میرے محسن

محمد فیصل شہزاد  پير 18 فروری 2013

بچپن ہی سے ہمیں دو شوق رہے ہیں۔ ایک قصے کہانیاںسننے کا اور دوسرا گھومنے پھرنے کا۔اوّل الذکر کو بہرحال اوّلیت حاصل رہی۔ قصے کہانیاں ہم کسی سے سن تو سکتے نہیں تھے کہ ہماری دادی محترمہ ہماری پیدائش سے پہلے ہی اللہ میاں کے پاس جا چکی تھیںاور پیشہ ور قصہ گو ہمارے زمانے میں تھے نہیں، اس لیے ہم نے بجائے سننے کے پڑھنے پر ہی اکتفا کیا اوردادی اماں کی جگہ ہم نے محلے کی لائبریری کودے دی ۔پہلے پہل ہم نے بھی دوسرے بچوں کی طرح مظہر کلیم صاحب کی بچوں کی کہانیاں آنگلو بانگلو، چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو اور عمروعیارکے کمالات پڑھے۔ ہمیں یاد ہے، اُن دنوں تصورکی دنیا بادشاہوں کے محلات، بہادرشہزادوں، چنگھاڑتے دیوئوں اور جادوگروں کے سحر سے آباد رہتی تھی۔بہرحال اپنے معمولی جیب خرچ سے آٹھ دس سال کی عمر تک ہم نے بچوں کا ادب چاٹ لیا۔

اس کے بعد سنِ بلوغ میں قدم رکھا توچند سال تک اشتیاق احمد صاحب کی انسپکٹر جمشید سیریز اور پھر ابن صفی اور مظہر کلیم کی عمران سیریز سے دل بہلاتے رہے۔ یہ کہانیوں پڑھنا اس وقت ہم بچوں کے لیے بہت آسان تھا۔جیب خرچ سے معمولی بچت کی اور آٹھ آنے، روپے کرائے پر پڑھ لیں۔چونکہ ہر چیز کی طرح مطالعے کا ذوق بھی بتدریج ہی پروان چڑھتا ہے،اس لیے دھیرے دھیرے ڈائجسٹوں نے بچہ کہانیوں کی جگہ لے لی۔ سسپنس،اردو ڈائجسٹ، سرگزشت اور پھرسب رنگ ڈائجسٹ۔ خصوصاً سب رنگ کے ڈائجسٹ تو اپنی پیدائش سے پہلے کے بھی جمع کر لیے۔کیسے کیسے معرکۃ الآرا سلسلوں نے عرصہ تک اپنی گرفت میں لیے رکھا۔سب رنگ کے انکا،امر بیل،اقابلا ، جانگلوس اور پھر بازیگر، سسپنس کے دیوتا اور موت کے سوداگر،نے ہمیں گلی کوچوں میں نکلنے ہی نہیں دیا ۔پھر انھی ڈائجسٹوں نے خصوصاً سب رنگ نے ہمیں اردو ادب اور بین الاقوامی ادب سے متعارف کروایا۔ اور یوں دنیا کے عظیم لکھاریوں کی نگارشات سے ہم محظوظ ہوئے۔ یہیں ہم نے اپنے سب سے پسندیدہ لکھاری ابوالفضل صدیقی مرحوم کی کہانیاں’ چڑھتا سورج ‘’خونی ‘ اور’گلابِ خاص ‘پڑھی اور پھر ان کے روہیل کھنڈ کے سحر میں مبتلا ہو کر ان کی باقی کہانیاں پڑھنے کے شوق نے ہمیں اردو بازار کی خاک چھاننے پر مجبور کیا۔ماضی کو نقش کرنے والے قاضی عبدالستار ،لیلیٰ کے خطوط کے خالق قاضی عبدالغفار، منفرد قلم کار سید رفیق حسین جیسے صاحبِ طرز ادیبوں سے ہم یہیں واقف ہوئے۔ خدیجہ مسروراور ہاجرہ مسرور دونوں بہنوں کی کٹیلی کہانیاں ہم نے یہیں پڑھیں۔ کرشن چندر کے طنز نے اسی واسطے کے ذریعے ہمارے دلوں کو چھیدا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے پراثر افسانے ہم نے یہیں پڑھے۔ہم جو اردو کے علاوہ دوسری زبان نہ جانتے تھے، دنیا کا بہترین منتخب ادب، بہترین ترجمے کے ساتھ صرف دو روپے روز پر یہیں پڑھا۔ جاسوسی ادب میں سر آرتھر کانن ڈائل کے شہرۂ آفاق کرداروں شرلاک ہومز اور بریگیڈیئر جیرارڈ کے کارناموں سے ہم اسی واسطے سے واقف ہوئے ۔سی بی گلفورڈ، الفریڈہچکاک اورہنری سلاسر نے اپنی گتھیوں سے ہمارے ذہن کی پالش کی تو ذریعہ یہی ڈائجسٹ بنے۔

کہانی جسے عربی میں ’’قصہ‘‘،فارسی میں ’’افسانہ‘‘ اور انگریزی میں ’’فکشن ‘‘ کہتے ہیں، دنیا بھر میں ادب کی سب سے محبوب اور مقبول صنف ہے۔لیکن پاکستان جیسے نیم خواندہ ملک میں جہاںنوے فیصد آبادی کی زندگی روٹی، کپڑا اور مکان کے گرد ہی گھومتی ہو، جہاں آمدنی کا اوسط اسی روپے روز ہو اور جہاں پڑھنا پڑھانا صرف کمانے کے مقصد کے لیے ہوتا ہو،وہاںکہانی کہنا اور پڑھنا ذہنی عیاشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اس ماحول میں فکشن پڑھنے کا رواج کچھ ان ڈائجسٹ ہی کی وجہ سے پڑا۔افسانوں کے ضخیم مجموعے خریدنے کی نہ ہر ایک میں استطاعت ہے اور نہ اچھی کتابیں ہر جگہ باآسانی میسر ہیں، ایسے میں رسائل ، میگزینز اور ڈائجسٹوں کے کردار کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔

ڈائجسٹ جن کا شمار سنجیدہ رسائل میںکبھی نہیں کیاگیا اور جنھیں ادبی رسائل سے الگ اور گھٹیا سمجھا گیا۔ وہ ادبی رسائل جن کی ماہانہ اشاعت کبھی پانچ سو ، ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی، اور ان میں سے بھی آدھے اعزازی تقسیم کیے جاتے ہیں،جب کہ ڈائجسٹ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں اور ہر جگہ میسر بھی ہیں۔

عرصۂ دراز تک ہم لوگوں سے یہی سنتے رہے کہ میگزین اور ڈائجسٹ پڑھنا کسی طرح سنجیدہ مطالعے کے زمرے میں نہیں آتا۔ ایک زمانے میں ڈائجسٹ پڑھنا سنجیدہ لوگوں کے نزدیک آوارگی اور لوفر پن کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ہمارے ایک دوست کے پاس ایک دو مشہور ادیبوں کے چند افسانوی مجموعے تھے ، جنھیں دکھا کر وہ بڑے فخر سے ہمیں کہتے کہ انھیں پڑھو، لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ اردو ادب سے ہم ان سے زیادہ واقف تھے اوریہ واقفیت پانچ دس روپے کرائے کے ڈائجسٹ کے ذریعے ہوئی۔ادبی رسائل کے بارے میں ہمیشہ یہی سنا کہ یہ خواص کے لیے ہوتے ہیں، عوام کے لیے نہیں، لیکن سب رنگ، اردو ڈائجسٹ اور سرگزشت جیسے رسائل نے عام آدمی تک خالص ادب بہترین شکل میں پہنچایا اور یوں عام آدمی کی ذہن سازی کر کے انھیں شعوری طور پر اتنا میچور کر دیا کہ وہ اونچے معیار کی چیزیں بھی با آسانی ہضم کر سکیں۔

ڈائجسٹوں پر ایک الزام یہ لگایا جاتا رہا ہے کہ ان میں غیر سنجیدہ اور غیر معیاری چیزیں بھی چھپتی ہیں ۔بے شک ایسا ہوتا ہے لیکن سب جگہ نہیں۔اور پھر غیر معیاری کام خود پائیدار نہیں ہوتا۔ معیاری کام آہستہ آہستہ’’ بھرتی‘‘ کے کاموں سے ممیز ہو جاتا ہے، اس لیے تمام ڈائجسٹوں کو اور ان کے لکھاریوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا قرینِ انصاف نہیں ہے۔ دنیا کے بڑے نامور لکھاری بھی پہلے پہل ڈائجسٹ میں چھپے ، مقبول ہوئے اور پھر ان کے کام کو عالمی اعزاز سے نوازا گیا۔ پاکستان میں اور کچھ نہیں تو کم ازکم ڈائجسٹ کے اس کردار کا اعتراف توضرور ہی کرنا چاہیے جو سنجیدہ مطالعے کے ذوق کی پیاس پیدا کرنے میں انھوں نے کیا۔

ہم سال بھر میں مختلف دن مختلف ناموں سے مناتے ہیں۔ توکیا خیال ہے اگر ایک دن ایسا بھی منایا جائے جس کا نام ’’اعتراف ڈے‘‘ ہو، تا کہ کم ازکم ہم سال میں ایک دن تو اپنے علاوہ دوسروں کی خوبیوں کا ادراک کرکے ان کا اعتراف کر سکیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ہم پر کسی بھی نوعیت کا احسان کیا ہو،ا ن کا شکریہ ادا کریں۔ میں آج اس تحریر کے ذریعے سب سے پہلے اپنے انھی محسنین کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے عرصہ تک ہمیں شاد کام رکھا، ہماری خلوتوں کو رنگا رنگ مناظر سے سجایا۔جی ہاں! سب سے پہلے میں اپنے والدین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے دوسرے والدین کی طرح کبھی ہمیں کہانیاں پڑھنے سے نہیں روکا، اس کے بعد کرایہ لائبریری چلانے والے شکریے کے مستحق ہیں، اس کے بعد سب رنگ کے مدیر محترم شکیل عادل زادہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے پچھلے بیس سال سے ہمیں دنیا کے بہترین ادب سے روشناس کرایا۔ میں معراج رسول اور الطاف حسن قریشی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، کہ ان کے سسپنس، سرگزشت اور اردو ڈائجسٹ کے ذریعے ملک کا بہترین ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آیا اور یوں ہمیں بہترین تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ سب کا بہت شکریہ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔