا بھیجنے ہیں، انھیں تو یہاں کا روپیہ ہی برا لگتا ہے کہ اس کی قدر کم ہوتی رہتی ہے۔ اس حساب سے ان کی یہاں رکھی ہوئی رقم اور خریدی ہوئی جائیداد کی مالیت بھی کم ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے ہبڑدبڑ سب کچھ باہر لے جانے کی دوڑ لگی رہتی ہے۔ ان میں سے جو زیادہ دور اندیش ہیں وہ ایک مکان یہاں باقی رکھتے ہیں اور کبھی کبھار چکر لگاتے رہتے ہیں کیونکہ انھیں موم کے بنے ہوئے جن دامادوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی فصل یہیں اگتی ہے۔ ضرورت کا یہ سلسلہ بھی بس دو ایک نسلوں تک جاری رہے گا۔ پھر غیرملکی اولاد خودکفیل ہوجائے گی۔

آپ ہی بتائیے کہ ایسے میں پاکستان سے ان کی وفاداری کیا اور اس پر احسان کیسا؟آپ آزما کے دیکھ لیں یہ کسی بھی صورت میں اپنی غیرملکی شہریت چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ آپ نے حال ہی میں دیکھا ہے ہماری اسمبلیوں کے درجنوں ممبروں نے اپنی سیٹیں تو چھوڑدیں مگر غیرملکی شہریت ترک نہیں کی۔ میں اسی بات کو وفاداری کی تبدیلی کہتا ہوں۔ یہ چھاتہ بردار سیاستدان ہیں جو پیراشوٹ کے ذریعے اتر کے یہاں سیاسی تفریح کرنا چاہتے ہیں۔

باقی رہی بات باہر سے آنے والے اربوں ڈالرز کی تو وہ زیادہ تر وہی لوگ بھیجتے ہیں جن کا میں نے الگ سے ذکر کیا ہے۔ یہ وہ اوورسیز پاکستانی ہیں جو نوکری کرنے یا کاروبار کرنے عارضی طور پر باہر گئے ہوئے ہیں، یہ ملک کے سب سے بڑے محسن ہیں۔ ان میں سے اکثریت مڈل ایسٹ میں ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں ویسے بھی شہریت دی ہی نہیں جاتی۔

چند برس پہلے کی بات ہے کہ کینیڈا کے شہری، میرے ایک شناسا نے دھڑا دھڑ پاکستان میں انویسٹمنٹ شروع کردی۔ کراچی میں پلاٹ اور اپارٹمنٹ خریدے اور پنجاب میں اچھی خاصی زرعی زمین۔ میں بڑا متاثر ہوا کہ اتنی مدت کے بعد اسے وطن کی محبت واپس کھینچ کے ادھر لارہی ہے، لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ کاروباری آدمی تھا اور اسے جہاں اچھا منافع دکھائی دے رہا تھا اس نے پیسہ وہاں لگایا۔ 2008 کی عالمی کساد بازاری میں جب کینیڈا اور امریکا میں پراپرٹی کی قیمت تباہ و برباد ہوگئی تو وہ بھاگا بھاگا پاکستان آیا اور جو بھی دام ملا اس پر اس نے اپنی تمام کی تمام جائیداد بیچ ڈالی۔ ان پیسوں سے اس نے امریکا میں بہت سے پٹرول پمپ اور مکان بہت ہی معمولی دام میں خرید لیے۔ اب اس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ اس نے وہاں ایک پاکستانی سیاسی جماعت کی اچھی خاصی تنظیم کھڑی کرلی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب وہ بھی یہاں کی سیاست میں اترنے کے لیے پیراشوٹ کی تلاش میں ہوگا۔

ایسی ہی اور بھی بہت سی مثالیں یاد آرہی ہیں، لیکن ان میں اکثریت ان بوڑھے اور بوڑھیوں کی ہے جو اس کالم کے آغاز میں مذکور کردار کے مماثل ہیں۔ یہ لوگ ایک آدھ فلیٹ یا چھوٹے موٹے مکان کے سوا ایک ایک پائی باہر منتقل کرچکے ہیں اور باہر سے صرف اسی وقت پاکستان تشریف لاتے ہیں جب وہ نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کی بے بی سٹنگ کرتے کرتے اور نیپیاں بدلتے بدلتے تنگ آجاتے ہیں۔ ورنہ ان کا یہاں کوئی مفاد باقی نہیں۔ وہ بس ایک اچھی موت کے منتظر ہیں۔ مرگئے تو اولاد باہر سے آئے گی اور لاش کو ٹھکانے لگانے کے فوراً بعد آخری مکان اور فلیٹ اونے پونے بیچ کر ہمیشہ کے لیے کوچ کرجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔